Baseerat Online News Portal

اے رونقہائے محفل ما!!!

 

 

از: قاری محمد حنیف ٹنکاروی

 

الموت جسر يوصل الحبيب الى الحبيب

 

جھکایا سر نہ اپنا شہرت و انعام کی خاطر

جِیے بھی کام کی خاطر مرے بھی کام کی خاطر

 

حضرت مولانا ومرشدنا منیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر کچھ لکھنا اور وہ بھی چند الفاظ میں – جب کہ آپ ایک نگینہ، ایک متقی ، ایک مدبر ، ایک غمخوار، داعئ سنت غرضیکہ جامع شخصیت تھے – مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کس پہلو کو اجاگر کیا جائے اور کس سے احتراز کیا جائے بہر حال چل مرے خامہ بسم اللہ۔

کئی روز سے جس سانحہ کا کھٹکا لگا ہوا تھا وہ بالآخر پیش آکر رہا، دنیا ہی فانی ہے اور ایک دن جان سب کی جانی ہے۔ ابدال زمانہ، مولائی مرشدی حضرت مولانا منیر صاحب بھی وہاں چلے گئے جہاں ایک نہ ایک روز سب کو جانا ہے اور زمین اوڑھ کر سو جانا ہے۔ آج وہ ، کل ہماری باری ہے۔ لیکن حضرت کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ فرد فرید کی موت ہے، مدبر، متقی، داعئ سنت کی موت ہے، قسام ازل نے جس کو صرف بیدار مغز ہی نہیں بنایا تھا بلکہ آپ کے سینہ میں درد مند دل بھی رکھا تھا۔

زندگی ، زندگی ہے، صر صر ہے اور صبا ہے، ساحل ہے اور طوفان ہے، یاس کا بھنور ہے اور آس کی شادمانی ہے اسے شکایتوں اور شکوؤں کے دوش پر گزاریں یا صبر و شکر کے ساتھ طے کریں، خوشی اور غم کے ہجوم میں گزرنے والی زندگی کو گزرنا ہوتا ہے اور گزرجاتی ہے، زندگی کا اصول ہے وہ جس قدر بڑھتی ہے اسی قدر گھٹتی ہے یہ زندگی کی خود فریبی ہے کہ وہ گھٹنے میں اور کم ہونے میں خوشی کے روزن تلاشتی ہے، زبان رسالت مآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزاتی تعبير مالي و للدنيا ما أنا و الدنيا الا كراكب استظل تحت شجرة ثم راح وترکھا ( میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو کسی درخت کے نیچے چھاؤں میں بیٹھے کچھ دیر سستائے اور پھر اسے چھوڑ کر چل پڑے ) زندگی کا سب سے بڑا انمول تحفہ ایمان پر خاتمہ ہے ہمارے مرحوم حضرت مولانا منیر صاحبؒ بھی شہادت کی موت پا گئے، طویل علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔

 

کڑے سفر کا تھکا مسافر

تھکا ہے ایسا کے سو گیا ہے

خود اپنی آنکھیں توبند کرلِیں

ہر آنکھ لیکن، بھگو گیا ہے

 

كل نفس ذائقة الموت، ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ایک عام شخص سے لے کر بڑے سے بڑا ملحد نام نہاد دانشور بھی انکار نہیں کر سکتا، ایک طرف موت ایک اور حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں؛ لیکن دوسری طرف یہ بھی کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ انسان عملی سطح پر موت سے بڑی حد تک غافل رہنے کا ثبوت فراہم کرتا رہتا ہے، اسلام نے انسانوں کو اپنی موت کو یاد کرتے رہنے کی دعوت دی ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ اگر انسانی معاشرے کا اپنی موت کو یاد کرتے رہنے کا مزاج بن جائے تو دنیا سے فتنہ و فساد کا قلع قمع ہو جائے، انسان آخرت رخی زندگی گزارنے لگے تو دنیا جنت نظیر بن جائے، اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے والا کوئی انسان جب موت سے ہم کنار ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی انسان کو اپنی موت یاد ضرور آتی ہے بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ جب انسان کسی کا جنازہ دیکھے تو وہ یہ تصور کرے کہ یہ دوسرے کا نہیں بلکہ خود اس کا جنازہ ہے، یہ تصور اس میں آخرت کی یاد کا اور اللہ کے خوف کا احساس پیدا کرتا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”انما الاعمال بالخواتیم“ چنانچہ حسن خاتمہ ہی اصل ہے، زیر نظر چند حروف اسی خیال سے نذر قارئین ہیں کہ حضرتؒ کے سفر آخرت کا تذکرہ ہماری اپنی موت کو یاد کرنے کا سبب بنے، ایمان پر خاتمہ کی فکر اس کے لئے دعاؤں کی ہمیں توفیق ہو، اور ہمارے اندر اللہ کے حضور پیشی اور جوابدہی کا احساس پیدا

ہو جائے۔

٧ رمضان المبارک ١٤٤٥ مطابق ١٨ مارچ ٢٠٢٤ء بروز پیر صبح اندوہناک خبر موصول ہوئی اور تدفین کا وقت ظہر بعد ٢:٣٠ بجے رکھا گیا تھا۔

کالینا کی وسیع و عریض جامع مسجد جو تین منزلہ ہے، ٹھیک ٢:٣٠ بجے صفیں لگ گئیں اور اعلان ہوا کہ نماز شروع ہو رہی ہے، مرحوم کے بڑے صاحبزادے مولانا عطاء اللہ صاحب نے سسکیوں کے ساتھ نماز جنازہ کی امامت کی۔

علماء، صلحاء مریدین، واردین خلفاء، عوام و خواص کے ایک جم غفیر نے شرکت کی، بعدہ وصیت کے مطابق جنازہ بذریعہ ایمبولینس بمبئی (مجگاؤ‌) ناریل واڈی قبرستان میں لایا گیا اور نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا۔

 

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.