تاناشاہی کے لئے تیار رہئے

ڈاکٹرعابدالرحمن (چاندور بسوہ)
کانگریس لیڈران کا بی جے پی میں جانا جاری ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے کئی بڑے لیڈران کے بی جے پی میں شامل ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہماچل میں تو کانگریس کے منتخب اراکین نے راجیہ سبھا الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار کے بجائے بی جے پی امیدوار کو فتح سے ہم کنار کروادیا اور صوبائی حکومت گرانے کے درپے بھی ہو گئے یہ باغی لوگ بھی بی جے پی کے رابطے میں بتائے جا رہے ہیں فی الحال تو ہماچل کی کانگریس حکومت محفوظ نظر آرہی ہے لیکن وہاں بھی کب مدھیہ پردیش مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کی پارٹی ٹوٹنے حکومت گرنے اور بی جے پی کی حکومت بننے کی کہانی دہرائی جائے کہا نہیں جاسکتا۔ کانگریس ہی نہیں دوسری پارٹیوں کے لیڈران بھی بی جے پی جوائن کررہے ہیں اسی طرح سرکاری افسران اور ججوں کے بھی بی جے پی میں شامل ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی سے کسی خاص انخلاء کی کوئی خبر نہیں ہے وہ لوگ بھی بی جے پی چھوڑنے کی بات نہیں کررہے ہیں جو سیاسی طور پر کامیاب ہونے کے باوجود خود بی جے پی کے ذریعہ نظرانداز کئے جارہے ہیں۔2014 کے بعدبی جے پی کے کئی ایسے لیڈرس حاشیہ پر دھکیلے گئے ہیں جو اس کی بنیاد کے پتھر ہیں لیکن یہ لیڈرس پارٹی چھوڑکر نہیں گئے بلکہ یہ بیان بھی سننے کو ملا کہ کنویں میں کود جائیں گے لیکن بی جے پی نہیں چھوڑیں گے۔ حال ہی میں بی جے پی نے تین ریاستوں میں انتخابی کامیابی حاصل کی دو میں تین تین ٹرم کے وزراء اعلی کو بدل دیا اور ایک میں روایتی اور مضبوط دعویدار کے مقابلے ایک فرسٹ ٹائم ایم ایل اے کو وزیر اعلی بنادیا گیا لیکن کہیں کوئی بغاوت نہیں ہوئی کسی ایک بھی لیڈر نے اپنے حامیوں کے ساتھ پارٹی چھوڑنے سرکار گرانے یا کانگریس کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کا کام تو چھوڑئیے دھمکی بھی نہیں دی۔ ہمارے خیال سے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان دنوں بی جے پی تنظیمی طور پر اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ بغاوت کرنے والوں کو سو بار سوچنا پڑے۔لیکن اب یہ تنظیمی قوت ایک ہی شخص کی مٹھی میں سمٹتی نظر آرہی ہے۔ ہر وہ شخص جو اس قیادت کے سامنے کھڑا ہونے کی قوت و صلاحیت رکھتا ہے بغیر کسی دیری کے بہت آسانی سے کنارے لگایا جارہا ہے۔
کل ملاکر ملک کی سیاسی صورت حال ایک پارٹی سسٹم کی سی ہے اور اس ایک پارٹی میں بھی مکمل تانا شاہی ہے اور اپوزیشن کی مسلسل ناکامی اور انحطاط کی وجہ سے یہ تانا شاہی سرکاری سطح تک کھنچ گئی ہے اقتدار کے حصول کے لئے کس طرح غیرقانونی اور غیر اخلاقی طریقے اپنائے جارہے ہیں چندی گڑھ میئر الیکشن میں ریٹرننگ آفیسر کے ڈریعہ دھاندلی اس کی تازہ مثال ہے اس کے علاوہ تمام سرکاری ادارے سیاسی اپوزیشن اورمیڈیاوسماجی ناقدین کے خلاف چن چن کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یوں تو یہ کارروائیاں بدعنوانی اور گھوٹالوں جیسے معاملات میں کی جا رہی ہیں جن کو عوامی حمایت ملنا اورجن سے گھوٹالوں کے خلاف سرکار کا قد بڑھنا طے ہے۔ ان سلیکٹیو کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا لیکن بدعنوانی کے خلاف کارروائی اشو ہی ایسا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اس میں دخل اندازی کرنے سے انکار کردیا۔ مین اسٹریم میڈیا تو تقریباًپورا کا پورا سرکار کا ترجمان ہوچکا ہے سرکار سے سوال کرنا تو دور سوال کرنے والوں کو بلیک آؤٹ کررہا ہے جو ایسا نہیں کررہا اس کے خلاف سرکاری ایجنسیاں کارروائی کررہی ہیں اور وہ بھی غیر ملکی فنڈنگ کے بھڑکتے ہوئے الزام کے تحت یعنی یہاں بھی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والا معاملہ ہے۔ اس سرکار سے پہلے ہی سے ہمارے یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کی کاروائیاں ایسی ہی رہی ہیں کہ انہیں نتیجے کی فکر نہیں ہوتی آج ملزم گرفتار ہوگئے الزامات طے کئے جاچکے بس بھلے ہی دس بیس سال بعد وہ ملزمین عدالتوں سے بے گناہ ثابت ہوکر باعزت بری ہوجائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا سو ہوسکتا ہے یہاں بھی یہی ہو۔ لیکن اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ ساری کارروائیاں ان لوگوں کے خلاف نہیں ہورہی ہیں جن پر بدعنوانی کے الزامات تو ہیں لیکن انہوں نے یا تو بی جے پی جوائن کرلی یا اس کے اتحادی بن گئے۔ یا جو اس کے ارادی یا غیرارادی ایجنٹ ہیں یا بی جے پی کے خلاف جن کی جارحانہ بیان بازیاں اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔یہی نہیں اب وہ لوگ بھی زد میں آرہے ہیں جو ابھی تک مودی جی کے کے بڑے حمایتی تھے مسئلہ یہ ہوا کہ انہوں نے یا ان کے کسی عزیز نے مودی جی کے خلاف کہیں کچھ لکھ دیا یا ان کی کسی پالسی پر تنقید کردی سوقانون کے لمبے ہاتھ ان تک بھی پہنچائے جارہے ہیں ۔ مجموعی طور پر ملک میں جمہوریت نام کورہ گئی ہے تاناشاہی پوری طرح مستحکم ہوتی جارہی ہے اگر اپوزیشن جماعتیں کم از کم جمہوریت بچانے کے نام ہی اکٹھی نہیں ہوئیں اور اس لوک سبھا الیکشن کا نتیجہ بھی حسب سابق رہا تو بچی کھچی جمہوریت کا کام بھی تمام سمجھئے۔
Comments are closed.