Baseerat Online News Portal

بھارت جوڑو نیائے یاترا اختتام اورالیکٹورل بانڈ کی نقاب کشائی

 

ڈاکٹر سلیم خان

منی پور سے شروع ہوکر ممبئی  تک آنے والی بھارت جوڑو نیائے یاترا بالآخرایک ایسے دن  اختتام پذیر ہوئی  جب الیکشن کمیشن قومی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کررہا تھا  اور ایسا محسوس ہوا گویا وہ بھی اس کا منتظر ہے۔  14 ؍جنوری سے شروع ہونے والی  راہل گاندھی کی یہ عوامی رابطے کی مہم   اپنے آخری مرحلے میں 12؍ مارچ کو نندوربار سے مہاراشٹر میں داخل ہوئی تاکہ 6 1؍ مارچ کو ممبئی میں اپنی منزل  مقصود ڈاکٹر امبیڈکر کی سمادھی چیتیہ بھومی پر پہنچ جائے۔ نہ جانے کیا سوچ کر کانگریس نے اس یاترا کے خاتمے پر ڈاکٹر امبیڈکر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا فیصلہ کیامگر   کرناٹک  میں    کینرا  حلقہ کے بی جے پی  رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڑے نے عین موقع پر  دستور میں ترمیم  کا موضوع چھیڑکراس کی معنوعیت میں بے شمار اضافہ کردیا ۔ اس طرح گویا حزب اختلاف کو سونے کی طشتری میں رکھ کر ایک ڈنڈا تھما دیا  گیا کہ یہ  لو اس سے ہمیں  مارو۔   ضلع اُترکنڑا کے سداپور  میں منعقدہ بی جے پی کے ایک اجلاس میں بولتے ہوئے موصوف  نے کہا کہ :”دستور میں ترمیم لانے، اس میں کی گئی توڑ مروڑ کو درست کرنے اور کانگریس کی طرف سے کیے گئے غیر ضروری اضافے کو ہٹانے کے لئے بی جے پی کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔  اس کے علاوہ بی جے پی کو ملک کی 20 سے زیادہ ریاستوں میں بر سر اقتدارپر آنا  بھی ضروی ہے ۔”

اس بیان کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب تک دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت نہیں مل جاتی اس مقصد کا حصول ناممکن ہے۔ ایوان بالا میں تو ابھی تک بی جے پی کو معمولی اکثریت بھی حاصل نہیں ہے اور اس انتخاب میں وہ  چار سو کے بجائے پانچ سو نشستیں جیت جائے تب بھی وہاں تو دو تہائی اکثریت   نہیں حاصل ہوگی اور ملک کی 20 سے زیادہ ریاستوں میں برسرِ اقتدار آنے کا خواب دیکھنے والے ہیگڑے پچھلے سال  خود اپنے صوبے کرناٹک میں اقتدار گنواچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ  پڑوس کے تلنگانہ میں بھی ان کی جماعت کا حشر دنیا کے سامنے ہے ۔ زمینی  حقائق سے غافل  ہیگڑے نے کہا تھا کہ بی جے پی کا موجودہ نعرہ ہے”اب کی بار، 400 پار”  اور اس کے کے پیچھے "ارادہ”  400 سیٹیں حاصل کرکے  دستور میں ترمیم کرنا ہے۔”اب کی بار، 400 پار” کی بابت یوگیندر یادو نے تو ممبئی میں کہہ دیا کہ  یہ  ایک نفسیاتی حربہ یعنی چار سوبیسی ہے ۔ان بیچاروں کے تو معمولی اکثریت کے  لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ بات درست ہے ورنہ بدعنوان کانگریسیوں کو اپنی جماعت میں بھرنے اور نوین پٹنائک و چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ الحاق کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔     

اننت کمار کے مطابق  کانگریس  کانگریس نے ہندو سماج کو دبانے کے مقصد سے  دستور کو بنیادی طور پر توڑ مروڑ دیا یعنی  زبردستی غیر ضروری چیزوں کا اضافہ کردیا ہے  ۔ موجودہ حالت میں اسے بدلنا  ممکن نہیں ہے‘‘ ۔ کانگریس پر دستور کو توڑنے مروڈنے کا الزام لگانے والے ہیگڑے نے 2019 میں بھی جب اسی طرح کا  بیان دیا اور اس پر  تنازعہ کھڑا  ہوگیا  تھاتو وہ اس سے لا تعلق ہوتے  ہوئےاور یہ کہہ کر معذرت چاہی تھی کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ یعنی وہ بیچارے  کبھی آئین اور کبھی اپنے ہی   بیان کی  توڑ مروڈ میں الجھے رہتے ہیں۔ منی شنکر ائیرکے بیانات کی مانند پارٹی کو مشکلات میں ڈالنے والی  حماقت  سے دامن چھڑاتے ہوئے بی جے پی نے  ایکس پر لکھا کہ  :”آئین کے بارے میں جن خیالات کا اظہار ہیگڑے نے کیا ہے وہ ان کے اپنے ذاتی سوچ ہے جوپارٹی کے نظریات کی عکاسی نہیں کرتے ۔ بی جے پی ملک کے آئین کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے اٹل عزم کی توثیق کرتی ہے ، اس بیان کے تعلق سے ہیگڑے سے وضاحت طلب کی جائے گی ۔” یہ دراصل زعفرانی منافقت تھی ۔

سنگھ پریوار بشمول بی جے پی  دل سے وہی چاہتاہے جو ہیگڑے نے کہا ہے مگر زبان پر لانے سے ڈرتاہے  اسی لیے کوئی سخت کاروائی کرنے کے بجائے وضاحت طلب کرنے پر اکتفاء کیا گیا ۔ ویسے بی جے پی چونکہ قانون  کے بجائے بلڈوزر کی حکمرانی میں یقین رکھتی ہے اس لیے اسے من مانی کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔  کانگریسی  وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے اس بیان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے  مطالبہ کیا کہ اگر وزیر اعظم نریندرا مودی،  اس سے اتفاق  نہیں کرتے تو پھر اننت کمار ہیگڑے کو پارلیمانی رکنیت کے لئے نااہل قرار دے کر انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہیے ۔  یہ رکن پارلیمان کا ذاتی بیان نہیں بلکہ  بی جے پی کا خفیہ ایجنڈا ہے ۔ پارٹی کے سینئررہنماوں  کی توثیق کے بغیر وہ اس طرح کا بیان دے نہیں سکتے ۔    نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار نے کہا کہ یہ بیان   بی جے پی  کے  آئین  مخالف نظریات  کا ثبوت ہے ۔ ہیگڑے نے اس   بیان کے اس دن کا انٹکاب کیا جس دن یاترا مہاراشٹر میں داخل ہورہی تھی۔

مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے صدر ناناپٹولے نے اس موقع پر اپنے استقبالیہ خطاب میں  اظہار مسرت کرتے ہوئے  کہا تھا  کہ ’’یہ ہمارے لیے خوشی اور فخر کی بات ہے کہ بھارت جوڑو نیائے یاترا چھترپتی شیواجی مہاراج، راجرشی شاہو مہاراج، مہاتما پھلے، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جیسے عظیم شخصیات کے افکار کی سرزمین پر اختتام پذیر ہو رہی ہے لیکن مرکز اور ریاست کی بی جے پی حکومتیں ان عظیم شخصیات کے نظریات کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بی جے پی جمہوریت اور آئین کو تباہ کر رہی ہے لیکن ہم انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ ‘‘  ایسا لگ رہا تھا کہ  نانا پٹولے کی سہولت کے لیے اننت ہیگڑے نے وہ متنازع بیان دیا  ورنہ یہ بات بے وقت کی راگنی لگتا ۔ اس طرح کا معاملہ یاترا کے ساتھ اترپردیش میں بھی ہوا۔  راہل گاندھی جب بیروزگاری کی بات کرتے تھے تو بی جے پی والے کہتے تھے کہاں ہے  بتاو؟  ملک میں تو سب چنگا ہے۔ یاترا یوپی میں  ہی تھی کہ  سرکاری نوکری کے پیپر لیک ہوگئے۔ نوجوانوں نے احتجاج کرکے امتحانات رد کروائے اور یہ بات ثابت ہوگئی اسامیوں کی تعداد سے  سو گنا زیادہ امیدواروں فارم بھرے  تھے ۔ اس حسن اتفاق نے بیروزگاری کی سنگین صورتحال کھول کر پیش کردیا۔

بھارت جوڑو یاترا نے دو مراحل میں دس ہزار سے زیادہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ۔ اس عظیم عوامی رابطے کی مہم کے خاتمہ پر اس کے اغراض و مقاصد پر غائر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ یاترا کے آغاز  سے ایک ہفتہ قبل  کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اطلاع دی  تھی کہ راہل گاندھی کی قیادت میں پارٹی لیڈران 14 جنوری سے ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کا آغاز کر یں گے ۔ انڈیا اتحاد کے رہنماوں ، کانگریس کی حلیف جماعتوں اور سیول سوسائٹی کو بھی  اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی اور اس کے نظارے یاترا کے دوران  بارہا دکھائی دئیے۔ کانگریسی  نے کہا تھا  کہ  اس دوران ہم عوام سے منسلک مسائل پر بات کریں گے اور  باشندگانِ وطن  کو معاشی، سماجی اور سیاسی انصاف دلانے کی جانب  یہ  ایک مضبوط قدم ہوگا۔ ان کی یہ بات بھی درست نکلی ۔

یاترا کی ضرورت  بیان کرتے ہوئے کھڑگے  نے کہا تھا کہ  ’’جب ہم نے پارلیمنٹ میں ملک سے وابستہ مسائل اٹھانے کی کوشش کی تو حکومت نے ہمیں بولنے کی اجازت نہیں دی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 146 ارکان پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا۔ اس لئے ہم ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے ذریعے لوگوں کے درمیان جا رہے ہیں، تاکہ اپنی بات ان سے کہہ سکیں اور سماج کے ہر طبقہ سے ملاقات کر کے اس کی بات سن سکیں۔‘‘ یعنی یہ کہنے سننے کی ایک قومی مشق تھی اور راہل کے مطابق اس کے دوران ان کا نظریہ بدل گیا۔  مخالفین  کی آواز کو دبانے کا  مسئلہ ایوان پارلیمان تک محدود نہیں تھا بلکہ ذرائع ابلاغ بھی عوام کے  بنیادی مسائل سمیت حزب اختلاف کو نظر انداز کررہا تھا اس لیے کانگریس کو مجبوراً یہ اقدام کرنا پڑا۔ ممبئی کے اختتامی اجلاس میں راہل گاندھی نے اس کا اعتراف بھی کیا ۔ عوامی مسائل کی بابت  کانگریسی  صدر نے کہاتھا  کہ اس مرتبہ انصاف ہو کر رہے گا، ہر کمزور کو حق مل کر رہے گا۔ برابری کا حق، روزگار کا حق، احترام کا حق۔ انہوں نے کہا کہ ہم مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل، مزدوروں کی بری حالت، امیر غریب کے درمیان بڑھتی کھائی اور ذات پر مبنی مردم شماری سے وابستہ مسائل پر عوام کو بیدار کریں گے۔‘‘

ملکارجن کھڑگے نےبھارت جوڑو نیائے یاترا کو اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے بجائے  این جی او، صحافیوں، کسانوں، چھوٹے کاروباریوں، دلت پسماندہ طبقہ، قبائلیوں اور دانشور طبقہ کو جوڑنے کاایک پلیٹ فارم قرار دیا   تھا ۔عوام الناس  کو   ناانصافی کے خلاف انصاف کی لڑائی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے   ہوئے  انہوں نے کہا تھا  کہ ہم کروڑوں  باشندگانِ وطن  کی محبت اور دعاوں ساتھ ، آمریت اور تکبر کو کرارہ  جواب دینے کے لیے پھر سے نکل  رہے ہیں اس لیے   اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھایئے، اس یاترا میں شمولیت اختیار کیجیئے۔ملک کے طول و عرض میں عوام نے اس دعوت پر لبیک کہا اور راہل گاندھی کے اعلان  کی ہمنوائی  کی   کہ ، ’’ہم پھر آ رہے ہیں، اپنوں کے درمیان، ناانصافی اور تکبر کے خلاف نیائے (انصاف) کی للکار لے کر۔ سچائی کی اس راہ پر میں حلف لیتا ہوں کہ یاترا جاری رہے گی، انصاف کا حق حاصل ہونے تک۔‘‘ ایک مہم  کے اختتام پر سب سے قیمتی تحفہ عدالت عظمیٰ نے الیکٹورل بانڈ کی نقاب کشائی کرکے ’انڈیا‘ الائنس  کو دے دیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قدر کارگر ثابت ہوتا ہے۔

Comments are closed.