Baseerat Online News Portal

بہار کی تعلیمی بدحالی کیوں کر دور ہوسکتی ہے؟

 

ساجد حسن رحمانی

ایک سوال جو ہندوستان کی تمام ریاستوں کے لوگوں کے ذہن میں آتاہے کہ بہار میں تمام تعلیمی میدان کے شہسوار ، ماہرفن اور یکتائے زمانہ لوگ پیدا ہوئے ، لیکن پھر بھی بہار میں خواندگی کی شرح دیگر تمام ریاستوں سے کیوں کر کم ہے ؟

تو اس کا آسان سا ایک جواب تو یہ ہے کہ بہار میں حصول تعلیم کی سہولیات اور مواقع ماضی میں بھی میسر نہیں تھے ، حال میں بھی نہیں ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی حتمی طورپر کچھ کہا نہیں جاسکتا ، جس کی وجہ سے تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے وہاں کے طلبہ کو حصول علم کے لیے دیگر صوبوں کا سفر کرنا پڑا اور پڑرہاہے اور حصول علم کے لیے ہجرت کرنے والے یہ مہاجرین دیگر ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں جاکر انتہائی تندہی ، دلجمعی اور کوہ کنی کے ساتھ شب وروز ایک کرکے تعلیم حاصل کرکے یکتائے زمانہ بن گیے اور بن رہے ہیں- لیکن وہ خود تو حصول تعلیم کے لیے دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں کارخ کیا اور آج بھی وہاں کے طلبہ کر رہے ہیں ، مگر اپنے علاقوں ، رشتہ داروں اور اپنے جاننے والوں کی اولادوں کی راہنمائی نہ تو پرکھوں نے کی اور نہ ہی آج حصول علم کے لیے مہاجرین ان کی نسل نو راہنمائی کے فریضہ کو انجام دے رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کے گاؤں ، قصبوں اور رشتہ داروں کے بچوں اور بچیاں تو دور کی بات ہے خود ان کے بھائی بہن ناخواندہ رہ گیے –

دوسرا جواب وہاں کے لوگوں کے اندر دوسروں کی فلاح وبہبود کے تئیں بے پناہ حسد وجلن کا پایا جانا ہے ، آج بھی وہاں کے لوگوں کی زبان سے بکثرت سناجاتا ہے کہ "فلاں کا بیٹا کیسے ڈاکٹر بن جائے گا/ کیسے انجینئر بن جائے گا وغیرہ وغیرہ” جبکہ دیگر ریاستوں کے لوگوں کی زبانوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ "فلاں کابیٹا کیسے نہیں پڑھے گا ، اس کے حصول تعلیم کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے جسے جاننا اور گاؤں اور اعزہ و اقارب کو مل کر اسے دور کرنا ہمارا اخلاقی وواجبی فریضہ ہے ، اسی لیے دیگر صوبوں میں خواندگی کی شرح بہار سے زیادہ ہے ، اگر اہل بہار یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بہار میں بھی خواندگی کی شرح بڑھے اور دیگر صوبوں میں ” مزدور فیکٹری” جیسے لقب بد سے موسوم کیے گیے بہار سے یہ دھبہ ہٹے تو اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ اور اپنے اس ذہنی وغیر اخلاقی رویہ کو دور کرنا پڑے گا ، نیز دوسروں کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے تئیں اپنے اندر ہمدردی واخوت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا –

تیسرا جواب یہ ہے کہ وہاں کے لوگ وقتی اور مختصر سے فائدے کو دائمی اور کثیر فائدے پر ترجیح دیتے ہیں ، وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد حصول تعلیم میں مشغول ہوگی تو اس کاثمرہ بہت دیر سے ملے گا اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کیا اورکتنا ملے گا ، اگر اسے کسی فیکٹری کا مزدور بنادیتے ہیں تو فی الوقت ہی اس کا ثمرہ ملنا شروع ہوجائے گا ، گو یا وہ شروع ہی میں جوڑ گھٹاؤ کرلیتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ اپنی اولادکے ہنر سیکھنے کو زیور علم سے آراستہ ہونے پر ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی ہی طرح اپنی اولاد کو بھی ناخواندگی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کردیتے ہیں اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہمارا بیٹا پڑھ کر کچھ بن جائے گا تو فیکٹری میں جتنا سال بھر میں کمائے گا اس سے کہیں زیادہ وہ ماہانہ تنخواہ پائے گا ، اور اگر بالفرض مان لیاجائے کہ وہ پڑھنے کے بعد بھی ایک ان پڑھ مزدور کے برابر ہی کمائے گا تو کم ازکم اسے زندگی گزارنے کا سلیقہ تو معلوم ہوجائے گا نیز اگر آپ پڑھے لکھے کم تنخواہ یافتہ لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لیں گے تو آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ ایک تعلیم یافتہ شخص کم کماکر بھی زیادہ کمانے والے ان پڑھ سے بہتر زندگی گزارتا ہے ، اس لیے تعلیم یافتہ بننے کے بعد ہماری اولاد کیا کمائے گی ؟ کہاں کمائے گی ؟ ان سب کی فکر چھوڑ کر ہم اپنی اولاد کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا عزم کرلیں اور اس راہ میں حائل مصائب اور رکاوٹ کا چٹان بن کر اولاد کی طرح ہم بھی سامنا کریں –

مذکورہ بالا سوال کا یہ تین مختصر اور اہم جواب ہے ، جس کی طرف اگر اہل بہار توجہ دے دیں تو مجھے یقین ہے کہ بہار میں تعلمی انقلاب برپا ہوجائےگا اور خواندگی کی شرح بھی تیزی سے بڑھنے لگے گی ، بلکہ صحیح پوچھیے تو آج بھی بہار کے لڑکے اور لڑکیوں کے اندر اپنے آباء واجداد کی طرح محنت اور جہد مسلسل کا بے پناہ جذبہ ہے اور وہ اپنے والدین اور اپنی پرکھو ں کے نقش قدم پر چل کر تعلیمی میدان میں ملا محب اللہ بہاری ، علامہ شوق نیموی ، علامہ سید سلیمان ندوی ، مناظر احسن گیلانی ، منت اللہ رحمانی ، شاد عظیم آبادی ، یگانہ چنگیزی ، انجم مانپوری ، مجاہد الاسلام قاسمی ، خالد سیف اللہ رحمانی ، نورعالم خلیل امینی، ابوالکلام قاسمی ،اور ان جیسے ہزاروں فخر بہار ہستی کی تاریخ دہرانے کے لیے کمربستہ ہیں ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں موقع دیا جائے اور ان کی حو صلہ افزائی کی جائے –

یہ عجلت میں لکھی گئی ایک ناقص تحریر اور کڑوی سچائی ہے ، موقع ملے گا تو پھر انشاءاللہ اس موضوع پر بسط وتفصیل کے ساتھ لکھا جائے گا –

Comments are closed.