Baseerat Online News Portal

اِس انتخاب میں کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کی فیصلہ کُن محاذ آرائی پر سوالیہ نشان

بھارتیہ جنتا پارٹی نے جس تنظیمی مہارت کے ساتھ انتخابی زور آزمائی شروع کی ہے، اُس کے مقابلے سیکولر جماعتوں میں ایک بکھراؤ کا عالَم ہے جس سے یہ اندیشہ ہو رہا ہے کہ ۲۰۱۹ء کو پھر دوہرا نہ دیا جائے۔

 

عرض داشت:صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

پارلیمانی انتخاب کا سلسلہ اب بس شروع ہونے والا ہے اور دیکھتے دیکھتے الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں ہماری آرا محفوظ ہوتی جائیں گی اور آیندہ دو مہینوں میں پھر سے ایک نئی سر کار مرکزی حکومت قائم کر لے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کیا نریندر مودی کو تیسری بار میدان میں اتارے گی یا بکھری ہوئی جماعتوں کو عوام معقول ووٹ دے کر پارلیمنٹ بھیج دے اور پھر ایک نیا چہرہ اقتدار کے حلقے میں ابھر کرسامنے آ جائے۔ پیشین گوئی ناممکن ہے مگر آج کی تاریخ تک جو آثار نظر آ رہے ہیں، اُس میں بھارتیہ جنتا پارٹی آگے بڑھی ہوئی اور سیکولر جماعتوں کی تعداد پچھڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اِس انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی گذشتہ انتخابات سے زیادہ منظم طریقے سے میدان میں نظر آ رہی ہے۔ اپنے زیادہ سے زیادہ امید واروں کے ناموں کے اعلانات اُس نے کم وبیش دو ماہ پہلے کر دیے تھے تاکہ وہ امید وار اپنے حلقۂ انتخاب میں جا کر عوام سے ووٹ طلب کر سکیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حلیف جماعتوں سے بھی وقت رہتے ہوئے سمجھوتے کیے اور نوّے فیصد سے زیادہ حلقے کے لیے امید واروں کے ناموں کے اعلانات ہو چکے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں کانگریس کا حال یہ ہے کہ ابھی تک اُس نے بڑی تعداد میں اپنے امید واروں کے نام طَے نہیں کیے۔ کانگریس کی حلیف جماعتوں میں بھی کم وبیش یہی صورتِ حال ہے۔ راشٹریہ جنتا دَل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی سے مل جل کر ’انڈیا‘ محاذ کی بہت ساری سیٹوں پر اب تک امید وار منتخب نہیں کیے جاسکے ہیں۔ انتخابی سیاست کے ماہرین اِس بات سے واقف ہیں کہ انتخاب کی تشہیر میں ایک ایک دن کی دیری ہزاروں ووٹ کے نقصان کا باعث ہے مگر اقتدار سے دُور رہنے کے باوجود اِس حلقے میں ایک دوسرے پر اعتماد اور ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا شوق دکھائی نہیںدیتا۔ اِس کا نتیجہ واضح ہے کہ انتخاب میں اِس کاہلی کے لیے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اِس بار اپنی تمام تنظیمی نا کردگیوں کے باوجود کانگریس نے اپنا بہترین انتخابی منشور جاری کیا۔ دوسری بڑی پارٹیوں کو اُس طرح سے یاد بھی نہیں ہے کہ عوام کے بیچ جانے سے پہلے ہم ملک کی تعمیر و ترقی کے اپنے نظریات تو لوگوں کے سامنے پیش کر دیں۔ کانگریس اپنے منشور کو ’نیائے پتر‘ کہا ہے۔ غور کریں تو راہل گاندھی اور کانگریس کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر صاحبِ اقتدار جماعت سے اِسی انصاف کی طلب کرتے رہے۔ اُن کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت نے عوام کے حق کو غصب کر رکھا ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ کانگریس نے خواتین غریب عوام اور بے روز گاروں کے لیے بہت سارے لبھاونے وعدے کیے ہیں۔ بزرگ، عوام، مزدور اور کسانوں کے لیے بھی معقول باتیںپیش کی گئی ہیں۔ نریندر مودی نے کورونا کے دَور میں کچھ غربا کے لیے نقد رقم کا انتظام کیا تھا، کانگریس اِسے باضابطہ طریقے سے ہر محروم طبقے کو مالی معاونت دے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے افرادکے درمیان اِس انتخابی منشور کے بارے میںسخت تنقیدی رویّہ اپنایا گیا ہے۔ اُن کا پہلا طنز تو یہی ہے کہ کانگریس کو اقتدار کہاں مل رہی ہے کہ وہ اِس وعدوں کو وفا کرے گی۔ ایسے میں اِس منشور کا لبھاونا پَن اُسی وقت قابلِ توجہ ہوگا جب کانگریس کو اقتدار ملے یا جن صوبوں میں اُن کی حکومت ہے، اُن تمام جگہوں پر اُس کا نفاذممکن ہو سکے۔ اِس پارلیمانی انتخاب میںصاحبِ اقتدار جماعت کا امتحان تو ہے ہی اِسی کے ساتھ حذبِ اختلاف کے بکھرے ہوئے قبیلے کا بھی امتحان ہے کہ اوّلاً وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے کس حد تک دُور کر سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا کانگریس اور اُن کی حلیف جماعتیں نریندر مودی کو گدّی سے اتار کر اپنے بیچ کے افراد سے اُس جگہ کو بھر سکتے ہیں؟
اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک کیڈر بنیاد کی پارٹی ہے جس سے اُس کا تنظیمی ڈھانچا اپنے آپ کھڑا ہو جاتا ہے۔ نصف صدی سے زیادہ کانگریس بھی تنظیمی طور پر مضبوط تھی اور اس کی بدولت اقتدار پر قابض رہی۔ کمیونسٹ پارٹیوں میں اب بھی کیڈر بنیاد پر سر گرمیاں قائم رہتی ہیں۔ اِن تمام جماعتوں کے پاس مرکز سے لے کر پنچایت تک کارندوں کا ایک سر گرم سلسلہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دس برسوں کی حکمارانی میں آر ایس ایس کی اِس تنظیمی ڈھانچے کو بہت مضبوط کیا ہے اور اقتدار کی سہولیات اور دولت کی ریل پیل سے اُسے مزید استواری عطا کی ہے۔ آج کانگریس کی تنظیمی طاقت بکھر چکی ہے اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی ملک کے چند حصّوں میں پورے طور پر محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ اُن کا سب سے بڑاقلعہ مغربی بنگال تو ایک طویل مدّت سے اُن سے روٹھا ہوا ہی ہے۔ کانگریس نے من موہن سنگھ کے دس سالہ دَورِ حکومت میں پارٹی کے نظام کو چست درست بنانے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی جس کی وجہ سے آج یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سامنے اُسی مضبوطی کے ساتھ کانگریس کیوں کر کھڑی نہیں ہو رہی ہے؟ راشٹریہ جنتا دَل، ترین مول کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے ووٹ مخصوص ہیں مگر اُن کے پاس وہ تنظیم نہیں ہے کہ اپنے چاہنے والوں جوڑ سکے اورسب کو ووٹ کی کامیابی میں جوڑ سکے۔ اِس لیے ایک کھلا بکھراؤ کا عالَم ہے۔
اِس بار امیدواروں کے انتخاب میں سب پارٹیاں ذلّت و رسوائی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ وہ کون سی پارٹی ہے جو یہ کہہ دے کہ اُس نے داغ دار امیدواروں کو میدان میں نہیں اتارا ہے۔ ہسٹری شیٹر سے لے کر پارٹی بدلنے والے افرادقطاردَر قطار کھڑے ہیں اور ہر پارٹی اُنھیں پارلیمنٹ میں جانے کے لیے موقع دے رہی ہے۔ پورے ملک میں یہ ہوڑ سی مچی ہے کہ لوگ ہر پارٹی سے امیدواری کا پروا نہ لینے کے لیے پینگیںبڑھاتے رہیں جہاں سے الّو سیدھا ہوجائے وہی پارٹی درست اور اُسی کے سہار ے آگے جانے کا خواب دیکھا جائے گا۔ پہلے سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ اِس کھیل میں بھارتیہ جنتاپارٹی کاہے کو آگے رہے گی مگر کوئی ایسا دن نہ گزرتا ہوجب بھارتیہ جنتا پارٹی میں کانگریس یا دوسری جماعتوں کے افراد پارٹی چھوڑ کر یہاں نہیں آ رہے ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اپنی پارٹی میں نئے چہروں کو شامل کرتے ہوئے اِس بات کی جانچ پرکھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون کس فکری میلان کا ہے اور آخر کیوں اُسے اپنی جماعت میں شامل کیا جا رہا ہے۔ سیکولر پارٹیوں میں بھی یہ دوڑ کم نہیں ہے۔ این ڈی اے سے کچھ ٹوٹے ہوئے چہرے راشٹریہ جنتا دَل یا کانگریس کے سامنے دستکیں دے رہی ہیں۔ بس اِن پارٹی تبدیل کرنے والے افراد کی ایک نظریے سے وفاداری ہے اور وہ یہ ہے کہ اُنھیں جو پارٹی پارلیمنٹ کی سیٹ عطا کر دے وہی پارٹی درست اور وہی اُس کے لیے لائقِ اتباع ہے ۔ ایسے لوگوں کے لیے بہار کے وزیرِ اعلا نتیش کمار مثالی درجہ رکھتے ہیںجہاں اقتدار کی سہولت سے پارٹی بدلنے اور اپنی سیاست کو چمکانے کی گنجایش رہتی ہے۔ اِ س سے آگے کوئی اخلاقی یا سماجی اُصول نہیں ہے۔
ٍ آزاد طبع لوگوں کی آیندہ پارلیمنٹ کے انتخاب کے سلسلے سے توقعات پیچیدہ ہیں۔ حکومت ای وی ایم اور اپنی مشینری سے کتنے ناجائز کام کرا لے، یہ کہا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں داخلی طور پر یہ پژمردگی بھی رہتی ہے کہ پتا نہیں اُن کے انتخاب کو تکنیکی مہا جال میں پھنسا کر برباد نہ کر دیا جائے۔ اِنھی شبہات اور غیر یقینی صورتِ حال میں یہ انتخاب ہو رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح میدان میں ابھی انڈیا محاذ کے افراد سر گرم دکھائی نہیں دیتے۔ عین ممکن ہے کہ جلد ہی یہ ٹکّر کانٹے کی ٹکّر میں بدل جائے۔ ایسا ہوا تو آزاد ذہن و دل کے ووٹروں کی قسمت جاگے گی اورنئے پارلیمنٹ کی صورت میں بھی تبدیلی آئے گی مگر اِس کے لیے ہمیں کچھ اور انتظار کرنا ہوگا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]

Comments are closed.