لوک سبھاانتخابات2024کاشیڈول جاری،پہلے مرحلے کی ووٹنگ 19؍اپریل کو

نئی دہلی(ایجنسی)دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے ملک میں 2024کے لوک سبھاانتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ کا آغاز اگلے ماہ اپریل کی انیس تاریخ سے ہو گا۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک میں ایک بلین کے قریب شہری اس بار انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق انیس اپریل سے شروع ہونے والی یہ ووٹنگ سات مرحلوں پر مشتمل ہو گی اور انتخابی نتائج کا اعلان سات جون کو کیا جائے گا۔
عوامی جائزوں کے مطابق ان انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی باآسانی فتح یاب ہو سکتی ہے۔ یہ جماعت ان انتخابات میں علاقائی اتحادی سیاسی پارٹیوں کے ہمراہ میدان میں اتری ہے۔ اس کا مقابلہ کانگریس سمیت دو درجن سے زائد اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔
مودی اور ان کی پارٹی انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بھی کئی ماہ پہلے سے ہی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم مودی تقریبا روزانہ کی بنیاد پر ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کر رہے ہیں، جہاں وہ ہر روز نئے منصوبوں کا افتتاح کرنے کے علاوہ مذہبی تقاریب میں شرکت اور عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔
اپنی تقاریر میں مودی ملک میں اقتصادی نمو کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کی دنیا کی سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے طور پر اور ملک بھر میں انفراسٹرکچر اور بہبود کے بڑے منصوبوں کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان انتخابات میںبابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کا معاملہ بھی عوامی نفسیاتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
نریندر مودی کا ہدف 543 رکنی لوک سبھا میں اپنی جماعت بی جے پی کے لیے 370 اور نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد کے لیے مجموعی طور پر 400 سے زائد نشستوں کا حصول ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سابقہ انتخابات میں بے جے پی کو 303 اور این ڈی اے کو 350 سے زائد نشستیں ملی تھیں۔
گزشتہ انتخابات کے نتائج سن 1980 میں بننے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اس کی تاریخ کے بہترین نتائج بھی رہے تھے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ پارٹی اگلے ماہ شروع ہونے والے عام انتخابات میں سن 2019 کے مقابلے میں اور بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔
دوسری جانب این ڈے اے کے مقابلے میں کانگریس پارٹی قریب دو درجن جماعتوں کے ہمراہ INDIA (انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس) کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ گزشتہ برس یہ سیاسی اتحاد وجود میں آیا تھا، تاہم روئٹرز کے مطابق اب تک اس اتحاد کے درمیان سیٹوں کے معاملے سمیت کئی اختلافات ہیں اور اسے بی جی پی کے مقابلے میں ایک کمزور سیاسی قوت قرار دیا جا رہا ہے۔

Comments are closed.