نئے شاہی امام کی تاج پوشی: امیدیں و توقعات

ذکی نور عظیم ندوی۔ لکھنؤ
دار الحکومت دہلی میں واقع اور 1656ء میں مکمل ہوئی شاہجہاں کی تعمیر کردہ جامع مسجد کا اصلی نام ’’مسجد جہاں نما ‘‘ تھا ،اس کا ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اہم ترین اور تاریخی مساجد میں شمار ہوتا ہے۔ اس کو برطانوی عہد میں بھی اسلامی شان و شوکت اور قوت و طاقت کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ مسجد کی تعمیر میں بھی اس کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا محراب لال قلعہ میں موجود تخت شاہی سے بلند رکھا گیا تھا ۔ اس کی عظمت و اہمیت کا اس طور پر بھی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ مغل بادشاہوں اور شاہی اماموں کی تاریخ ایک دوسرے سے مربوط رہی ہے، اگر شاہی امام بادشاہوں کی تاجپوشی کرتے تھے تو شاہی امام کا انتخاب بادشاہ وقت کیا کرتا تھا۔
اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پر شاہجہاں نے اپنے دور میں شاہ ازبکستان سے درخواست کی اور ان کے تجویز کردہ ان کے داماد مولانا عبد الغفور شاہ کا بطور امام انتخاب کیا ۔ اس کے بعد گزشتہ تقریبا 400 سالوں سے ہی اسی خاندان میں نسل در نسل یہ منصب چلا آرہا ہے اور موجودہ شاہی امام مولانا سید احمد بخاری بھی اسی خاندان کےایک نمایاں فرد ہیں۔
مولاناسید احمد بخاری کے والد مولانا سید عبداللہ بخاری امامت کے ساتھ ساتھ سیاسی صورت حال اور تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھتے، سیاسی مسائل میں بھی اہم کردار نبھاتے اور پوری طاقت سے ملی ودیگر مسائل پوری صراحت اور بیباکی سے پیش کرنےکے لئے جانے جاتے تھے۔ سیاسی جماعتیں بھی ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں،ان کے بیشتر سیاسی رہنماؤں سے گہرے تعلقات تھے۔
موجودہ امام مولانا سید احمد بخاری نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کئی مرتبہ ملک اور بالخصوص مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھائی، لیکن انھوں نے اپنی معاملہ فہمی، عوامی مقبولیت اور ملک و بیرون ملک مختلف حلقوں میں اپنے اثر و رسوخ کے باوجود ملکی سیاست سےکسی قدر فاصلہ قائم کیا اور نہ جانے کیوں وہ دیگر ملی پلیٹ فارم پر بھی نظر نہیں آتے۔ جب کہ اس وقت ملت کو کسی مخلص، جری، سرگرم اور بیباک ملی قائد کی تلاش اور سخت ضرورت ہے۔
چند دنوں قبل جامع مسجد کی وسیع و عریض چہار دیواری میں اس کے موجودہ امام نے روایات کے مطابق اپنی حیات میں ہی اگلے شاہی امام کے طور پر موجودہ نائب امام اور اپنے صاحبزادہ مولانا سید شعبان بخاری کی تاجپوشی کی تقریب جس عظیم الشان انداز میں منعقد کی اور اس میں پورے ملک کےتمام حلقوں، جماعتوں، مسلکوں، ملی تنظیموں اور اداروں کے ہی نمائندے نہیں بلکہ ملت کے دوسرے میدانوں میں سرگرم افراد اور بیرون ملک کے نمائندے اور اہم شخصیات کے علاوہ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں نےجس جوش وخروش کے ساتھ بڑی تعداد میں شرکت کی اس سے ملی اتحاد، قائدین کے سنجیدہ اور مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی امیدوں کو بڑی تقویت ملی۔
موجودہ شاہی امام مولانا سید احمد بخاری کے ذریعہ مولانا سید شعبان بخاری کی تاجپوشی کے بعد اسکی توقع کی جاسکتی ہے کہ اب سنجیدہ سینئر قائدین کے تجربوں، رہنمائی اور تیار کردہ منصوبوں اور لائحہ عمل میں نوجوان ملی قیادت صرف جامع مسجد کی ہی حد تک نہیں بلکہ دیگر ملی تنظیموں، جماعتوں اور اداروں میں بھی اپنے جوش و جذبہ اور زور بازو کے ذریعہ رنگ بھرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ اور مولانا سید احمد بخاری دیگر بڑے قائدین کو ساتھ لے کر ملی سطح پراپنی ذات اور ملی قائدین سے وابستہ توقعات اور ملت اسلامیہ کے مسائل کے حل کے لئے اپنے اثر و رسوخ ، تعلقات، طویل تجربات اور تاریخی کردار کی ادائیگی کیلئے ضرور سامنے آئیں گے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ کہ اس وقت دستوری و قانونی طور پر جامع مسجد یا اس کے امام کی کیا حیثیت؟ ملی سطح پر اہم ترین تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں میں جامع مسجد یا اس کے امام کہاں نظر آتے ہیں؟تو میں پورے وثوق اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت نہیں کہ جامع مسجد کے تاریخی ممبر سے اٹھنے والی آواز جو تاثیر اور قبولیت رکھتی ہےاس کا احساس مسلمانوں کو بھلےنہ رہا ہو مگر ملک، اس کے حکمرانوں، سیاستدانوں، سیاسی و سماجی اداروں اورمحکموں کو آج بھی محسوس کرایا جاسکتا ہے۔اور اس سلسلہ میں مولانا سید احمد بخاری صاحب جیسی ہر دلعزیز اور فعال شخصیت سے وابستہ توقعات کو بے وجہ اور بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ 24 اکتوبر 1947ء کو پاکستان بننے کے بعد مولانا آزاد کی جامع مسجد میں کی گئی یادگار تقریر اور اس کے مثبت نتائج بھول جائیں،جس کو سننے کے بعد سامان سفر تیار کرکے نکل پڑنے والے مسلمانوں نے بھی ہجرت کا ارادہ ترک کرکے اس ملک میں رہنے، مرنے اور اپنی مساجد و مذہبی مقامات کو بےحرمتی اور ویرانی سے بچانے کی صدا پر اٹل اور ثابت قدم رہنے کا دوبارہ عہد کیا تھا۔
یاد رکھئے اگرہم نے ملک کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز کیا اور مصلحت یا گوشۂ عافیت کی تلاش میں کسی طرح کا اقدام نہ کیا تو تاریخ کو یہ لکھنے کا پورا حق ہوگا کہ تیس کروڑ مسلمانوں نے اپنے دین ہی نہیں وجود کو بھی وطن عزیز میں دفن کرنےکا گناہ کیا۔ آج ہم آزاد ، جمہوری اور سیکولر ملک کے سیکولر دستور کے باوجود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ملکی سیاست کا رُخ بدلا جا رہا ہے۔ایسی صورت میں کیا ہم قانون ہاتھ میں لئے بغیر ایک ساتھ مل کر سنجیدگی اور اخلاص سے کچھ کر بھی نہیں سکتے؟
اس طرح کے حالات عارضی اور وقتی ہوتے ہیں، ہماری لاپرواہی اور بے تدبیری کے علاوہ اور کوئی چیز اس کو زیادہ طویل نہیں کرسکتی ، ضرورت ہے کہ شکوک و شبہات،انتشار و اختلاف اور اشتعال یا جلدبازی چھوڑ کر غیر ضروری مصلحت و گوشۃ عافیت کی امید و تلاش میں بے عملی سے توبہ کریں، دِلوں کو مضبوط بنائیں، غور و فکر کی عادت ڈالیں اور جائزہ لیں کہ آخر ہم کہاں اور کیوں جا رہے ہیں؟
یقیناکبھی کبھی سرد ہوائیں چلتی ہیں لیکن پھر موسم خوشگوار ہوتا ہے، اگر اب بھی حالات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا، صحیح فیصلے نہیں لئے گئے اور مناسب تدبیر و اقدام سے حالات کا مقابلہ نہ کیا گیا تو پھر اپنے انجام اور اس کے نتائج کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ لیکن اگر موجودہ صورت حال کو بدلنا ہے تو تاریخ کو بدل دینے والا اپنے اسلاف کا جذبہ اور کردار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیےعہد کریں کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ اس کے بنیادی فیصلے ہمارے خلاف کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہمارے اسلاف نے حالات کا رخ موڑنے کے لئے کبھی سمندروں میں غوطہ لگایا تھا تو کبھی پہاڑوں کو شاہراہ عام بنایا تھا۔مشکلات کا ہنس کر سامنا کیا تھا۔ دشمنوں کو دوست بنایاتھا۔ظالموں کو عدل و انصاف کا درس دیا تھا۔طوفانوں کو ایمان و یقین کے ڈھال سے روکا تھا، شہنشاہوں کو ظلم و زیادتی کا انجام سمجھا دیا تھا ،جہاں گئے واضح کردیا تھا کہ ہم یہاں سے لوٹ کھسوٹ کرکے بھاگنے والے نہیں بلکہ پورے معاشرہ کوعدل وانصاف اور پیار و محبت کی دولت دینے کے لئے آئے ہیں۔
ایک بار پھر اس پیغام کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس کوئی نیا نسخہ نہیں بلکہ چودہ سو برس سے بھی زیادہ پرانا وہی نسخہ ہے جس کو کائناتِ کا عظیم محسن لایا تھااور ان شاءاللہ وہی نسخہ زندگی نو کا ضامن اور ہمارے وجود کا محاٖٖفظ ہوگا اور اُسی کی سچی اور مکمل اتباع ہماری کامیابی و کامرانی کا سب سے بڑا سرمایہ ثابت ہوگا۔
[email protected]
Comments are closed.