Baseerat Online News Portal

حولانِ حول؛ یعنی زکات کے مال پہ سال کا گزرنا

 

مفتی توصیف احمد قاسمی

زکات کی فرضیت کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے، اور صاحب نصاب ہوتے ہی زکات فرض نہیں ہوتی بل کہ اس پہ سال گزرنا ضروری ہے، بعض دفعہ یہ شبہ ہوتا ہے کہ سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا ہر پیسہ جب تک ایک سال پرانا نہ ہو جائے زکات فرض نہ ہوگی، یعنی مختلف ذرائع آمدنی سے جو مال حاصل ہوتا ہے ان سب پہ جدا جدا سال کا گزرنا ضروری تصور کیا جاتا ہے، حالاں کہ بات یہ ہے کہ جب ایک شخص شریعت کی نظر میں مالدار (صاحب نصاب) طے پا گیا؛ تو وہ مال دار ہے، اور ہر سال اس کی مالداری کی anniversary پہ زکات فرض ہوجایا کرے گی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مثلاً: اگر کوئی ایک رجب کو شریعت کی جانب سے مقرر کردہ نصاب کا مالک بنا، تو اب آئندہ سال ایک رجب کو اس کی کل مالیت پہ زکات ہوگی، اس میں وہ مال بھی شامل ہوگا جو مثلا جمادی الاخری کے اخیر عشرے میں حاصل ہوا اور وہ بھی جو کم زیادہ ہوتا ہوا سال بھر اس کے پاس رہا ہے، مذکورہ صورت میں حولان حول کا عمل ایک رجب سے شروع ہو کر آئندہ سال ایک رجب کو تمام ہوگا، اگر کوئی ان دونوں دن (سال گزشتہ کا یکم رجب اور امسال کا یکم رجب) نصاب کی مقدار کا مالک ہے تو اس پہ زکات فرض ہوگی، چاہے درمیان سال میں مال/پیسہ کم زیادہ ہوتا رہا ہو، اسی طرح اس سال کے یکم رجب کو اس کی جتنی مالیت ہے، اس پوری مالیت کی زکات ادا کرنی ہوگی۔

لہذا وہ لوگ جو رمضان میں زکات دیتے ہیں، اول تو اس بات پہ غور کریں کہ وہ صاحب نصاب کب بنے تھے، ان کا سال کب شروع ہوا تھا، پھر اسی حساب سے ان کے سال کے اختتام کا اعتبار ہوگا، اور جب یہ طے ہو جائے کہ مثلا اسلامی سال کے فلاں مہینے اور فلاں تاریخ میں صاحب نصاب ہوئے تو سال گزرنے پہ اس مہینے اور اس تاریخ میں ان کے پاس کتنا مال تھا اس کا حساب لگائیں، پھر چاہیں تو رمضان میں زکات ادا کریں یا کسی اور مہینے میں؛ لیکن اپنا fiscal year نہ بھولیں، اور حساب اسی سال کے اختتام سے رکھیں، ذیل میں اس مضمون کو واضح کرنے کے لیے دو سوال اور جواب ذکر کیے جاتے ہیں:

سوال-1: زید کے پاس پہلی بار 45 ہزار روپیے 5 رجب کو آئے، لیکن سال بھر وہ پیسہ کم زیادہ ہوتا رہا، کبھی خرچ ہوئے کبھی saving ہوئی، لیکن 3 رجب کو 40 ہزار روپیے اور حاصل ہوئے اور اس کی سال بھر savings میں سے 80 ہزار روپیے بچے، اب جب 5 رجب کو سال پورا ہوااور حساب لگایا تو اس کے پاس کل 120,000 ایک لاکھ بیس ہزار روپیے موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ 80 ہزار پہ زکات فرض ہوگی، یا ان چالیس ہزار پہ بھی جو دو دن پہلے ہی موصول ہوئے ہیں؟

جواب: مذکورہ صورت میں کل مالیت (جو کہ 120,000 ایک لاکھ بیس ہزار ذکر کی گئی ہے) پر زکات فرض ہوگی۔

سوال-2: زید کا مالی سال 5 رجب کو ختم ہوتا ہے، اس دن وہ 80 ہزار کا مالک تھا، لیکن دو دن بعد ہی، یعنی 7 رجب کو 40 ہزار روپیے اور حاصل ہوگئے، وہ رمضان المبارک میں زکات دینا چاہتا ہے، ایسے میں اس کے ذمے 80 ہزار کی زکات ہوگی یا پورے ایک لاکھ بیس ہزار کی؟

جواب: اعتبار سال کے اختتام کا ہوتا ہے، زید کا مالی سال چوں کہ 5 رجب کو ختم ہوا،اس دن وہ 80 ہزار کا مالک تھا اس لیے زکات صرف 80 ہزار کی دینی ہوگی، 7 رجب کو جو پیسہ وصول ہوا وہ آئندہ سال میں شمار ہوگا، آئندہ سال پانچ رجب کو جتنی مالیت کا مالک ہوگا اس کا حساب آئندہ سال کر کے زکات ادا کرنی ہوگی۔

نوٹ: ضم اموال مستفادہ سے متعلق جو تفصیل ذکر کی گئی ہے ظاہر ہے وہ ہم جنس اموال کے بارے میں ہے؛ ورنہ تو زکات کی ہرجنس جس پہ حولان حول شرط ہے مستقل حساب چاہتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا Fiscal Year تبدیل ہو سکتا ہے؟ مثلا گزشتہ سال رجب سے رجب رہا، کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ سالوں میں شعبان یا رمضان سے ابتدا ہو اور اسی پرانتہا ہو؟

جواب: ایک سال مکمل ہونے کے بعد آئندہ سال کا اسی دن سے شروع ہونا اس پر موقوف ہے کہ وہ ان دنوں مسلسل نصاب کا مالک رہے؛ لہذا اگر گزشتہ حولان حول، 5 رجب کو مکمل ہوا، اس نے زکات ادا کی اور شام ہی اتنا مال خرچ کر دیا کہ اب وہ صاحب نصاب نہیں رہا؛ یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ آگیا، اور رمضان کی کسی تاریخ میں وہ نصاب کا مالک ہوگیا، تو اب اس کا آئندہ مالی سال رجب کےبجائے رمضان سے شروع ہوگا۔

والله تعالىٰ أعلم وبہ التوفيق

Comments are closed.