Baseerat Online News Portal

مدارس کے لاکھوں طلبہ اور اساتذہ کے مستقبل پر لٹک رہی خطرے کی تلوار ٹل گئی

جاویدجمال الدین
ہندوستانی سپریم کورٹ کے ذریعہ اترپردیش مدرسہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے روک لگائے جانے کے نتیجے میں مدارس کے لاکھوں طلبہ اور اساتذہ کے مستقبل پر لٹک رہی خطرے کی تلوار فی الحال ٹل گئی ہے،لیکن مستقبل میں مدارس کے خلاف اشتعال انگیزی اور زہر اگلنے والے خاموش بیٹھیں گے ،ایسا نہیں لگتاہے،بلکہ زیادہ موثر انداز میں آئندہ سماعت میں اپنا موقف پیش کرنے کی تیاری کرلیں گے۔
مگر سچائی یہ ہے کہ مذکورہ اسٹے کی وجہ سے مدرسوں خصوصی طور پر اتر پردیش کےمدرسوں میں ،عید جیسی خوشی کا ماحول نظرآرہاہے اوراسے معاملے میں پہلی جیت قرار دیاجارہاہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اترپردیش مدرسہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پرعبوری روک عائد کرتے ہوئے فیصلے میں بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی دلائل خارج کر دیئے۔اس کے ساتھ ہی اس معاملہ میں مرکزی حکومت، یوپی حکومت اور یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کو نوٹس بھی جاری کردیا۔ عدالت نے اترپردیش اور مرکزی حکومتوں کو ۳۱؍مئی تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔اس عدالتی فیصلے سے ریاست کے مدارس کے لاکھوں طلبہ اور اساتذہ کے مستقبل پر لٹک رہی خطرے کی تلوار فی الحال ٹل گئی اور انہیں بڑی راحت ملی ہے۔تاہم ،سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اترپردیش اور مرکزی حکومتوں کی مدارس کے تعلق سے بدنیتی بھی پوری طرح اجاگر ہوگئی، جنہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کی۔ویسے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ،جسٹس جے پی پاردی والا اورمنوج مشراکی بنچ نےالٰہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگاتے ہوئے بڑے اچھے انداز میں اپنے مشاہدہ میں کہا کہ ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کی دفعات کو سمجھنےمیں بادی النظر میں غلطی کی۔اس فیصلے سے مدارس میں پڑھنے والے ۱۷؍ لاکھ طلبہ کا تعلیمی مستقبل متاثر ہوگا۔بنچ نے ہائی کورٹ کی اس دلیل کو بھی خارج کردیا کہ اس کے ذریعہ مذہبی تعلیم کیلئے ہدایات فراہم کی جاتی ہیں۔بنچ نے وضاحت کی کہ مدرسہ ایکٹ کا مقصد اور کردار ریگولیٹری نوعیت کا ہے۔ہائی کورٹ کے ذریعہ مدرسہ بورڈ کے قیام کو سیکولرزم کی خلاف ورزی قراد ئیے جانے کے دلیل کوبھی خارج کرتےہوئے۔ کہاگیا کہ ایسا لگتا ہے کہ مدرسہ کی تعلیم کو بورڈ کے ریگولیٹری اختیارات سے مخلوط کرنے کی کوشش کی گئی۔
ویسے سپریم کورٹ کایہ کہناسچ ہے کہ اگر مقصد مدارس کے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو اس کا حل مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنے میں نہیں بلکہ اس کیلئے مناسب ہدایات جاری کرنے میں ہےتاکہ طلبہ معیاری تعلیم سے محروم نہ ہوں۔جمعۃ الوداع کے موقعہ پرآئے مذکورہ فیصلہ پر اترپردیش میں مدرسوں سے وابستہ لاکھوں افرادکے لئے ’عید‘ کے دن کی طرح خوشیوں بھرا ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ سے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگنے کی خوشی میں سبھی نے ایک دوسرے کو مبارکبادپیش کی،لیکن انہیں پتہ ہونا چاہئیے کہ یہ ایک عارضی خوشی ہے۔
اس معاملہ میں اب ضروری ہوگیا ہے کہ مدارس کے ذمہ داران کو خود احتسابی کے ساتھ اپنی خامیوں کو دور کرنے اور عہد حاضر کے تقاضوں کے تحت عمل کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئیے ۔اس کا اثر بھی ذمہ داران پر نظر آتا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے پر مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نےکہا کہ رمضان المبارک کے الوداع کے دن سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش کے مدارس رمضان کے بعد کھلیں گے اورایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر کی لائن پر کام کریں گے۔آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کےجنرل سیکریٹری وحیداللہ خاں سعیدی نے بھی یہی خیال ظاہر کیاہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلےکا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے اتر پردیش کے ۱۶۵۱۳؍ منظور شدہ اور۵۶۰؍امداد یافتہ مدارس کے مدرسین و ملازمین و منتظمین نے راحت کی سانس لی ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اتر پردیش کے مدارس کے لئے ایک تاریخ رقم کرے گا اور آئے دن مدرسوں کے خلاف کی جارہی سازشوں کو بھی بے نقاب کرے گا۔ وحیداللہ خاں سعیدی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں مشورہ ہے کہ اہم ترین فیصلہ کے بعد پیدا صورتحال پر غوروخوض کیاجائے اور اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کےراستے میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور انگریزی ،سائنس ، ریاضی و دیگرجدید مضامین کو اختیاری مضمون کی بجائے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسےلازمی مضامین بنایا جانا ضروری ہے۔
اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی کایہ کہنا درست ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے اور مدارس سے وابستہ افرادمیں خوشی کی لہرپائی جارہی ہے جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے لاکھوں طلبا اور ہزراوں اساتذہ کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگ گیا تھا۔دریں اثنا، مدارس سے وابستہ دانشوروں کا ایک طبقہ مذکورہ معاملے سے سبق لیتے ہوئےخوداحتسابی اور اصلاح پرزوردےرہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں طلبہ کی تعداد بڑھانے پر زور دیا جائے۔ مدرسہ سے متعلق تمام دستاویزات کو ترتیب دیں اور انہیں درست کر لیں، دستاویزات کے حوالے سے کوئی لاپروائی نہیں ہونی چاہیے۔پہلے کافی بھگتنا پڑرہاہے۔
واضح رہے کہ ا لٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ یوپی بورڈآف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کو غیر آئینی قرار دے کرکالعدم قرار دینےکے فیصلہ کے خلاف منیجر اسوسی ایشن مدارس عربیہ یوپی ،انجم قادری اور دیگر عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے دلیل دی تھی کہ ہائی کورٹ نے صوابدیدی حکم نامہ پاس کرتے ہوئے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ۔منیجر اسوسی ایشن مدارس عربیہ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے پرزور دلائل دئیے اور مدارس کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔انہوں نے ہائی کورٹ کے اس نتیجہ کو پوری طرح مسترد کردیا کہ مدارس میں ریاضی ،سائنس ، ہندی اور انگریزی کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ۱۹۰۸ء سے ہی مدرسہ بورڈ کہ ان کے والد نے بھی ایک گروکل میں تعلیم حاصل کی۔سپریم کورٹ میں اترپردیش اور مرکزی حکومتوں نے اپنی بدنیتی اجاگر کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے پر زور دیا۔مرکزی حکومت نے بھی الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مدارس مفلوج نہیں ہوں گے بلکہ ریاست ان مدارس کو امداد نہیں دے گی۔اس معاملہ میں عرضی گزاروں کی طرف سے کئی سینئر وکلاء پیش ہوئے۔مکل روہتگی نے دلیل دی کہ مدارس کو حکومت سے پوری امدا د نہیں ملتی۔کئی مدارس کو مکمل امداد ملتی ہے اور کئی کو جزوی مدد ملتی ہے اور بڑی تعداد میں مدارس نجی ہیں۔ یہ سبھی مدارس ۲۰۰۴ء کے ایکٹ کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم ملک میں قومی انتخابات شروع ہونے سے کچھ دن پہلے سامنے آیا ہے جن میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری مدت کے لیے انتخابات میں اب کی بار چارسوسے پار کے نعرے لگاتے ہوئے کود گئے ۔
عدالت عظمیٰ، الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے اس حکم کو کئے گئے چیلنج کا جواب دے رہی تھی جس نے ریاست اتر پردیش میں، جہاں کل آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان ہے، مدارس کہلائے جانے والے اسکولوں کو چلانے والے 2004 کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ قانون آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہے، یہ ہدایت بھی دی تھی ان اداروں کے طلباء کو روایتی اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔اس مقدمہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا، "ہمارا خیال ہے کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل تفصیلی طور پر غور طلب ہیں،”اب اس معاملے کی سماعت جولائی میں ہو گی، اور اس وقت تک سب کچھ معطل رہے گا۔
ملک میں انتخابات کا عمل جون میں مکمل ہو گا۔برسراقتدار پارٹی اس فیصلہ کوآپ ے حق میں بھناناچاہتی تھی،لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ نے کیے جائے پرانی پھیردیاہے۔
آلہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے تقریباً 16 لاکھ طلباء کے مستقبل کے بارے میں فکر مندی پیدا ہوگئی تھی۔ اور اب یہ حکم سب کے لیے انتہائی سکون لے کر آیا ہے۔وزیراعظم نریندرمودی کے دس سال کے دور اقتدار میں، ان کی سیاسی جماعت بی جے پی اور اس سے وابستہ اور ہمنوا تنظیموں کے ارکان پر بار بار اسلام مخالف نفرت انگیز تقریر کے الزامات لگائے گئے ہیں۔تاہم مودی ہمیشہ اس بات کی تردید کرتے رہےہیں کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک موجود ہے، جو ان کے بقول سب کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔ مسلم ماہرین تعلیم نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے تحت ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست میں ہزاروں دینی مدارس کو مؤثر طریقے سے بند کر دیا جائے گا۔حکمراں بی جے پی کے تنگ نظر اور فرقہ پرست رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مسلم کمیونٹی کے طلباء کو مرکزی دھارے کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا اور مسلم معاشرے کو فائدہ پہنچے گا،لیکن مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں برسوں کی ان اصلاحات کو نظر انداز کیا گیا ہے جنہوں نے مدارس کو جدید بنا دیا ہے اور ان میں قومی سطح پر منظور شدہ نصاب متعارف کرایاگیا ہے، جن میں فزکس، کیمسٹری، ریاضی، کمپیوٹر پروگرامنگ اور سوشل سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔ یہ عدالتی حکم آئین ہندکے آرٹیکل 29 اور 30 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔اگر چند سال کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوگاکہ "مسلمانوں نے جدید مدارس کا دل و جان سے خیرمقدم کیاہے ، اور مسلم اداروں اور تنظیموں نےان مدارس سے تعلیم یافتہ طلباء کو سرکاری ملازم، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے جدید شعبوں کے ماہر بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے باوجود حکام نےمسلمانوں کی خواہشات اور مفادات کے خلاف تمام مدارس کو بند کر نے کی ٹھان لی ہے۔
عدالتی حکم سے بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کے تسلیم شدہ لگ بھگ 16,500 مدارس، ان کے ایک کروڑ 95 لاکھ طلبا اور ایک لاکھ اساتذہ متاثر ہوتے تھے۔حیرت انگیز طورپران مدارس میں متعدد غیر مسلم طالب علم بھی شامل ہیں جن میں سے بیشتر ہندو ہیں۔اس فیصلے کا اثر آخر کار یوپی کے تمام 25,000 تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ مدارس پر پڑسکتاتھا، جہاں 27 لاکھ طلباء کو ایک لاکھ 40 ہزار اساتذہ پڑھاتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تسلیم شدہ مدارس میں جدید تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور ان میں 2018 سےکونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ، یا این سی ای آر ٹی کا ہدایت کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
این سی ای آرٹی،وفاقی حکومت کا قائم کردہ ایک ادارہ ہے جو ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نصاب وضع کرتا ہے اور اس کی نگرانی کرتا ہے۔سوت سچائی یہ ہے کہ یہ تمام جدید مدارس ہیں اور مدارس 2009 سے کوالٹی ایجو کیشن فراہم کرنے سے متعلق وفاقی طورپر متعارف کرائی گئی،ایس پی کیو ای ایم اسکیم کے تحت اصلاحات کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ابتدائی طور پر 25,000 سے زیادہ اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے تھے۔ حکومت نے مسلم فرقےکی تعلیمی ترقی کے لیے، جدید مدارس متعارف کرائے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ "ایس پی کیو ای ایم اسکیم بہت کامیاب رہی اور ان مدارس میں مسلمان بچوں کے داخلے میں اضافہ ہواہے۔
ایک غیر مسلم معلم نے کہا کہ”مسلمان والدین روایتی طور پر جدید مدارس کو دیگر اسکولوں پر ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کے بچے باقاعدہ مضامین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کر سکیں ۔اگر مدرسے بند کر دیے گئے تو مسلمان طالب علموں کی اسکول چھوڑنے کی شرح میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔ حکام مدارس کو اس کے باوجود بند کر رہے ہیں کہ وہ اتنے ہی اچھے ہیں جتنے کہ باقاعدہ سکول- اس سے ہم ناانصافی کا شکار ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے مدارس کے تعلق سے اسٹے سے عارضی راحت ملی ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان طویل عرصے سے امتیازی سلوک کی شکایت کر رہے ہیں اور مسلم مخالف جذبات میں 2014 کے بعد سے اضافہ ہوا ہے جب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ نے ہندو قوم پرست ایجنڈے کے ساتھ بر سر اقتدار آئی۔حالانکہ پارٹی کے لیڈران اس الزام کو کہ پارٹی مسلم مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، بے بنیاد قرار دیتے ہیں ،لیکن یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ورنہ لاکھوں طلباء اور سینکڑوں اساتذہ کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیاجاتا۔جس سے "سب کاساتھ سب کا وکاس”جیسا نعرہ کھوکھلا نظرآتاہے۔

Comments are closed.