جمعہ نامہ: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں‘‘َ۔ حضرت موسیٰؑ کو  یہ مشورہ دینے والا شخص بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا  تھا یا قبطی ؟ اس پر اختلاف ہے  مگراس میں کوئی شک نہیں کہ اس خیرخواہ تھاکے مشورے پر عمل کرتے ہوئے  آپؑ مصر سےہجرت  کرکے مدین چلے  گئے تھے۔  بنی اسرائیل  سے ہونے کے باوجود مشیتِ خداوندی  نےحضرت موسیٰؑ  کی پرورش کا اہتما م  فرعون کے محل  میں کروایا۔  اس دورِجبر میں قبطیوں کے ذریعہ  بنی اسرائیل پر ظلم و ستم عام تھا مگر اس کی  مزاحمت  میں قبطی کا قتل ایک غیر معمولی واقعہ بن گیا ۔  سرکار دربار نے   اسےبغاوت کے آغاز پر محمول کیا کیونکہ  اس کے محرکات میں بنی اسرائیل کا جذبہ انتقام  کارفرما تھا ورنہ  قتل کی کسی معمولی واردات  پر  سرداروں کے درمیان  غوروخوض  نہیں ہوتا اور نہ  انسداد کے لیے مذکورہ فیصلہ کیا جاتا ۔ مشیت ایزدی نےحضرت موسیٰ  کی نصرت فرمائی اور اندر کے ایک پاکیزہ نفس کو ذریعہ بناکر  حضرت موسیٰ کوخطرے سے خبردار کردیا  تاکہ انہیں فتنہ عظیم  سے بچا یاجائے۔

ارشادِ ربانی ہے:’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے‘‘۔ غزہ کےحالات اس آیت کی عملی تفسیر ہیں ۔ ایسے میں اہل ایمان سے کے لیے بشارت  ہے کہ:’’ ) اِن حالات میں )جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے” انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں ‘‘۔ اہل غزہ کی بے مثال صبرو استقامت نے انہیں اس بشارت کا حقدار بنا دیا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ اور ان کے جانثاروں پر بھی  اس قدر مظالم اور سختیاں ہوئیں کہ آپؐ کو یہ کہنا پڑا ’’کسی نبی کو اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی مجھے دی گئی ہے‘‘۔ اس کی سب سے بڑی مثال بعثت نبویؐ کے 7 ویں سال میں  شعب ابی طالب میں محصوری  کا واقعہ ہے۔

 نورِ اسلام کی اشاعت میں جب سارے حربے ناکام ہوگئے  محمد مصطفی ؐ اور آپؐ کے ہمنواوں  کے سماجی، سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے تحت لین دین، خریدو فروخت اور معاشرت  پر پابندی کے ساتھ مخالفین کی حمایت کا بھی عہد کیا گیا جو آج بھی ہورہا ہے۔ اس کاروائی کا مقصد یہ تھا  بنو ہاشم  پر دباو ڈال کر انہیں نبی ٔکریم سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیاجائے۔  حضرت ابو طالب نے اس کے جواب  میں فرمایا:’’قریش کا مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک شمشیر و سناں درمیان میں نہ آجائیں ۔وہ چاہتے ہیں ہم محمدؐکو ان کے حوالے کردیں، حالانکہ نیزے ابھی خون سے رنگین نہیں ہوئے ۔خدا کی قسم یہ خیال غلط ہے، جب تک سر تن سے جدا  نہ ہوجائیں اور قرابتوں کا خیال ختم نہ ہوجائے  اور عورتوں اور شوہروں میں جدائی نہ ہو جائے اس وقت تک یہ کچھ نہیں ہوگا۔ یاد رکھو ہم محمدؐکو تمہارے حوالے نہیں کریں گے بھلا کوئی قوم ایسے انسان(محمدؐ) کو بھی موت کے منہ میں دے سکتی ہے‘‘؟ارضِ فلسطین پریحیٰ سنوار کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے صہیونیوں کو اہل ایمان کا یہی جواب ہے۔

شعب ابی طالب  کے دورِ محصوری  کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے صرف موسم حج میں مسلمانوں کو باہر آنے کی آزادی تھی  اور اس دوران بھی نبی کریم ؐ دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے  تھے۔ اس پتہ چلتا ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی دعوتِ دین کا فریضہ  ساقط نہیں ہوتا۔ محاصرے کے دوران  ایسا وقت  بھی آیا کہ رزق کی تنگی کے سبب مسلمان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے اور اہل شعب کے بچوں کی  بھوک اور چیخ  سےپڑوسیوں کی نیندحرام ہوجاتی تھی۔ تین سال کے بعد ہشام بن عمربن حرث کے دل میں یہ خیال آیاکہ یہ ٹھیک نہیں ہے ،ہم اورہمارے بچے کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں اوربنی ہاشم اوران کے بچے فاقہ کشی کریں۔اس نے چند لوگوں کوہم خیال بناکرقریش کے اجتماع میں اس سوال کواٹھایاتو ابوجہل اور ا س کی بیوی نے مخالفت کی مگر عوام کے دل پسیج گئے۔  اس موقع پر حضرت ابوطالب نے آکرکہاکہ  میرے بھتیجے محمد ؐکو جبرئیلؑ نےبتایاہے کہ مقاطعہ کے عہدنامہ کو دیمک چاٹ  چکی ہے اوراس پربس اللہ کانام  رہ گیاہے۔ اے قریش  تم اپنے عہدنامہ کودیکھواگرمحمدؐکاکہناسچ ہوتوانصاف کرواوراگر جھوٹ ہوتوجوچاہے کرو۔عہدنامہ منگوایاگیاتو رسول اکرمﷺ کا ارشاد من وعن صحیح ثابت ہوا۔ اس کے بعدقریش شرمندہ ہوگئے ۔ اس کے بعدہشام بن عمربن حرث اپنےچارساتھیوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں گئے اورتمام محصورین کو ان کے گھروں میں پہنچادیا۔

عصرِ حاضر میں اسی طرح کا واقعہ ا مریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں پیش آیا جہاں  اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے امریکی فضائیہ کے اہلکار ایرون بشنیل نےفلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاجاً خودسوزی کرلی  اورزخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ ایرون  نے خود کو آگ لگانے کی ویڈیو کو ’ٹوئچ‘ پر لائیو سٹریم  کرانے سے قبل  اپنا تعارف کرواکر کہا کہ وہ ’(فلسطینوں کی) نسل کشی کے عمل میں مزید شریک نہیں ہوں گے‘ اور جب آگ نے اُن کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس موقع پر ویڈیو میں انھیں ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سُنا گیا۔ فوجی وردی میں خود سوزی کرنے والا  ایرون  ای میل کے ذریعہ  متنبہ کرچکا تھا کہ ’آج میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کے خلاف ایک انتہائی اقدام کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ یہ انتہائی پریشان کن ہو گا۔‘ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی شخص نے امریکا میں اسرائیلی سفارتی مشن کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی ہو۔دوماہ قبل دسمبر میں امریکی ریاست جورجیا کے اندراسرائیلی قونصل خانے کے سامنے مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے خود کو آگ لگا لی تھی۔ دین اسلام کے اندر خودکشی حرام ہے مگر ایرون  بشنیل  جیسے لوگوں کا یہ انتہائی قدم ان کے اندر پائے جانے والے اضطراب اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے جذبۂ خیر کی دلیل ہے۔ یہ وہی پاکیزہ نفوس کی کہکشاں ہے جو فرعون و ابوجہل کے دور سے یاہو تک کے زمانے  میں روشن رہی ہے اور ہمیشہ تابندہ رہے گی۔

 

Comments are closed.