Baseerat Online News Portal

قرآن مجید کی فریاد اپنے ماننے والوں سے….!

 

تحریر: حضرت مولانا احمد ٹنکاروی حفظہ اللہ

شیخ الحدیث: جامعہ فلاح دارین، ترکیسر، گجرات

 

 

وقال الرسول يا رب إن قومي اتخذوا هذا القرآن مھجورا

 

حقوق القرآن:

آج حقوق کی جنگ لڑی جا رہی ہے، ہر چیز کے حقوق ہیں، دنیا کی زندگی میں ہم نے ہر جاندار اور بے جان مخلوق کے حقوق پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ ماں باپ کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، ملازمین کے حقوق، مالکان کے حقوق، چھوٹوں اور بڑوں کے حقوق حتی کہ جانوروں کے حقوق، درختوں اور راستوں کے حقوق اور ہمسایوں کے حقوق پر الگ الگ کتابیں مارکیٹ میں مل سکتی ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کے بھی امام نوویؒ نے التبیان میں متعدد حقوق بیان کیے ہیں۔

جن میں مشہور پانچ حقوق ہیں۔ (١) ایمان بالقرآن (٢) تلاوت قرآن (٣) فہم قرآن (٤) عمل بالقرآن (٥) اشاعت قرآن

بحمد اللہ فہم قرآن کا اہم ذریعہ درس قرآن ہے اس عنوان پر دو قسط ماضی قریب میں شائع کرنے کی توفیق ملی۔

آج کا موضوع تلاوتِ قرآن ہے، مقاصد بعثت میں پہلے نمبر پر تلاوت کا تذکرہ ہے ۔ ”اذ بعث فیھم رسولا منهم یتلوا علیھم آیاته“

ترک تلاوت دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل قیامت کے دن بارگاہ الہی میں شکایت کریں گے۔ ”یا رب ان قومی اتخذوا هذا القرآن مھجورا“ امت کے خلاف ہجر قرآن کی ایف آئی آر (FIR) درج کروائیں گے۔

حضرت شیخ الہندؒ کا مالٹا کی جیل والا ایک سبق قرآن اور تعلیم قرآن کا عام کرنا ہے اور علامہ اقبالؒ نے بھی یہی رونا رویا ہے:

 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

 

حضرت تھانویؒ بھی شاکی ہیں کہ امت کا ہر طبقہ قرآن مجید کے کسی نہ کسی حق کے بارے میں کوتاہ واقع ہوا ہے۔ کوئی تلاوت میں کوتاہ ہے، کوئی فہم قرآن میں تو کوئی عمل قرآن میں کوتاہ واقع ہوا ہے۔

ترک تلاوت کی دو وجہ سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک ماحول کا فقدان، دوسری مکاتب کی کمی۔

 

قرآن کی نوعیت:

قرآن مجید خالق کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت، اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دل پاک صاف ہوتا تو دل قرآن سے نہ رکتا، بقول حضرت مولانا یوسف صاحب ٹنکاروی دامت فیوضہم: قرآن مضبوطی سے پکڑو یعنی پڑھو پھر قرآن تمہیں چھوڑے گا نہیں، تم قرآن کے بن جاؤ گے۔

شیخ عبد العزیزؒ کا فرمود ہے، جو شخص رمضان میں ایک مرتبہ قرآن مجید مکمل نہیں کرتا وہ سال بھر میں بھی مکمل نہ کر سکے گا۔

لھذا ماه مبارک میں ایک دور کو تو لازم سمجھو آج کے دور میں اللہ کے ایسے سعادت مند بندے بھی ہیں جو یومیہ ایک قرآن مکمل کرتے ہیں اور اللہ کے راستہ میں یومیہ پندرہ پارے پڑھنے والے سعادت مند بندے بھی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل ہوا پھر بھی آپ ﷺ کو تلاوت کا حکم ہے۔ ”اتل ما أوحی إلیک من الکتاب“

واللہ! تلاوت قرآن میں اللہ والوں کو وہ لطف اور لذت ملتی ہے، جو دنیا کی کسی چیز میں نہیں، یہی وجہ تھی کہ راویِ مسلم حضرت ابوبکر بن عیاشؒ نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا کہ اس حجرہ میں گناہ مت کرنا، میں نے اس حجرہ میں بارہ ہزار مرتبہ قرآن مجید ختم کیے ہیں، تیس سال سے یومیہ ایک قرآن مجید ختم کرنے کا معمول تھا ۔ (مسلم شریف مع شرح النووی، ص: ٦٠) یہ حضرت ابوبکر عیاشؒ امام شعبہ ہیں جو امام عاصم کوفیؒ کے راوی ہیں۔ امام عاصم کے دوسرے راوی حفصؒ ہیں۔

میری ایک حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی، ان کا یومیہ ایک قرآن مجید پڑھنے کا معمول تھا، اور دوران رمضان رات دن میں دو دور کرتے تھے، پوچھنے پر بتایا کہ اب تک 5677 دور ہوئے ہیں۔

کسی کا سالانہ بیس دور کا معمول ہو تب بھی پچاس سال میں ایک ہزار دور ہو سکتے ہیں، توفیق کی بات ہے لوٹنے کی جائے ہے، اللہ تعالیٰ سے تلاوت کی حلاوت مانگنے کی ضرورت ہے۔

اللهم ارزقنا حلاوة القرآن

 

تلاوت سے غفلت:

کئی گھروں میں مہینوں قرآن مجید نہیں کھلتا، آج لغویات، خرافات، انٹرنیٹ، فواحش کے لئے وقت مل جاتا ہے لیکن تلاوت کی فرصت نہیں، سچی جھوٹی خبروں کو پڑھنے کے لیے گھنٹہ بھر کا وقت نکل سکتا ہے، گناہ کی نحوست تلاوت کا شوق ختم کر دیتی ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ تلاوت کو اپنے یومیہ لابدی معمولات میں شامل کرے، جس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا جیسے سونا جاگنا، کھانا پینا ، ملازمت تجارت وغیرہ بلا تخلف ہو رہا ہے۔

امت تلاوت قرآن سے دور ہو رہی ہے، زیادہ بہتر تھا کہ دن کا آغاز تلاوت کے مبارک عمل سے ہوتا، اول تلاوت قرآن بعدہ دنیا کا نعرہ ہم لگائیں۔

 

مسجد کا ماحول:

ادبا عرض ہے کہ مساجد کے ائمہ حضرات اپنی اپنی مساجد میں تلاوت کا ماحول بنائیں، اسے تحریکی شکل دیں، ہر نماز سے پہلے اور بعد میں تلاوت کے لئے چند افراد کی فہمائش اور تلقین کریں، دس پندرہ منٹ ہی کیوں نہ ہو، جیسے درس قرآن کے لیے محنت درکار ہے، ویسے ہی تلاوت کا ماحول بنانے کے لیے بھی ترغیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔

حفاظ اور دیندار طبقہ اپنی تلاوت کے معمول کا ایک حصہ مسجد کے لیے خاص کریں تاکہ مسجد میں تلاوت کا ماحول بنے۔

 

تعلیمی حلقے:

رمضان تلاوت قرآن کو فروغ دینے کے لئے ہے، ماہ رمضان میں حفاظ کرام کم از کم اپنی مسجد کے ایسے پانچ مصلیان جو ناظرہ پڑھنا نہیں جانتے، ان کو ناظرہ سکھائیں اور پانچ افراد کا قرآن مجید صحیح کرا دیں تو بڑا کام ہو جائے گا۔

 

تعلیم بالغان:

بعض علاقوں میں مکتب کا منظم نظام نہیں ہے، کچھ حضرات معاش کے لئے شہروں کا رخ کرتے ہیں، وہاں تعلیم بالغان کے نظام کو جاری کرکے تلافی ہو سکتی ہے۔ جیسے سرکاری شبینہ تعلیم کا پروگرام ہوتا ہے، ان کا معقول وقت طے کرکے مسجد یا خارج مسجد میں کلاس شروع کی جائے، با قاعدہ تنخواہ دار معلم ہونا چاہیے، اتنا قرآن مجید سکھادے کہ نماز صحیح ہو جائے۔

 

مکتب کے بچوں کی تلاوت:

مکتب کے بچوں کو سبق اور Homework کے علاوہ نفس تلاوت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، سال بھر تلاوت کی پابندی پر انعام سے بھی نوازا جائے چاہے پاؤ پارہ ہی تلاوت کیوں نہ کی ہو۔

 

ویکیشن بینچ:

تعطیلات کے ذریعہ اس کی تلافی کی جا سکتی ہے، ویکیشن قرآن مجید صحیح کرنے اور نماز سیکھنے کا بہترین موقع ہے۔

 

دعوت و تبلیغ :

اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکلنے کا زمانہ قرآن مجید سیکھنے اور صحیح کرنے کا سنہرا وقت ہے، ہر اعتبار سے یہ بہت سازگار ماحول ہوتا ہے۔

 

مکتب کی اہمیت:

امت کی تلاوت کی دوری کی ایک وجہ قرآنی مکاتب کی تعلیم سےمحرومی بھی ہے، بعض افراد نے قرآن مجید پڑھنا سیکھا ہی نہیں ہے اس لئے قدرے گفتگو مکتب کی اہمیت پرمشتمل ہے۔

 

منظم مکاتب:

ہر مسجد اور عبادت خانہ میں مکتب کے نظام کو عام کیا جائے، مسجد کے اطراف میں کوئی مسلمان بچہ ناظرہ قرآن خوانی سے محروم نہ رہے، جامعات اپنی تحصیل و اطراف میں مکاتب کے وجود کو اپنے مقاصد و اہداف میں شامل کریں، امدادی و غیر امدادی دونوں قسم کے مکاتب قائم کیے جا سکتے ہیں، چاہے جامعہ اور دارالعلوم میں طلبہ کی تعداد کم ہو، مکاتب رسمی نہ ہوں بلکہ منظم و مستحکم (systemetic) ہوں، یعنی:

 

١. مدرس تدریب یافتہ (Trained) ہو، مدرس کا قرآن مجید صحیح ہو تاکہ طلبہ کا قرآن مجید صحیح ہو اور مقتدیوں کی نماز بھی صحیح ہو۔

٢. نصاب متعین اور مسلمان کی زندگی کی تمام ضروریات پر مشتمل ہو۔

٣. سال بھر میں کم از کم تین امتحان ہوں، امتحان میں اعلیٰ نمبرات و حسن کارکردگی پر انعام کے ذریعہ حوصلہ افزائی کی جائے۔

٤. اچھی کوالٹی کی درسی کتب اور قرآن مجید کے اجزاء کا انتظام ہو۔

٥. درسگاہ میں عملی مشق کے لیے بلیک بورڈ ہو، سلیقہ کی تپائی و چٹائی ہو۔

بچوں کے لئے معاون چارٹ وغیرہ لگائے جائیں۔

 

نصاب کم از کم پانچ ارکان پر قائم ہو:

١. ضروری عقائد و ایمانیات

٢. قرآن مجید کی با تجوید ایسی تعلیم ہو جس میں ابتداء ہی سے صحت کا التزام کیا جائے، ناظرہ میں روانی اور لہجہ بھی عمدہ ہو اور معروف و مجہول کا فرق بتایا جائے۔ خاصتہً قاعدہ و پارہ عم پڑھانے والے استاد صاحب مجود اور مشاق و تجربہ کار ہو۔

تعلیم کی تسہیل کے لئے نت نئے طریقے آرہے ہیں، بہہ سے بہتر کی تلاش رہے، آسان سے آسان تر کا شوق رہے۔

٣. اعمال یعنی نماز روزہ حج زکوٰۃ کے بنیادی فقہی مسائل سکھانے کا اہتمام ہو۔

٤. سیرت نبویہ و خلفاء راشدین و صحابہ کے واقعات پڑھا دیے جائیں یا یا کم از کم ۵ منٹ سنانے کا اہتمام ہو۔

مکاتب یہ ہیرے کا کاروبار ہے یہاں ایمان و توحید کے جام(Dose) پلائے جاتے ہیں، جسے مکتب کی تعلیم نہ ملی وہ حقیقتاً یتیم ہے۔ دور نبوی میں مکی زندگی کی مشکلات کے باوجود ”دارارقم“ کا نظام قائم تھا۔

مکتب میں قرآن مجید اور نماز سکھائی جاتی ہے۔ اور مسجد، گھر وغیرہ میں قرآن و نماز پڑھی جاتی ہے۔

٥. متفرقات و تربیتی امور کے ذیل میں حفظ سور، ثناء، التحیات درود شریف، دعاء ماثورہ، دعاءقنوت، جنازہ کی دعائیں اور رات دن کی مختلف دعائیں اور اسلامی معلومات سے آگاہ کیا جائے، مکاتب کے نصاب میں اپنے علاقہ کی ضرورت کے اعتبار سے کمی بیشی کی گنجائش ہے۔

ہر مسلمان اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق اس پروگرام کا آلہ و پرزہ بن جائے کم از کم ہر حافظ و عالم اپنے وطن کے مکتب کی فکر ضرور کرے۔

ہمارے ملک بھارت کی بیس پچیس کروڈ مسلم آبادی میں کم از کم ایک فیصد یعنی بیس لاکھ حافظ ضرور ہونے چاہیے، اس طرح مکاتب کے لیے بیس لاکھ افراد مل جائیں گے۔

 

اقلیتی ممالک میں:

بقول حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت فیوضہم اقلیتی ممالک کا سب سے اہم مسئلہ نئی نسل کے ایمان کی حفاظت ہے۔

بقول حضرت حاجی امداد الله صاحبؒ یہ مکاتب ملک بھارت میں ایمان و اسلام کی بقا کا اہم ذریعہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو قرآن مجید کے حقوق کو سمجھ کرعمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

وصلی اللہ علی النبی الکریم

Comments are closed.