Baseerat Online News Portal

آل انڈیا ملی کونسل نے سیاسی پارٹیوں کے لیے جاری کیا اپنا منشور

 

پھلواری شریف (پریس ریلیز)آل انڈیاملی کونسل کے ریاستی دفتر پھلواری شریف، پٹنہ میں جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی صاحب کی صدارت میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا اور مرکز کی ہدایت کے مطابق آئندہ قومی انتخابات کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں کے لیے آل انڈیا ملی کونسل کا منشور مطالبات جاری کیا گیا، اس نشست میں مولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار، مولانا محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار، مولانا محمد عادل فریدی سکریٹری ملی کونسل بہار، مولانا جمال الدین قاسمی، مولانا فیضان قاسمی، مولانا ابو نصر ہاشم ندوی ودیگر کارکنان شریک رہے۔ واضح ہو کہ یہ منشور مطالبات مرکز ی ملی کونسل کے علاوہ اس کے تمام ریاستی دفاتر سے جاری کیے گئے ہیں۔ منشور مطالبات درج ذیل ہیں۔

 

"منشور مطالبات "آل انڈیا ملی کونسل

 

اجراء بتاريخ : 23 فروری 2024 ، بروزجمعہ

 

آل انڈیا ملی کونسل ، مسلمانان ہند کا ایک مشتر کہ ملی پلیٹ فارم ہے اور ملت کی وحدت و شیرازہ بندی کی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس نے ملک میں جمہوری قدروں کو مستحکم کرنے ، فسطائی رجحانات کے خلاف رائے عامہ بیدار کرنے اور برادرانِ وطن کے ساتھ باہمی اعتماد و احترام کی فضا بنانے میں ہمیشہ مثبت و فعال رول ادا کیا ہے۔ اس کی سرگرمیاں ملک کے تمام صوبوں، شہروں اور قریوں میں جاری ہیں۔ ملی کونسل نے مسلمانوں میں سیاسی و اجتماعی شعور بیدار کرنے اور حالات کی پیچیدگی و نشیب و فراز سے انھیں باخبر رکھنے اور مناسب رہنمائی فراہم کرنے پر ہمہ جہتی انداز میں کوششیں کی ہیں۔

 

سب جانتے ہیں کہ سال رواں ، اپریل مئی 2024 میں ملک کے 18 روئیں عام انتخابات (General Elections) ہونے والے ہیں۔ آج ملک کے سماجی و سیاسی منظرنامے سے سب بخوبی واقف ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ گزشتہ 9 سالوں سے جمہوریت اور ملک کے سیکولر کردار پر حملہ ہو رہا ہے اور ہر جہت سے اندیشوں و خطرات کے بادل ملک پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک خاص منصوبہ کے نتیجہ میں ملک کی اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں ، دیگر محروم طبقات اور سماج کے وہ طبقات جن کو ملک کی مجموعی ترقی میں مناسب حصہ ملنا چاہیے تھا وہ یکسر یاس و محرومی کی زد میں ہیں۔ حالات ایسے بنائے گئے ہیں کہ ہم حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے کی بھی جرات نہ کر سکیں ۔ ملک کے اندر جن کو اُن کی آبادی کے متناسب حصہ ملنا چاہیے تھا، اُن پر چہار طرفی حملے ہور ہے ہیں۔

 

یہ اور اسی قسم کے منظر نامے کے پیش نظر 15-16 جنوری 2024 کو ممبئی میں ملی کونسل کی سیاسی امور کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا تھا اور آنے والے عام انتخابات کے تناظر میں ملی کونسل کے ارباب حل و عقد نے ایک مبسوط ” منشور مطالبات” کے مسودے کو اپنی مشتر کہ جد و جہد اور آپسی صلاح و مشوروں کے ساتھ حتمی شکل دی تھی ۔ بھی شرکاء اجلاس کی تائید کے ساتھ آج کے اس ریاستی اجلاس میں میڈیا کے سامنے اس منشور مطالبات کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے، جسے بھی سیکولر سیاسی جماعتوں / اتحاد کے سربراہان کو بھی پیش کیا گیا ہے، تا کہ مذکورہ منشور مطالبات کو متعلقہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کا حصہ بناسکیں اور ملک کے اندر موجود دوسری سب سے بڑی اکثریت نیز محروم طبقات کے تئیں اُن کا رویہ اتنا مثبت ہو کہ ان کو بلا تفریق مذہب ، ذات اور جنس ملک کی مجموعی ترقی میں شامل کرنے کی یقینی طور پر پہل کی جاسکے۔

 

واضح رہے کہ مذکورہ منشور میں :

 

ترقیاتی امور کے تحت سچر کمیٹی رپورٹ اور جسٹس رنگناتھ کمیشن کی سفارشات کا نفاذ ، یکساں مواقع کمیشن کا قیام، تمام سرکاری اداروںمیں اقلیتوں کی متناسب نمائندگی اور سرکاری اسکیموں کے نفاذ کے حوالے سے سنگل ونڈو سسٹم اور گرین چینل کی تیاری۔

 

اوقانی جائدادوں کے تحفظ سے متعلق، وقف قانون 1995 کو موثر انداز اور اس کے حقیقی معنون میں نفاذ کو یقینی بنانے اور اوقافی جائیدادوں پر جو قبضے یا تفویضات ہیں، انھیں خالی کرا کر یہ جائیدادیں وقف بورڈ کے حوالے کئے جانے سے متعلق یقین دہانی منتخب نمائندوں ایم ایل اے، ایم ایل سی، ایم پی ، لوکل باڈیز ممبر ) اور سرکاری عہدیداروں کو نا مزد کرنے کا نظام ختم کیا جائے اور وقف بورڈ کے تمام ارکان کو مجموعی طور پر مسلم معاشرہ سے منتخب کیا جائے۔

 

تحفظ ( سیکوریٹی) سے متعلق مسائل کے سلسلہ میں یواے پے اے میں مختلف مراحل میں کی گئی ترمیمات کی واپسی ہی اے اے اور افسپا کی منسوخی، آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ، 1983 کی بحالی ، حال ہی میں مرکزی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ بھارتیہ نا گرک سرکشا سمہتا ، بھارتیہ نیایا سمہیتا اور بھارتیہ ساکشیا سمہیتا کو منسوخ کر کے سابقہ سی آر پی سی ، آئی پی سی اور ایویڈنس ایکٹ کی بحالی اور اس میں سے دفعہ 1244کی منسوخی۔

 

فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کے تحت فرقہ وارانہ تشدد بل 2011 کو قانونی منظوری،Prevention of Atrocities Act کے طرز پر Protection of Minorirties Act ‏ کا نفاذ۔ ہجومی تشدد( ماب لنچنگ ) کے واقعات کے لیے ریاستی انتظامیہ کو جوابدہ کیا جائے، اور نئے نافذ کردہ بھارتیہ نیا یا سمہتا 2023 کی دفعہ 103 (2)، جو ہجومی تشدد کے مجرموں کو جرمانے کے ساتھ موت یا عمر قید کی سزا تجویز کرتی ہے، اس کو الگ سے قانونی حیثیت فراہم کرتے ہوئے حقیقی معنوںمیں اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

 

اقلیتی کمیشن کو عدالتی اختیارات کی فراہمی۔

 

مختلف شعبہ جات میں نمائندگی کی بابت یہ مطالبات ہیں کہ سبھی مرکزی اور ریاستی تفتیشی و خفیہ ایجنسیوں میں خصوصی تقرری مہم کےتحت اقلیتوں کی متناسب تقرریاں یقینی بنائی جائیں۔ ایک جامع ریز رویشن قانون کی تدوین کی جائے، تا کہ تعلیم اور عوامی ملازمتوں میں حاشیےپر پہنچائے گئے لوگوں کو ریزرویشن مل سکے اور ایس سی اور ایس ٹی کے تعلق سے 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں ترمیم کی جائے، تا کہ مذہبی بنیاد پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو تفریق کی گئی ہے، اس کا ازالہ ہو سکے۔

 

تعلیمی مسائل کی بابت تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کو ریزرویشن، اقلیتی تعلیمی داروں کے قومی کمیشن کونئی زندگی فراہم کرنے، نودے نوودے اور ودیالیہ کی طرز پر اقلیتی ارتکاز والے بلاک میں اقلیتوں کے لیے اقامتی اسکولس کا قیام، ایسے سرکاری اور سرکاری امداد پانے والے تعلیمی اداروں کا معیار بحال کیا جائے جو بطور خاص اقلیتی اور دیگر کمزور طبقات کے لیے قائم کیے گئے ہوں، اقلیتی طبقات کے لئے مستقل اسکل یونیورسٹیوں کا قیام وغیرہ امور شامل ہیں۔

 

ان کے علاوہ صحت عامہ، ثقافتی امور قومی اور اقلیتی زبانوں کی ترقی و تحفظ ، خواتین کے تعلق سے امور ، کسانوں کے مختلف مطالبات کی منظوری، غیر مقیم ہندوستانیوں (NRIS) کے تحفظ کے لئے علاحدہ وزارت کا قیام وغیرہ امور بھی اس منشور میں شامل ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ میڈیا اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ اسے بھی سیاسی جماعتوں کے روبرو پیش کر کے ملی کونسل کے ان مطالبات کو ان کے مینی فیسٹو میں جگہ دلوانے میں اپنا حساس رول ادا کریں گے۔

 

Comments are closed.