Baseerat Online News Portal

آپ کے صبر و ضبط کو سلام

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
یہ سورج کی طرح روشن حقیقت ہے کہ بی جے پی ایک مسلمان مخالف (Anti- Muslim Party) اینٹی مسلم پارٹی ہے۔ یہی اس کی یو ایس پی(USP) یعنی فروخت کنندہ نکتہ ہے۔ وہ اکثریت کی منہ بھرائی یعنی Majority Appeasement کرتی ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو حراساں و پریشان کرنے کے اصول پر گامزن ہے۔ جب سے مرکز اور کچھ ریاستوں میں اس کی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم ہوگئی ہے وہ لگاتار اس پالیسی پر عمل کررہی ہے اور نت نئے ڈھنگ سے مسلمانوں کو ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں رکھنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ پالیسی اس کے لیے ایک ایسا کارگر ہتھیار ہے جس سے ہندوؤں کے ایک بڑے حصے کا ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اس کی انتخابی کامیابی کا سب سے اہم ہتھیار ہے اس کو وہ نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرتی ہے۔
2024 کا لوک سبھا کا چناؤسر پر ہے۔ بی جے پی تیسری بار اقتدار میں آنے کی جی توڑ کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن پوری طرح بکھری ہوئی ہے اور ڈیمولرائز(Demoralise) ہے اور بظاہر کوئی مضبوط چیلنج پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پھر بھی ماحول میں وہ جوش پیدا نہیں ہورہا ہے اور عوام پوری طرح اپنے پتے نہیں کھول رہی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کیمپ میں گھبراہٹ ہے اور خود وزیر اعظم کے چہرے پر اعتماد کی وہ جھلک دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جو ہوا کرتی تھی۔ بی جے پی کا الیکشن وار روم بھی اس بارکلولیس (Clue-less)ہے کہ کیا بیچ کر لوگوں کا ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
رام مندر نرمان، یونی فارم سول کوڈ، آرٹکل 370 اور اس طرح کے دیگر امور پر مسلمانوں نے اب تک جس ہوش مندی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے جس انداز کے معقول ردِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی وجہ سے ماحول میں وہ گرمی پیدا نہیں ہورہی ہے جس کی بی جے پی کو ضرورت ہے۔ لہٰذا اس نے ٹھیک الیکشن سے پہلے پوری ٹائمنگ دیکھ کر کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور مسلمان اس وقت روزہ نماز اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں گے وہ شاہین باغ جیسا احتجاج آرگنائزنہیں کریں گے پورے ملک میں سی اے اے کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔ سی اے اے مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس ملک کے دستور کی روح کے خلاف اور اس وسودیودھ کٹبھکم کے نظریہ کے خلاف ہے جس کا پرچار کرتے بی جے پی نہیں تھکتی ہے۔ ابھی G20 میں نعرہ دیا گیا تھا کہ ایک دنیا – ایک انسانیت۔ یہ قانون انسان اور انسان میں فرق کرتا ہے اور شاید منووادی تہذیب کا اصلی چہرہ بھی ہے ورنہ دلتوں کے ساتھ جو پچھلے پانچ ہزار سال سے سلوک ہوتا آرہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے وہ نہیں ہوتا۔ بھارت کا دستور سیکولر ہے میں شہریت کے لیے مذہب کی شرط نہیں ہے۔ اس قانون میں مذہب کو شہریت کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ جو بھارت کے بنیادی کردار Basic Character کو مجروح کرتا ہے۔ مگر جب حکومت ناعاقبت اندیش ہو تو اس کے سامنے کچھ کہنا بہرے کے آگے بین بچانا ہے۔
بی جے پی خوش ہے کہ اس کی تمام پالیسی الیکٹورلی ہٹ ہے اور اس کو اقتدار دلانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ مگر وہ یہ بھول رہی ہے کہ اس سے مستقبل میں بھارت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور دیش کا شیرازہ بکھر جانے کااندیشہ ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو الیکٹورل بونڈ کا گھوٹالا سامنے آیا ہے، اس نے بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت کو سرِ بازار ننگا کر دیا ہے اور ملک کے سامنے اپنی صفائی دینے میں معذور ہے۔ لہٰذا عوام کی توجہ اس جانب سے ہٹانے کے لیے نمازیوں کے ساتھ بد سلوکی اور کھلے میں نماز پر وا ویلا لوگوں کی توجہ بھٹکانے کی کوشش ہے۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے مرتا گھوڑا بہت تیز لات مارتا ہے۔ سمجھ لیجئے گیدڑ کب شہر کی طرف بھاگتا ہے۔وہ وقت اب قریب آیا چاہتا ہے بس اس کا انتظار کیجئے۔
ہم اورنگ زیب کی مذہبی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ میں اس پالیسی کی تعریف یا تنقید میں نہیں جاؤں گا۔ میں سنگھ پریوار کا موقف تسلیم کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں جس وقت اورنگ زیب اپنی اس پالیسی پر عمل کررہا ہوگا اور اسے جو کامیابی مل رہی ہوگی اس سے وہ بہت خوش ہوگا۔مگر آج اس کی یہی پالیسی مغلیہ سلطنت کے زوال کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ تاریخ خود کو بار بار دہراتی ہے اور جو تاریخ سے سبق نہ لے اس کو احمق قرار دیا جائے گا۔ شاید بی جے پی جانتے بوجھتے اس طرح کے احمقانہ اقدام پر مصر ہے۔ چند سالوں میں دیش کا پورا منظر نامہ بدل جائے گا، تب اسے بڑی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
میں مسلمانوں سے دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ آپ نے موجودہ حالات میں جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے اس پر قائم رہیے۔ صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ ابھی وقت سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے کا نہیں ہے ابھی اپنی کمزوریوں اور اندرونی انتشار پر توجہ دینے کا وقت ہے۔ اپنی جمعیت اور جماعت کو مضبوط کیجیے اور زبان و ہاتھ کو روک کے رکھئے۔ خود کو پہاڑ اور چٹان بنائیے جس سے طوفانی لہریں ٹکرا کر واپس لوٹ جائیں اور آپ کو اپنی جگہ سے ہلا نہ پائیں۔ یہ ملک ہمارا ملک ہے، یہم اس کے اصلی باشندہ ہیں اور کوئی ہمیں ہماری شہریت سے محروم نہیں کرسکتا ہے۔ میں مسلمانوں کے صبر و ضبط کو سلام کرتا ہوں امید ہے وہ آگے بھی اسی موقف پر قائم رہیں گے۔ اس حکمت عملی سے بی جے پی کے نفرت کے انجن والی ٹرین سے ساری اسٹیم نکل جائے گی اور اس کو منھ کی کھانی پڑے گی۔
دوسرے بی جے پی، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نہ تو پوری ہندو آبادی ہے اور نہ پورے ہندو عوام کی نمائندہ ہے۔ یہ 140 کروڑ کے ملک میں 20 فی صد لوگوں کا گروہ ہے۔ باقی 80فی صد آبادی ان سے الگ ہے۔ اس لیے سنگھ پریوار پر اعتراض یا تنقید کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم ہندو آبادی پر ایسی تنقید نہ کریں جو خواہ مخواہ ہندو عوام کو سنگھ سے قریب کردے۔ اس ملک میں ہندوؤں کی غالب اکثریت 50-60فیصد ایسی ہے جو سنگھ پریوار کے فکروفلسفہ کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ ہمیں اس بڑی جماعت سے جڑ کر رہنا ہے۔ محبت اور خدمت کے ساتھ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوکر جیسے ہم صدیوں سے رہتے آرہے ہیں، آگے بھی رہنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ یہی سیدھی اور سچی راہ ہے جس پر چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com, Mobile: 9934700848

Comments are closed.