Baseerat Online News Portal

چراغ پاسوان: رام کا ہنومان اگرایودھیا کی لنکا لگے توکیا ہوگا؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

 نتیش کمار نے ریکارڈ نویں بار بہار کے وزیر اعلی بننے  کے بعد  اپنے من کی بات اس طرح کی کہ :’’ ہم پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ تھے۔ ہم جہاں تھے ، وہیں واپس آ گئے ہیں ‘‘  یعنی ’لوٹ کے بدھو گھر پہ آئے‘۔ اپنے24 سالہ  طویل   سیاسی سفر میں  نو بار بہار کے وزیر اعلیٰ بننے کی خاطر انہیں  بار بار بوریا بستر لے کر فرار ہونے کے بعد  گھر واپسی کرنی پڑی   ۔ پہلی بار اس عہدے کو سنبھالنے سے قبل  وہ  اٹل بہاری واجپئی کی زیرقیادت مرکزی حکومت میں  وزیر ریلوے کے اہم عہدے پر فائز تھے مگر کی وزارت اعلیٰ کی کرسی انہیں کھینچ کر دہلی سے پٹنہ لے آئی ۔   3 مارچ 2000 کو ان کے لیے جو  چور دروازہ کھولا گیا تو وہ پھر کبھی بند ہی نہیں ہوا۔  موصوف  کے لیے یہ  چور دروازہ دونوں جانب کھلتا ہے۔ وہ اس  سے  جب چاہتے ہیں اندر داخل ہوجاتے ہیں اور اپنی سہولت سے  باہر  بھی نکل جاتے ہیں ۔ نتیش کمار پہلی بار صرف  ۷؍دن کے لیے وزیر اعلیٰ بنے لیکن  دوسری بار  24 نومبر 2005 کو وہ اس عہدے سے ایسے چپکے کہ پھر آندھی آئے یا طوفان  کوئی فرق نہیں پرا ۔  درمیان میں نو مہینے  کے لیے کٹھ پتلی  جتن کمار مانجھی کا استثناء ضرور  ہے حالانکہ اس دوران بھی سارا کام نتیش کمار کے اشاروں پر ہی ہوتا رہا ۔

بہار کا یہ تازہ  کھیل 2024 کے انتخابات کو پیش نظر کیوں  کھیلا گیا یہ جاننے کےلیے پچھلے انتخابات  میں بہار کے نتائج  پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے  ۔یہ حقیقت قابلِ توجہ ہے کہ 2019؍کا انتخاب  نریندر مودی  کی قیادت میں  نتیش کمار کو ساتھ لے کر لڑا گیا تھا اس کے باوجود  بی جے پی کے ووٹ کا تناسب تقریباً 6؍ فیصد کم ہوگیا تھا اور اس کے صرف   17؍ امیدوار کامیاب ہوسکے تھے ۔ اس طرح 2014 کے مقابلے اس کو 5؍ نشستوں کا نقصان ہوا تھا حالانکہ  وہ سب کی سب نشستیں جیت گئی تھی لیکن  چونکہ اسے بلیک میل کرکے جنتا دل یو نے برابر کی  نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اوران میں سے بھی ایک ہار گئی تھی  اس کے باوجود اس کو 14؍ نشستوں کا فائدہ ہوا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ بی جے پی کے ساتھ پارلیمانی انتخاب لڑنا جہاں ایک طرف  بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا وہیں دوسری جانب نتیش کمار کی جنتا دل یو کےلیے فائدے مند ٹھہرا تھا۔  پچھلے قومی انتخاب بی جے پی اور جے ڈی یو  کے ووٹ فیصد میں  تقریباً ڈیڑھ فیصد کا فرق  رہ گیا تھا  کیونکہ بی جے پی کے ووٹ تناسب میں جہاں تقریباً 6 فیصد کی کمی آئی تھی وہیں  جے ڈی یو کا ووٹ اسی قدر بڑھا تھا ۔

بی جے پی اور جنتا دل (یو)   کے اس کھیل کا تیسرا کھلاڑی  رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی  بھی تھی جس نے اپنے ووٹ  میں تو ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کر کےتھامگر نشستوں کی تعداد پہلے کی طرح 6 ؍ پر بنی رہی۔ ان تینوں  کی مجموعی کوششوں کے نتیجے میں ا س اتحاد کو  جملہ  53 ؍ فیصد سے زیادہ ووٹ مل گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس  صرف اپنے ایک مسلمان امیدوار کو کشن گنج سے کامیاب کرسکی اور دیگر کوئی جماعت اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ۔  عظیم اتحاد کی 9؍ نشستوں کا نقصان این ڈی اے کا فائدہ بن گیا ۔ بی جے پی کے لیے یہ  خسارہ  ناقابلِ برداشت تھا اس لیے اس نےنقصان  بھرپائی  کے لیے اپنے ہی حامی جے ڈی یو کو کمزور کرنے کی سازش رچی اور ریاستی انتخاب میں اس مقصد کے لیے ایک سازش رچی ۔ یہ سازش اگر کامیاب  ہو جاتی  تو بی جے پی کو بہار میں  نتیش کمار سے اسی طرح چھٹکارہ مل جاتا جیسے مہاراشٹر میں شیوسینا سے مل گیا مگر ایسا نہیں ہوا۔   اسے بادلِ ناخواستہ نتیش کے زہر کا گھونٹ پینا پڑا۔ریاستی انتخاب کے اعدادو شمار بی جے پی کے ذریعہ  اپنے ساتھی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی  سازش  کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

2019؍ پارلیمانی انتخابی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے لحاظ سے ریاستی انتخاب میں بی جے پی کو 96؍ ، جنتا دل (یو) کو 92؍ اور ایل جے پی کو 35؍ نشستوں پر کامیاب ہونا چاہیے تھا یعنی این ڈی اے کو بڑے آرام سے 223 ؍ نشستیں جیت کر حکومت سازی کرنے کا موقع مل سکتا تھا جبکہ ان کے مخالفت کرنے والے عظیم اتحاد کے حصے میں صرف 19؍ نشستیں آسکتی تھیں۔ یہ نتائج اسی وقت سامنے آتے جب ایمانداری سے متحد ہوکر الیکشن لڑا جاتا لیکن جب نیت میں کھوٹ آگیا تو  2020 ؍ کے اندر یہ توقعات  الٹ پلٹ گئیں۔  بی جے پی 96 ؍ سے گھٹ کر 74؍ پر آگئی۔ جنتا دل (یو) 92 کے بجائے 43؍ نشستیں جیت سکی اور لوک جن شکتی پارٹی 35؍ کے بجائے ایک پر سمٹ گئی ۔    اس کے برعکس  9؍ کی توقع کرنے والا راشٹریہ جنتا دل 75؍ پر پہنچ گیا ، کانگریس جسے 5؍ کی امید تھی 19؍ نشست جیت گئی اور  ہندوستانی عوام پارٹی 2؍ سے 4؍ نیز ایم آئی ایم نے  2  کی توقع سے کہیں زیادہ 5؍ نشستیں جیت لیں ۔یہ چمتکار دراصل بی جے پی کی ایک سازش کا نتیجہ  تھا جو الٹی پڑ گئی تھی  اور یہی وجہ ہے کہ جنتا دل (یو) کو نقصان پہنچانے کے باوجود  پھر سے اسے نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا تھا۔

2020؍ کے ریاستی انتخابی نتائج کا اگر 2015 ؍ میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے نتیجوں سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے بی جے پی نے تقریباً 5؍ فیصد ووٹ گنوائے پھر بھی اس کی 21؍ نشستوں کا اضافہ ہوا جبکہ جنتا دل (یو) نے پہلے کی بہ نسبت صرف ڈیڑھ فیصد کم ووٹ حاصل کیے اس کے باوجود اسے 26؍ سیٹوں کا خسارہ ہوگیا اور 43؍ پر پہنچ گئی۔  این ڈی اے میں  شامل وکاس شیل انسان پارٹی نے ڈیڑھ فیصد ووٹ بڑھا کر مزید چار نشستیں جیت لیں جبکہ  ہندوستان عوام پارٹی کے اتنے ووٹ گھٹے پھر بھی اسے تین کا فائدہ ہوگیا ۔ اس کا مطلب اس کھیل میں پچھلے صوبائی انتخاب کے مقابلے نتیش کمار بڑے گھاٹے میں رہے اور ایل جے پی  135 ؍ سیٹوں پر مقابلہ کرنے کے باوجود صرف ایک نشست جیت سکی جو پہلے سے ایک کم تھی ۔ انتخابی نتائج میں   یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ پانچ سال پہلے کے مقابلے آر جے ڈی کے ووٹ کا تناسب تقریباً پانچ فیصد کم ہوا اور اس  نے پانچ نشستیں بھی گنوائیں۔ کانگریس  کے صرف 2؍ فیصد ووٹ کم ہوئے مگر اسے 9؍ نشستوں کا نقصان ہوا۔ دائیں بازو کی 3؍ اتحادی جماعتوں نے اپنے ووٹ شیئر میں ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کرکے کل 13؍ اضافی  نشستیں جیت لیں یعنی وہ  6؍ سے 19؍ پر پہنچ گئیں جو بڑی کامیابی تھی ۔ بہوجن سماج پارٹی بھی ایک مقام پر کامیاب ہوگئی اور ایم آئی ایم نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5؍ حلقوں میں جیت درج کرائی۔   

بہاری سازش  کو سمجھنے کی خاطر یہ جان لینا ضروری ہے کہ ریاستی انتخاب سے قبل کل یگ کے چانکیہ نے  رام اور ہنومان کو الگ کردیا  یعنی خود ساختہ  چراغ پاسوان کو این ڈی اے میں شامل  کرنے کے بجائے  ان سے نتیش کمار  کی مخالفت کروا کر انہیں کمزور کرنے کی سپاری دے دی ۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے   بی جے پی نے کل 110؍ نشستوں پر الیکشن لڑا تھا    باقی نشستوں کو اپنے حامیوں کی خاطر چھوڑ دیا تھا ۔  اس کے ساتھ 134 ؍ نشستوں پر چراغ پاسوان کے امیدوار کھڑے کروا دئیے یعنی بی جے پی کے خلاف ایل جے پی کا  کوئی امیدوار نہیں  تھا۔  یہی کھیل 2014؍ میں مہاراشٹر کے اندر کھیلا گیا تھا ۔ بظاہر شیوسینا کے ساتھ الحاق کیا گیا مگر  سارے سینک  امیدواروں  کے خلاف   راج ٹھاکرے  کی مہاراشٹر نو نرمان سینا کے امیدوار میدان میں اتار دئیے گئے تاکہ شیوسینا کو بڑا بھائی سے چھوٹا بھائی بنادیا جائے اور اس مقصد میں انہیں کامیابی ملی۔ بہار میں سازش یہ تھی  جے ڈی یو سمیت دیگر حامی جماعتوں کا ووٹ تو بی جے پی کو ملے مگر جہاں اس کا امیدوار نہ ہو وہاں زعفرانی رائے دہندگان  رام کے بجائے ہنومان کو ووٹ دیں ۔ اس طرح  نتائج کے بعد نتیش کمار نامی لکشمن کا کانٹا نکال کر رام اور ہنومان کی سرکار بنائی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ سال قبل بی جے پی  کو طلاق دیتے ہوئے  اسی لیے نتیش کمار نے الگ ہوتے وقت فسطائیت یا فرقہ واریت کے بجائے اپنی پارٹی کے خلاف سازش کی بات کہی تھی ۔

2020؍ کے اندر نتیش کمار اور بی جے پی کے رشتوں میں ایک دراڑ پڑ چکی تھی اس کے باوجود مجبوراً اقتدار کی خاطر وہ لوگ ساتھ آگئے۔  اس دوران بی جے پی نے مہاراشٹر کے اندر شیوسینا کے ارکان پارلیمان کو کھڑا کرکے اپنا ہمنوا بنالیا۔ اس  اقدام نے نتیش کمار کو ہوشیار کردیا ۔ انہوں نے سوچا کہ اگر یہ ابن الوقت پارٹی اپنے نظریاتی حلیف یعنی ہندوتوا کا دم بھرنے والی شیوسینا کے ساتھ یہ سلوک کرسکتی ہے تو جے ڈی یو تو اس کی نظریاتی مخالف ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی زیادہ سفاکی کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نتیش کمار کے سامنے مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کا کامیاب تجربہ بھی تھا جس میں کانگریس اور راشٹر وادی کے ساتھ شیوسینا بھی شامل تھی یعنی دو علاقائی جماعتوں کے ساتھ ایک قومی سیاسی جماعت کا کامیاب وفاق  ۔ نتیش نے سوچا ہوگا اگر مودی کے خلاف نظریاتی اختلاف رکھنے والے لوگ متحد ہوسکتے ہیں تو انہیں آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ جانے میں کیا حرج ہے؟  یہی وجہ ہے کہ 2022؍ میں نتیش کمار نے بی جے پی کو طلاق دے کر آر جے ڈی اورکانگریس سے بیاہ رچا لیا اور اب پھر سے بی جے پی کے ساتھ گھر بسا لیا۔ یہ ساتھ  کب تک چلے گا اور کب ختم ہوجائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا نیز اس کے نتیجے میں  مودی کے ہنومان یعنی  چراغ پاسوان  نے راون کی لنکا کے بجائے رام کے ایودھیا میں آگ زنی شروع کردی تو  کیا ہوگا یہ بھی کوئی نہیں جانتا ؟

 

Comments are closed.