Baseerat Online News Portal

بابری مسجد : میں ساز ِحقیقت کی نوا ہوں! 

آخری قسط

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

سچائی یہ ہے کہ رام مندر کو منہدم کرنے کی بات محض ایک افسانہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ چنانچہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں جو آخری فیصلہ کیا، جس میں ہندو فریق کو یہاں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی، اس میں بھی مسلمانوں کے تمام دعوؤں کو تسلیم کیا گیا ہے، صاف طور پر کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیںہے کہ اس کے نیچے کوئی مندر تھا، جسے گرا کر بابری مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہو، اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ اس جگہ رام جی کے پیدا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور جو مورتیاں وہاں پائی گئیں، وہ زمین کے اندر سے از خود برآمد نہیں ہوئی ہیں؛ بلکہ رات کے اندھیرے میں چوری چھپے بعض اشرار نے مسجد کے احاطہ میں کود کر وہاں مورتیاں رکھ دی تھیں، یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ یہ جگہ سنی وقف بورڈ کی ملکیت ہے؛ اس لئے اس کا متبادل مسجد کے لئے زمین دینے کی بات کہی گئی ، یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ بابری مسجد کو گرانا ایک غیر قانونی عمل تھا؛ مگر آج کل یہ تأثر دیا جارہا ہے کہ ہندو فرقہ پرستوں کے حق میں کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، اور کورٹ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی تھی، یہ بالکل غلط ہے، موہن بھاگوت نے بابری مسجد کے بارے میں کہا ہے کہ یہ غلامی کی یادگار تھی، جس کو منہدم کر دیا گیا، یہ یقیناََ جھوٹ ہے؛ بلکہ سچ یہ ہے کہ کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر اس وقت جو مندر تعمیر کی جارہی ہے، وہ ظلم اور لاقانونیت کی نشانی ہے۔

ڈبلو، اے ، تیاگی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایودھیا صرف ایک شہر نہیں ؛ بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے ، کہا جاتا ہے کہ ایودھیا میں رام جی پیدا ہوئے تھے اور ان کی زندگی کے ہر ہر پل کو یاد رکھنے کے لئے الگ الگ مندر بنائے گئے ہیں ، جہاں وہ کھیلتے تھے ، وہاں گوکیلا مندر ہے ، جہاں پڑھائی کی ، وہاں ویسشٹ مندر ہے ، جہاں کھانا کھایا ، وہاں سیتا رسوئی ہے ، ہنومان کے رہنے کی جگہ پر ہنومان مندر ہے ، کوپ بھون ، سومیترا مندر اور دسرتھ بھون ہے ، اس طرح وہاں ۲۳ ؍ ایسے منادر بھی ہیں جس کے مہنت دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ رام جنم بھومی ہے اور رام یہیں پیدا ہوئے تھے ، اس طرح یہ مندروں کا شہر ہے ؛ لیکن ان سب کی عمر چار سے پانچ سو سال کے درمیان ہے ، یعنی یہ سارے مندر تب بنے جب مسلمان یا مغل وہاں کے حکمراں تھے ، آخر ان مسلمانوں نے ان مندروں کو بننے کیسے دیا ؟ وہ تو مسجد توڑنے والے تھے ؛ لیکن ان کے رہتے مندر بنتے رہے ؛ بلکہ ان مسلمانوں نے ہی زیادہ تر مندروں کے لئے زمین دی تھی اور اس کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں ، گلیلا مندر کے لئے زمین مسلمان حکمراں نے دی تھی ، دیگمبرا کھاڑہ میں موجود دستاویز بتاتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں نے مندر بننے کے لئے ۵۰۰ بیگھہ زمین دی تھی ، نرموہی اکھارہ کے لئے نواب شجاع الدولہ نے زمین دی تھی ، تلسی داس جب رام چرتر مانس لکھتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں کہ’’ مانگ کے کھائیبو اور مسیت میں سوئیبو ‘‘ ایودھیا میں مسلمان پانچ چھ پیڑھی سے پھولوں کی کاشت کرتے ہیں، اور یہ سب پھول وہاں کے مندروں کو ہی جاتے ہیں ، ایودھیا کے سندر مندر کے منیجر منومیاں تھے ، وہ ۱۹۴۹ء سے لے کر ۱۹۹۲ء یعنی اپنی موت تک اس کے ذمہ دار رہے ، اگروال مندر کی ساری اینٹوں پر ۷۸۶ کندہ ہے ، جو حسین علی خان نے دی تھی۔

رام مندر کے انہدام کا الزام اور اس کا پس منظر:

صورت حال یہ ہے کہ اول تو تاریخی طورپر رام جی کا وجود اور رامائن کی کہانی ثابت نہیں ہے ، جن لوگوں نے اس کو تسلیم کیا ہے ، انھوں نے ایک عقیدہ اور آستھا کے طورپر مانا ہے ، نہ کہ تاریخی حقیقت کے طورپر ، دوسرے : حقیقی ایودھیا کا محل وقوع بھی مشکوک ہے ، تیسرے : ایودھیا میں رام جی کی جائے ولادت کونسی جگہ تھی ؟ اس میں بھی کافی اختلاف ہے ، چوتھے : بابر کا ایودھیا آنا ، یا میر باقی کا مندر کو منہدم کرنا بھی ثابت نہیں ہے ، تو پھر رام جنم بھومی کی خونیں تحریک شروع ہونے اور مسجد کی شہادت تک پہنچنے کا پس منظر کیا ہے ؟

تو اس کا جواب ہمیں اِلٰہ آباد ہائی کورٹ میں ہندو فریق کے ایک اہم گواہ سوامی ادل مکینشور آنندجی مہاراج کے بیان سے ملتا ہے ، انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی ہونے کا عقیدہ ہندوؤں میں انگریزوں کے دور حکومت میں شروع ہوا ۔ (ہندوستان میں گمراہ کن تاریخ نویسی: ۱۲۳)

حقیقت یہ ہے کہ ایک عیسائی پادری جوزف ٹفن تھالر نے پہلی بار اپنی کتاب جو فرانسیسی زبان میں ۱۷۸۸ء میں پیرس سے شائع ہوئی ، اس فتنہ کو جنم دیا ، اس نے لکھا :

اورنگ زیب عالمگیر نے رام کوٹ کے قلعہ کو منہدم کردیا تھا اور اس کی جگہ ایک مسلمان ٹیمپل ( مسجد ) تین گنبدوں کے ساتھ تعمیر کروائی تھی ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے بابر نے تعمیر کروایا تھا ، اس میں ۱۴ سیاہ پتھروں کے ستون ہیں،جو اس قلعہ کے اندر کے کچھ مقامات سے حاصل کرکے استعمال کئے گئے ہیں ، ان میں سے ۱۲ ستون اس وقت مسجد کی اندرونی چھت کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں ، جب کہ دو ستون کسی مسلمان کے مقبرے میں فٹ ہیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ سیاہ ستون لنکا سے لائے گئے تھے اور ان کے لانے والے ہندوؤں کے راجہ ہنومان تھے۔

اس کے بعد ہی یہ فرضی کہانی یا داستان پھیلتی گئی کہ بابری مسجد کی جگہ کوئی مندر موجود تھا ؛ لیکن ۲۰ سال بعد ۱۸۱۰ء جب Francis Buchananنے ایودھیا کا دورہ کیا تو اس نے سختی سے تردید کی اور کہا کہ یہ بے بنیاد کہانی ہے ، جو لیڈن (Leydon)نے ۱۸۱۶ء میں بابر نامہ کا انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے لکھا کہ غالباً ۱۵۲۸ء میں بابر ایودھیا آیا تھا ، اس کو بنیاد بناکر مارٹن منٹگمری نے جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے مشرقی ہندوستان پر معلومات فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا ، ضلع گورکھپور کا سروے کرتے ہوئے ایودھیا کا دورہ کیا ، اس نے ۱۸۳۸ء میں لکھا کہ یہاں کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ ان کے مندروں کو اورنگ زیب نے گرایا ہے ؛ کیوںکہ مسجد میں جو ستون ہیں ، وہ غیر اسلامی ہیں اور غالباً کسی مندر سے لئے گئے ہیں۔(حوالۂ سابق: ۱۰۳، بحوالہ: جان لیڈن)

۱۸۵۴ء میں ولیم ارسکائین (Erskine)نے بھی بابر نامہ کا ترجمہ کیا اور یہی بتایا کہ بابر ۲۸؍ مارچ ۱۵۲۸ء کو ایودھیا گیا تھا ، ۱۸۷۰ء میں کارنیگی (Comege)نے بابر پر براہِ راست الزام لگایا کہ اس نے رام جنم بھومی مندر توڑا تھا ، (۱) ۱۸۷۷ء میں ڈبلوسی بینٹ (Benet)نے کارنیگی کے الزام کی تائید کی۔

یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی واقعہ اسی وقت معتبر تسلیم کیا جاسکتا ہے ، جب کہ اس کو کسی معاصر چشم دید شخص نے نقل کیا ہو ، یا ان لوگوں کے حوالہ سے نقل کیا ہو ، جو خود اس واقعہ کے وقت موجود تھے ، سینکڑوں سال بعد یہ کہنا کہ ’’ ایسا کہا جاتا ہے ، یا ایسا گمان کیا جاتا ہے ‘‘ کی ایک اٹکل سے زیادہ اہمیت نہیں ہے ، پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ جس کی طرف کسی عمل کی نسبت کی جائے ، وہ اس کے مزاج و رویہ سے ہم آہنگ بھی ہو ، جب کہ بابر کے بارے میں تمام ہی مسلم وغیر مسلم مؤرخین متفق ہیں کہ وہ مذہبی تعصب سے دور اور انصاف پرور حکمراں تھا اور اس نے اپنے جانشینوں کو بھی اسی کی ہدایت کی تھی ۔

اصل میں انگریزوں نے محسوس کیا کہ اگر اس ملک میں ہندو مسلمان متحد رہے ، تو وہ یہاں اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکیں گے ، ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں واضح طورپر اسی حقیقت کا اظہار ہوا ؛ چنانچہ برطانوی مؤرخ تھامس لیو نے اس واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :

دختر کش راجپوت ، کٹر برہمن ، متعصب مسلمان اور عیش پسند تو ندوالا مرہٹہ سبھی اس جہاد میں شامل تھے ، گائے کو کھانے والا اور گائے کا پجاری ، خنزیر سے کراہت رکھنے والا اور خنزیر کا گوشت کھانے والا ’’لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کا کلمہ گو اور برہما کے منتروں کو جَپنے والا سبھوں نے مل کر بغاوت کی تھی ۔ (سنٹرل انڈیا ڈیورنگ ریبلین آف ۱۸۵۷، ص: ۲۳۲، ط: لندن، ۱۸۶۰ء)

لارڈ انفنسٹن (Lord Elphinston) ۱۴؍ مئی ۱۸۵۸ء کو ایک سرکاری یاد داشت میں لکھتا ہے :

’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ قدیم رومی طرز عمل تھا ، ہماری حکمت عملی بھی یہی ہونی چاہئے ، اگر میں یہ ثابت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ میرے خیالات ڈیوک آف ویلنگٹن (Duke of Wellengton) کے خیالات کے عین مطابق ہیں تو اس قدر واضح انداز میں اپنے خیالات کے اظہار کی جسارت نہیں کرتا ۔ (روٹس آف کمیونل پولیفکسن بھگوان داس کمیٹی رپورٹ، ص: ۴۰، ط: دہلی، ۱۹۷۶ء)

اسی طرح جارج فرانسس ہملٹن (Hamilton)سکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان نے لارڈ کرزن کو ۲۶؍ مارچ ۱۸۸۸ء کو اپنے ایک خط میں لکھا :

میرے خیال میں فی الحال ہماری حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ؛ لیکن آج سے پچاس سال بعد برطانوی حکومت کو جو خطرہ درپیش ہوگا، اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں بسنے والی مختلف قوموں کے درمیان نفاق کو بڑھاوا دیں اور ایسی نصابی کتابیں مرتب کروائی جائیں کہ ان کے درمیان اختلاف میں مزید بتدریج اضافہ ہوا ۔ (ووڈس پیپر ۳۰؍ مارچ ۱۸۹۲ء ، لندن ، بحوالہ : اسلام اینڈ کلچر ، بی ، این ، پانڈے ، ص : ۳۱ ، ط : پٹنہ ۱۹۸۵ء )

غرض کہ ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘ کی پالیسی کے تحت انگریزوں نے تاریخ کو بگاڑنے ، نصابِ تعلیم میں زہر آلود مواد شامل کرنے اور ہندوستان کی دو بڑی اقوام ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی منصوبہ بند شروعات کی اور اسی پالیسی کو سنگھ پریوار والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور عوام کو کچھ اس طرح یہ زہر پلایا کہ آج ان سے ترقی ، معاشی گراوٹ ، ملازمتوں کے فقدان ، ناانصافی ، غریبوں کی فاقہ کشی اور کمزوروں پر ظلم کے بارے میں سوالات نہیں کئے جاتے ۔

ضرورت ہے کہ مسلمان صحیح تاریخ مرتب کریں اور سیکولر برادرانِ وطن کی مدد سے کرائیں اور سچائی کو اس قدر پھیلائیں کہ جھوٹ اپنا منھ چھپانے پر مجبور ہوجائے ۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.