عدالت پر بھروسہ کیوں کریں ہم؟!

ڈاکٹر عابدالرحمن (چاندور بسوہ)
لیجئے مسجدوں کو مندر بنانے کے قانونی اقدامات اب لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد تک بھی جا پہنچے۔ یہ مسجد بھی اسی راہ پر ڈال دی گئی جس راہ سے ہوکر بابری مسجد رام مندر تک پہنچائی گئی اور جس راستے پر کاشی اور متھورا کی مساجد کو گھسیٹا جارہا ہے ۔ کہا جارہاہے کہ ٹیلے والی مسجد مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں ہندوؤں کے مقدس مقام لکشمن ٹیلا کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ اس ضمن میں 2013 میں کورٹ کیس داخل کیا گیا تھا کہ اس مسجد کا سروے کروایا جائے۔ ابھی تک یہ کیس پینڈنگ تھا لیکن بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں ہونے کے بعد اس طرح کے مقدمات اور ان پر تابڑتوڑ عدالتی فیصلوں کی جو بہار آئی ہوئی ہے اسی کے چلتے اب اس کیس میں بھی کارروائی شروع ہوگئی ہے اور وہ بھی ہندوؤں کے حق میں۔ اس کیس میں بھی مسلمان پلیسیس آف ورشپ ایکٹ کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کو غیرقانونی قراردینے کی درخواستیں لے کر کورٹ کورٹ پھرے لیکن مسلمانوں کی درخواستیں مسترد کرکے کاشی اور متھورا کی طرح اس کیس میں بھی مسجد کے خلاف قانونی چارہ جوئی جاری رکھی گئی اور اب اس مسجد کے سروے کا بھی راستہ صاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بابری مسجد کے معاملے میں ہم نے عدلیہ پر اعتماد جتایا تھابھروسہ کیا تھا اور سپریم کورٹ سے جو فیصلہ آیا اسے قبول بھی کیا کہیں سے کسی قسم کی کوئی معمولی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔ کسی مسجد مندر یا کسی بھی کمیونٹی کی عبادت گاہ کے ساتھ بابری مسجد کا سا تنازعہ نہ ہو اس لئے بھارت سرکار نے پلیسیس آف ورشپ ایکٹ لاگو کیا تھا جس کی رو سے ملک میں کسی بھی عبادت گاہ کو اسی حیثیت پر قائم رکھا جائے گا جو آزادی کے دن تھی اسے بدلا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے بدلنے کے لئے میں کوئی قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے حالانکہ بابری مسجد کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پلیسیس آف ورشپ ایکٹ کو منظوری دیتے ہوئے گویا ان دوسری عبادت گاہوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا تھا جن کے متعلق بھی بابری مسجد کا سا تنازعہ کھڑا کیا گیا ہے۔ بابری مسجد فیصلے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب یہ تنازعات قانونی طور پر روک دئے جائیں گے لیکن اس کے الٹ یہ تنازعات روز بروز بڑھ رہے ہیں مسجدوں کوقانونی طور پر مندر بنانے کی مہم جاری ہے اور ہمُ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ عدلیہ کا ہے مسلمانوں نے ان معاملات میں نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک سے اس قانون کی دہائی دے کر مدد مانگی لیکن کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔ کاشی اور متھورا کی مساجد کے تو سروے بھی ہوکر وہاں ہندو منادر کے آثار دریافت کئے جاچکے اب ٹیلے والی مسجد میں بھی یہی کیوں نہ ہو اور آگے قطب مینار تاج محل اور نہ جانے کہاں کہاں ہندو مندر مل جائیں بتایا نہیں جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کے سروے پر روک لگانے کی عرضداشتوں کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ کسی عبادت گاہ کی تحقیق کرنا اس کو بدلنا نہیں ہے اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ پلیسیس آف ورشپ ایکٹ مسلمان بار بار جس کی دہائی دے رہے ہیں وہ عبادت گاہوں کی حیثیت بدلنے سے روکتا ہے ان کی تحقیق کرنے سے نہیں! یعنی جو کچھ ہورہا ہے وہ ان مساجد کومندر بنانے کے لئے یا توڑنے کے لئے نہیں بلکہ صرف یہ تحقیق کرنے کے لئے ہورہا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے ،یعنی سب یہ دیکھنے کے لئے کیا جارہا ہے کہ ان مساجد کے اندر یا ان کی تعمیر میں واقعی منادر کے آثار ہیں یا نہیں۔حالانکہ عزت مآب کورٹ نے سروے کے معاملہ میں کسی کھدائی یا توڑ پھوڑ سے منع کیا لیکن کیا کورٹ کو پختہ یقین ہے کہ سروے کے معاملات صرف تحقیق تک ہی محدود رہیں گے؟اورکیا کورٹ اس بات کی گارنٹی دے سکتی ہے کہ مساجد میں ہندو عبادت گاہوں کے آثار دریافت ہونے کے بعد وہ ہندو شدت پسند تنظیمیں ان مساجد کو جوں کے توں رہنے دیں گی جنہوں نے سپریم کورٹ کے status quo حکم کے باوجود بابری مسجد توڑڈالی تھی؟ کیا معزز عدلیہ بھول گئیں کہ سیاستداں کتنے شاطر ہیں کس طرح عدالتوں کو گمراہ کردیتے ہیں؟ بابری مسجد معاملہ میں کس طرح کلیان سنگھ نے status quoبرقرار رکھنے کا حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کرنے کے بعد بھی اسے برقرار نہیں رکھا اور قابل صد احترام سپریم کورٹ کچھ بھی نہ کرپائی یہاں تک کہ جو کرسکتی تھی وہ بھی نہیں، کلیان سنگھ پر حلف نامے کی خلاف ورزی اور توہین عدالت کا مقدمہ ابھی بھی پینڈنگ ہے، جبکہ کلیان سنگھ کو دنیا سے گئے ہوئے بھی دوسال بیت چکے اور انہیں بعد از مرگ ملک کے اعلیٰ اعزاز پدم وبھوشن سے بھی نوازدیا گیا۔ جن مساجد کا سروے اب کروایا جارہا ہے اگر وہاں بھی بابری مسجد کی سی کار سیوا کروائی گئی تو کیا کورٹ ان مساجد کی حفاظت کرواپائے گی؟ یا یہاں بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ہے جو بابری مسجد کے معاملے میں ہوا کہ مسجد کی مسماری تو مجرمانہ عمل تھا لیکن جگہ مندر کی ہے؟

Comments are closed.