Baseerat Online News Portal

اسلامی نظام وقت کی اہم ضرورت

حاجی محمد لطیف کھوکھر
اسلامی نظام کا قیام وقت کی ایک اہم ترین ضرورت بھی ہے اور مسلمانوں کا فریضہ بھی۔ اسلامی نظام کا قیام دور حاضر میں انسانیت کو در پیش جملہ مسائل و مشکلات کے حل کا ضامن اور تحریک اسلامی کا نصب العین ہے۔ اسلامی نظام ہی دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا واحد راستہ اور ذریعہ ہے۔بلاشبہ ٓآج دنیا فکری اورمعاشرتی بحران کا شکار ہے۔ اس کے نظاموں اور حالات میں انتشار برپا ہے۔ نظام حکومت ہو یا نظام حیات، سب قلق و اضطراب سے دوچار ہیں اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجودہ حالات سے ناراض لوگوں کو ان سیاسی اور معاشرتی نظاموں کو تباہ و برباد کرنے کا سنہری موقع حاصل ہے۔ اس لئے کہ ان نظاموں کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور وہ فنا کے قریب ہیں، یہاں تک کہ ان ملکوں میں بھی جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کے نظام مستحکم ہیں اور انھیں اتنی مادی قوت حاصل ہے کہ وہ ان نظاموں کا دفاع کر سکتے ہیں۔لیکن نظاموں کا دفاع توپ، ٹینک، ایٹم بم، فوج اور پولیس کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ وہ اس لئے زندہ رہتے ہیں کہ معاشرتی زندگی کی فطری ضرورت اور انسانی ضمیر کی شعوری ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں لیکن جب یہ دونوں بنیادیں مفقود ہوں تو لوہے اور آگ کی طاقت کو کبھی دوام نہیں مل سکتا۔ یہ حقیقت زندگی کی تمام عبرتوں سے عیاں ہے اور پوری تاریخ میں کبھی جھٹلائی نہیں جاسکی ہے۔اس لئے ہم جب اسلامی زندگی کے آغاز اور اسلامی معاشرے کے قیام کی طرف دعوت دیتے ہیں تو در اصل تباہ کن معاشرتی جھٹکوں سے بچنا اور اپنی زندگی کو سخت زمین میں گہری بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ عقیدہ اور فکر کی ایسی بنیادوں پر جو متزلزل نہ ہوسکیں۔ ساتھ ہی ہم اپنے لئے اور ان تمام لوگوں کیلئے جو ہمارا طریقہ اختیار کریں مثالی انسانی معاشرہ میںمثالی زندگی چاہتے ہیں۔اسلام کا نظام معاشرت آج دنیا میں وہ واحد نظام ہے جو صحیح معنی میں ’’بین الاقوامیت‘‘ کی فکر پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ وہ واحد نظام ہے جو اجازت دیتا ہے کہ اس کے زیر سایہ تمام قومیتیں ، تمام زبانیں اور تمام عقائد امن کے ساتھ رہ سکیں۔ وہ ان سب کے درمیان مطلق عدل قائم کرتا ہے۔البتہ اسلامی نظام کسی مخصوص ڈھانچے اور کسی جامدشکل و صورت کا نام نہیں ہے، جسے لاکر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے ،اور ہر زمانے اور ہر جگہ پر اٹھا کر فٹ کردیا جائے ، اس کے برعکس اسلامی نظام ایک لچکدار اور فطری نظام ہے، جوانسانی سماج کی ترقی اور بہتری کے لیے کچھ بنیادیں فراہم کرتا ہے، ان ہی بنیادوں پر غور و فکر کرکے ہر زمانے اور ہرجگہ کے موافق ایک خوبصورت ، قابل عمل اور بے مثال نظام وجود میں آئے گا۔ گویا جمود و تعطل کے بجائے ایک زندہ ،متحرک ،فطری اور دلائل پر مبنی اسلامی نظام کے ہم علمبردار ہیں۔ ہمارے پاس بہت ہی منتخب اور نتیجہ خیز خام مال موجود ہے، اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ زمانے اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو عملی شکل دیں ، اور اس سے رہنمائی حاصل کریں۔مارکسزم کا دعویٰ ہے کہ ایک عالمی نظام کا قیام اس کا نصب العین ہے، لیکن کیا کوئی عالمی نظام بغیر آزادی عقیدہ کے قائم ہوسکتا ہے؟ ہم ایک ایسے نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کے زیر سایہ تمام مذہبی عقائد آزادی اور مساوات کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں، جس میں حکومت اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ تمام لوگوں کیلئے آزادی عقیدہ اور آزادی عبادت کا اثبات کریں جن میں غیر مسلموں کواپنے پرسنل لا کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہو اور تمام شہریوں کو بغیر کسی فرق و امتیاز کے مساوی حقوق حاصل ہوں اور ان پر مساوی ذمہ داریاں بھی ہوں اور یہ تمام باتیں ضمیر میں پوشیدہ عقیدہ پر مبنی ہوں نہ کہ محض قوانین و ضوابط پر جو صاف ستھرے نفاذ کیلئے کافی نہیں۔ہم ایک ایسے نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کے زیر سایہ دنیا کی تمام قومیتیں اور نسلیں آزادی اور مساوات کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہیں۔ اس کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ کالے ہو یا گورے، سرخ ہوں یا زرد، کسی بھی نسل کے ہوں، بھی رنگ کے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔ اس لئے کہ سب انسانی رشتہ کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ان میں کوئی نسلی امتیاز ہے نہ کسی کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ہم ایک ایسے نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں جس میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔کسی انسان، کسی طبقہ یا کسی جماعت کی نہیں۔ اس طرح حقیقی مساوات روبہ عمل ا?تی ہے۔ اس میں کسی حکمراں کو عام شہری سے بڑھ کر حقوق حاصل نہیں۔ اس میں کوئی شخصیت قانون سے بالا تر نہیں۔ اس میں عوام اور خواص یا وزراء اور غیر وزراء کیلئے الگ الگ عدالتیں نہیں ہوتیں۔ اس میں حکمران اعلیٰ عدالت میں ایک عام شہری کے برابر کھڑا ہوتا ہے۔ دونوں میں کوئی تمیز نہیں برتی جاتی۔ کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا۔ہم ایک ایسے نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں جس میں عام شہریوں کو عام دولت میں مشترکہ حق حاصل ہے۔ اس لئے کہ اس میں ملکیت اصلاً جماعت کی ہے جو اللہ کی نائب ہے۔ انفرادی ملکیت عارضی ہے اور صرف منافع حاصل کرنے کی حد تک ہے، چنانچہ جب جماعت کو زائد مال کی ضرورت ہو تو افراد کی ضرورت سے زائد مال اس کا ہوجاتا ہے۔ہم ایک ایسے نظام کی طرف دعوت دیتے ہیں جو وسیع معانی میں اجتماعی باہمی کفالت پر مبنی ہے۔ اس میں جب تک دوسرے شخص کے پاس اس کی ضرورت سے زائد مال ہے کوئی شخص بھوکا پیاسا نہیں رہ سکتا۔ یہی نہیں بلکہ اس میں کفالت باہمی کا دائرہ اس سے وسیع ہے۔ اس میں جماعت ہر فرد کے بارے میں جواب دہ ہے کہ اسے کام کیلئے تیار کرے، اس کیلئے کام فراہم کرے اور کام کے دوران اس کی دیکھ بھال رکھے… پھر جب وہ ضرورت مند ہو یا بے کار ہو یا کسی وجہ سے کام سے معذور ہو تو اس کی کفالت کرے۔ اس کفالت میں عقیدہ نسل یا گروہ کا کوئی امتیاز نہیں۔جس کے بین الاقوامی تعلقات ان تمام لوگوں کے ساتھ صلح اور دوستی پر قائم ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ جنگ نہیں کرتے، زمین میں فتنہ و فساد نہیں برپا کرتے اور انسانوں پر ظلم نہیں کرتے۔ وہ صرف سرکش، فسادی اور ظالم لوگوں ہی کے خلاف جنگ برپا کرتا ہے۔ کسی خطہ زمین میں اس نظام کا قیام پوری انسانیت کیلئے انحطاط و زوال، ہلاکت اور تخریب سے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے۔ اس لئے کہ تاریکیوں اور بگولوں کے درمیان اس کی حیثیت ایک مینارہ نور کی ہے جس کے ذریعے انسانیت کو ہدایت مل سکتی ہے اور وہ امن و سلامتی کے ساحل سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔انسانیت آج ایک دو راہے پر کھڑی ہے۔ افکار میں اضطراب، رجحانات میں پراگندگی اور نظاموں میں انتشار برپا ہے۔ پھر اگر ایک ایسا اخلاقی نظام برپا ہوجائے جو عدل و انصاف، اطمینان و سکون اور آزادی و مساوات کا ضامن ہو تو انسانیت یا کسی گروہ کو اس سے کیا پریشانی لاحق ہے؟آج انسانی معاشروں کیلئے عقیدہ ناگزیر ہے۔ مغربی معاشروں میں عقیدہ کا خلا انسانیت کو مادیت کے گڑھے کی طرف کشاں کشاں لئے جارہا ہے۔ یہ مغربی معاشرے اس حادثہ کو پیش آنے سے نہیں روک سکتے۔ ا س لئے کہ وہ کسی عقیدہ کا مقابلہ کرنے کیلئے صرف ایک طاقت کا سہارا لیتے ہیں؛ البتہ ہم خود کو اس حادثے سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں وہ موقع حاصل ہے جس سے اہل مغرب محروم ہیں۔ ہم اپنے معاشرتی نظام کو ایک طاقت ور، ہمہ گیر اور مکمل عقیدہ پر قائم کرسکتے ہیں۔ اس لئے اہل مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانا نادانی ہوگی۔ اس لئے کہ انھیں ہر قسم کی مادی قوتیں حاصل ہیں جبکہ ہم اس سلسلے میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی کیا صورت حال ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نوجوان کالج یا کیمپس میں تعلیم حاصل کر رہاہے تو اس کا واسطہ صرف تعلیم سے ہوتا ہے یا پھر کوئی نوجوان کسی دفتر میں ملازمت کر رہاہے تو اس کا واسطہ محض اپنی ذاتی زندگی سے ہے، پھر کئی نوجوان ایسے ہیں جو صرف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ انہیں کسی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ اپنے معاشرے کے مسائل سے بالکل ناآشنا ہیں، انہیں یہ نہیں معلوم کہ ملک میں کیا چل رہاہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ قوم کے حالات کیسے ہیں۔دوسری جانب پا کستان کے مسائل نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئے ہیں۔ ان مسائل کے انبار میں آئے دن ہونے والے ہر طرح کی زیادتی کے واقعات ہر حساس دل کے لیے تازیانہ بنتے جارہے ہیں۔ہم سب ٹیلی وڑن چینلز پر اور اخبارات میں روز ہی ایسے روح فرسا اور دل خراش واقعات دیکھ اور پڑھ رہے ہیں اور خود کو بے دست و پا پاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم ایسے واقعات کے تدارک کے لیے سوچ ہی نہیں رہے تو ان کے سدباب کا ذکر ہی کیا؟جبکہ اسلام نے تربیت کو سب سے اہم قرار دیا ہے۔ افراد کی ذہنی اور روحانی تربیت کی ذمے داری والدین، مساجد کے آئمہ اور اساتذہ کرام پر عائد ہوتی ہے۔ اسلام میں معاشرے اور افراد کی تر بیت کے یہ تین اہم ستون ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہ ادارے اپنے فرائض اور اپنا کردار ادا کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم روز بروز تنزل کا شکار ہیں اور ہمیں اس اندوہ ناک صورت حال سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ معاشرتی تربیت میں خاندانی ماحول براہ ِراست کردار ادا کرتا ہے۔عاشرے میں طبقاتی تعلیمی دوڑ نے بھی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم اپنی استطاعت سے زیادہ اخراجات تعلیمی مصارف پر خرچ کر رہے ہیں اور بچوں کو ان تعلیمی اداروں کے سْپرد کر کے خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، جہاں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں۔ شاذ و نادر ہی کبھی والدین اسکول جاتے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ تربیت کے باب میں ہم سب بے اعتنائی برت رہے ہیں۔ بد قسمتی سے آج کے اساتذہ بھی تعلیم کو عبادت نہیں کاروبار سمجھتے ہیں۔اْنہیں صرف اس بات سے سروکار ہوتا ہے کہ طالب علم اپنے نصاب کو رَٹ لیں اور کسی نہ کسی طریقے سے اچھی پوزیشن لے آئیں۔ تعلیم دینا کار پیغمبری ہے لیکن اب یہ منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہم تعلیم اس لیے حاصل نہیں کر رہے کہ ہم میں شعور بیدار ہو، ہم اچھے انسان، اچھے مسلمان بنیں اور ہماری دانش کو مہمیز فراہم ہو بلکہ اب تعلیم اس لیے حاصل کر رہے ہیں کہ ہمیں اچھی ملازمت ملے اور ہماری زندگی عیش و عشرت سے گزرے۔ اگر ہم تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی نظر رکھتے اور تربیت ہماری اولین ترجیح ہوتی تو ہم اس حال کو نہ پہنچتے۔

Comments are closed.