جمعہ نامہ: میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے : ’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، ‘‘۔  مفسرین کے نزدیک قرآن مجید کا ایک موضوع انسان بھی ہے۔ انسانوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔ ان میں منافقین کی بابت فرمایا گیا کہ ان کی باتیں یعنی بول بچن   لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں اور وہ ان جھانسے میں آجاتے ہیں۔  اس آیت کو پڑھتے ہوئے انسانی ذہن ازخود عصرِ حاضر کے سیاستدانوں ( الاّ ماشاءاللہ) کی جانب چلا جاتا ہے کیونکہ ان کا سارا کھیل ہی جملہ بازی تک محدود ہوتا ہے۔ آگے فرمایا:’’ اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، ‘‘۔  ایسے لوگ اپنی چرب زبانی کے علاوہ    عوام الناس کو اعتماد میں لینے کے لیے خدا کو گواہ ٹھہراتے ہیں ۔ اسے اگر عمومی طور پر سمجھیں تو وہ جس کسی کو خدائی کا حقدار سمجھتے ہیں اس کو درمیان میں لے آتے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی  خاطرمذہب کا بیجا استعمال کرتے ہیں ۔ فی الحال  وطن عزیز کی عمومی صورتحال یہی ہےکہ ایودھیا سے دہلی اور ابوظبی تک مندر کا شور و غوغا ہے۔

مذکورہ بالا     آیت کے اختتام میں ایسے منافقین  کی حقیقت اس طرح بیان کی گئی ہے :’’ مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے‘‘۔قرآن حکیم میں آگے چل کر ایسے لوگوں کے اعمال کو شواہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’ جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے‘‘۔ یہاں پر بین السطور یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ لوگ اقتدار کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اسی کی طلب میں چکنی چپڑی باتیں بناتے ہیں لیکن  اس مقصد میں کامیابی کے بعد ان کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے۔ ایسے حکمرانوں کی حرکات سکنات یوں بیان کی گئی ہیں کہ: ’’  زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘‘۔  ہلدوانی کے اندر سرکاری دہشت گردی اور پنجاب ہریانہ سرحد پر کسانوں کے خلاف طاقت کا بیجا استعمال اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

 ہلدوانی  میں مسجد و مدرسہ کا معاملہ عدالت میں زیر بحث تھا ۔  اگلی سماعت سے ۷؍ دن قبل حکومت کا بلڈوزر چلوا دینا  سراسر ناانصافی تھا۔ اس  طرح عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے کی سوچی سمجھی سازش کی گئی۔ اس  غیر قانونی حرکت کے خلاف  احتجاج کرنا  عوام کا حق تھا ۔ اسے استعمال کرنے کی خاطر لوگ سڑکوں پر آئے تو ان پر پولیس اہلکار پتھر چلانے لگے جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا میں آگئی اور پھر گولیاں بھی چلائی گئیں ۔ اس میں ۶؍ لوگوں کی ہلاکت اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے۔ سوال یہ ہے  زمین  کی ملکیت  طے کرنے کااختیارعدالت  کو ہے؟ سرکار نے فیصلے کا انتظار کیوں نہیں کیا؟  اسی فساد پھیلانے کی  دوڑ دھوپ  کا ذکر مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔ اتراکھنڈ کی حکومت نے پہلے تو یکساں سول کوڈ کو غیر یکساں طور پر نافذ کرکے مسلمانوں کے قلب میں چنگاری لگائی اور پھر بلڈوزر بھیج کر اس پر تیل چھڑکا ۔  یہ  شعلے جب ہوا میں  پھیلنے لگے تو اس  کو پانی سے بجھانے کے بجائے  اس پر پٹرول چھڑکنے کے لیے گولیاں برسائی گئیں اور اب پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔  نسل انسانی کو تباہ کرکے فساد پھیلانے کی یہ ایک بدترین مثال ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت میں  کھیتوں کو غارت کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اس غارتگری  کا سب سے پہلا شکار کسان ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومتوں  نے ایک ایسا استحصالی معاشی نظام نافذ کردیا ہے کہ  دنیا بھر میں دہقان سڑکوں پر اترا ہوا ہے۔  یوروپ کا ترقی یافتہ کسان بھی احتجاج کررہا ہے۔ پیرس کی سڑکوں کو وہاں کے دہقانوں  ٹریکٹر سے جام کردیا۔ فرانس کے علاوہ جرمنی ، سوئزرلینڈ، پولینڈ اور سویڈن کے اندر بھی مظاہرے ہورہے ہیں بلکہ برسلز میں یوروپی یونین کے دفتر پر بھی  نہ صرف انڈے اور ٹماٹر پھینکے گئے بلکہ آتشزنی کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ اس کے باوجود کسانوں کے  ساتھ افہام و تفہیم کا رویہ اختیار کیا گیا اور ان کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنے کا یقین دلایا گیا۔   اس کے برخلاف وطن عزیز میں حکومت نے اپنے کسانوں کے ساتھ کسی غیر ملکی حملہ آور جیسا سلوک کرنا شروع کردیا ۔ دہلی کی سرحد کو پاکستان اور چین سے زیادہ خاردار بنادیا گیا۔ ان پر اسرائیل کے اندر استعمال ہونے والے ڈرونز سےآنسو گیس کے شعلے برسائے گئے بلکہ  کچھ مقامات پر گولی باری بھی کی گئی۔

 ملک کے انصاف  پسند دانشور اور رہنما حکومتِ وقت کو اس کی غلطی کا احساس دلارہے ہیں مگر وہ ساری کوششیں بے سود ثابت ہورہی ۔ اللہ کی کتاب اس کی یہ وجہ بتاتی ہے کہ:’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔ ایسی صورتحال میں سچے اہل ایمان  کی کیا خوب تصویر کشی کی گئی ہے کہ:’’ دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے ‘‘۔ یعنی اس کا مقصدحیات  اقتدار کو حاصل کرکےاس سے عیش و عشرت کا سامان کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو صرف اور صرف رضائے الٰہی کا طلبگار ہوتا ہے۔ اپنے نصب العین کے حصول کی خاطر وہ اپنا سب کچھ داوں پر لگا دیتا ہے۔ وہ لوگ نماز روزے کے ساتھ ظلم وجبر کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور عدل و انصاف کے قیام کی جدوجہد بھی کرتے ہیں۔  ایسے لوگوں کو بشارت دی گئی ہے  :’’اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے‘‘۔ علامہ اقبال نےایسے اہل ایمان کی ترجمانی اس طرح  کی ہےکہ ؎

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی                    میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

Comments are closed.