مولانا مفتی امام الدین قاسمی؛ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

 

مفتی محمد جمال الدین قاسمی

رفیق آل انڈیا ملی کونسل بہار،پھلواری شریف،پٹنہ

موبائل نمبر:6201800479

یہ صحیح ہے کہ موت کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہوتی،جب اسے حکم ملتا ہے،دبے پاؤں چلی آتی ہے اورجب چلی جاتی ہے تو اس کے آنے کا احساس ہوتا ہے اورمعلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی پانی کا بلبلہ ہے،جسے موت کی ہوااڑادیتی ہے۔انسان کی زندگی چند لمحوں کی روشنی ہے،جسے موت کا طوفان بجھادیتا ہے۔انسان کی زندگی پانی پر تیرتا ہوا ایک خوبصورت پھول ہے،جسے موت کی لہر ڈبودیتی ہے۔انسانی زندگی کے آمد ورفت کایہ سلسلہ ازل سے ہے اورابد تک اسی طرح جاری رہے گا۔یہ قدرت کااٹل فیصلہ ہے اورنظام قدرت ہے۔جس طرح پوری دنیا ایک نظام کی پابند ہے،اسی طرح ہر آدمی بھی موت کے ضابطے اورقاعدے کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے،اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہے اورہرانسان اس تلخ حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ اسے دنیا سے ایک نہ ایک دن رخصت ہوکر موت کی آغوش میں سوجانا ہے۔استاذ مکرم مولانامفتی امام الدین قاسمی مرحوم اسی ضابطہ قدرت اورنظام فطرت کے تحت نوجوانی کے عالم میں ہم سے رخصت ہوگئے۔

میری حضرت مولانا مفتی امام الدین قاسمی مرحوم سے ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ان دنوں ہوئی،جب میں امارت شرعیہ کے زیرنگرانی تربیت قضاکی ٹریننگ حاصل کررہاتھا،مفتی صاحب مرکزی دارالقضاء میں معاون قاضی کی خدمت پر مامور تھے،ملاقات کے ساتھ تعلقات میں بھی گہرائی آتی گئی اورہم دونوں ایک دوسرے کے لیے رنج وغم اورخوشی ومسرت کے ساتھی بن گئے۔

حضرت مولانا امام الدین قاسمی رحمۃاللہ علیہ سے میں ہرطرح کے معاملات میں مشورہ لیاکرتاتھا اورمفتی صاحب بھی مجھ سے ہر بات شیئر کرتے تھے اورکوئی ایسا دن نہیں گزرتا تھا کہ فون سے رابطہ نہ ہو۔مفتی صاحب کا روزانہ کامعمول تھا کہ وہ مجھ سے عشابعد بات کیا کرتے تھے اوردن بھر کے حالات وواقعات کو شیئر بھی کرتے تھے۔مفتی صاحب گھریلو قسم کے تعلقات قائم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے قیام گاہ پر آنے جانے کا سلسلہ روزانہ رہاکرتا تھا۔جس دن حضرت مولانا کا انتقال ہوا،عین اسی دن صبح حضرت کی احقر سے بات ہوئی کہ مجھ آپ سے ملنے کی خواہش ہورہی ہے،اگر آپ کو فرصت نہیں ہے تو میں ہی آل انڈیا ملی کونسل بہار دفتر میں آجاتا ہوں۔مفتی صاحب معمول کے مطابق الحمد ادارہ خدمت میں اپنی مفوضہ ذمہ داری کو ادا کرنے چلے گئے۔کرشمہ کہیے یا اتفاق کہ اللہ تعالیٰ ملاقات کی راہ نکال دی،مفکر ملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب دامت برکاتہم نے مجھے فرمایاکہ آپ الحمد ادارہ خدمت خلق جاکر حضرت مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صاحب سے مل لیجئے۔ مفتی سہیل احمد قاسمی صاحب سے ملنے الحمد ادارہ خدمت خلق،فیڈرل کالونی،ہارون نگر،پھلواری شریف،پٹنہ گیا۔دل میں خوشی ہورہی تھی کہ حضرت مولانامفتی امام الدین قاسمی مرحوم سے ملاقات کرنی تھی،اللہ رب العزت نے اس کے لیے راستہ بھی نکال دیا(فللہ الحمد علی ذالک)الحمد ادارہ خدمت خلق دفتر میں پہونچنے پرحضرت مولانا امام الدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ کو بے انتہا خوشی ہوئی اورانہوں نے اس کااظہار بھی کیا۔علیک سلیک کے بعد اپنے گلے سے لگایا اوراللہ کا شکر ادا کیا۔دوران گفتگو مفتی صاحب مرحوم نے بتایا کہ ایک بجے ڈاکٹر کے پاس جاناہے،الحمدللہ آپ آگئے ہیں توآج ڈاکٹر صاحب سے مل بھی لیں گے۔گفتگو ہوتی رہی،ایک بجے حضرت مولانامفتی سہیل احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ ہم لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں،اس کے بعد آپ دونوں ڈاکٹر کے پاس چلے جائیے گا۔نمازظہرکے بعد مفتی صاحب مرحوم کو لے کر ڈاکٹر عباس مصطفی کے پاس گیا،رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ سی ٹی اسکین کراکر ملئے،ڈاکٹر صاحب مل کرپیدل ہی الحمد آفس واپس آگیا اوروہیں سے راجندر نگر میں سی ٹی اسکین کے لیے نمبر لگادیااورطے پایا کہ کل صبح چلیں،دوپہر کا کھانا ساتھ میں کھایا،اس کے بعدمیں آل انڈیا ملی کونسل دفتر واپس آکر اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا۔چار بجے کے بعدکسی کام سے ایمس اسپتال پٹنہ جارہاتھا،راستہ میں مفتی صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ کا فون آیا کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں،جلدی سے الحمدآفس آجائیے،مفتی صاحب کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے،میں انہیں لے کر ایس ایس اسپتال جارہی ہوں، میں نے جلدی سے ٹیمپو لیااورپہونچنے کی کوشش کررہاتھا کہ دوبارہ مفتی صاحب کی اہلیہ محترمہ کا فون آیا کہ ایس ایس اسپتال کے ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے؛اس لیے میں انہیں پارس اسپتال لے جارہی ہوں،آپ پارس اسپتال آجائیں۔پارس اسپتال پہونچا،مفتی صاحب کی اہلیہ مفتی کو ایمبولینس سے اتارنے کی تیاری کررہی ہیں،مفتی صاحب کو ایمبولینس میں دیکھا،معلوم ہوگیاکہ مفتی صاحب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں،پھر بھی اطمینان قلب کے ایمبولینس سے اتار کر پارس کے ایمر جنسی شعبہ میں لے گیا۔ڈاکٹروں نے ان کے دنیا چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ع:بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی٭مجھے کیا خبر تھی کہ مرجائے گا

نعش کو اسپتال سے نکال کر ایمبولینس میں واپس لایااورآبائی وطن مومن ٹولہ کے روانہ کردیا۔واضح رہے کہ مفتی صاحب مرحوم موضع مومن ٹولہ،ڈاکخانہ پنڈول،ضلع مدھوبنی کے رہنے والے تھے،نعش کی روانگی کے بعد میں بھی جنازہ میں شرکت کے لیے مومن ٹولہ مدھوبنی روانہ ہوگیا۔دوسرے روز جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور تدفین مومن پورقبرستان میں ہوئی،بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے٭سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

حضرت مولانا امام الدین قاسمی صاحب اپنے مسحورکن جلوؤں اورخدمات کے ساتھ ہمیشہ لوگوں کے درمیان یاد رہیں گے۔حضرت کی شرافت اوراکردار کی عظمت وبلندی قابل فخر تھی۔لبوں پر تبسم کی لکیر ہروقت ہوا کرتی تھی۔ان کا تعلیمی رکارڈ بہت اچھا تھا،خوشی خطی اورتحریر میں نفاست کی ان کے استاذ تعریف ہی نہیں کرنے؛ طلبہ کو دکھاکر ترغیب بھی دیتے تھے۔اللہ رب العزت ان کی روح کو نشاط اورتسکین بخشے،اپنی بے پناہ رحمتوں  کی بارش برسائے۔مفتی صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ اورجملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

Comments are closed.