Baseerat Online News Portal

یوم القدس: تمہاری ساری خدائی ، خدا کے زد میں ہے

 

ڈاکٹر سلیم خان

جمعۃ الوداع کو عالمی سطح پر یوم القدس کا اہتمام کرکے فلسطین  کی آزادی کے آواز بلند کی جاتی ہے ۔ امسال یہ موقع ایسے وقت میں آیا جب طوفان الاقصیٰ کے بعد شروع ہونے والی جنگ اپنے ۶؍ ماہ مکمل کرنے جارہی تھی۔ ساری دنیا کی نظریں  مسجد اقصیٰ پر مرکوز تھیں ۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ غزہ میں عظیم تباہی کے بعد فلسطینی عوام کے عزائم اور حوصلوں کا کیا حال ہے ؟  اس سوال کا یہ جواب سامنے آیا کہ حسبِ معمول  ایک لاکھ اور بیس ہزار سے زائد فلسطینیوں نے  مسجدِ اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرکے بتادیا کہ ہم نہ  ڈریں گے اور نہ جھکیں گے بلکہ لڑیں گے اور جیتیں گے ان شاء اللہ ۔ یہ عظیم اجتماع اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ماہ رمضان میں مسلمانوں پر مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی عائدکی گئی تھی۔ ان ناجائز  پابندیوں اور بے شمار رکاوٹوں  کے باوجود بڑی تعداد میں فلسطینی عوام ماہ رمضان میں نماز کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوناایک عظیم  کامیابی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی کامیابی انہیں جیالوں کو نوازتا ہے جو نصرت الٰہی پر مکمل  بھروسا رکھتے ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ظالم اقتدار کے آگے سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ فلسطینی عوام کی زبردست فتح پررفعت سروش کے یہ اشعار صادق آتے ہیں؎

                                            مظلوم بھی جاگ اٹھے ہیں یلغار کریں گے                        دست ِحق   و انصاف کے باطل سے لڑیں گے

کہہ دویہ ممولوں سے کہ اب آتے ہیں شاہین                      اے ارضِ فلسطین !اے ارضِ فلسطین !

امسال یوم القدس سے پہلے والی شام کو حماس  کے سیاسی  سربراہ اسماعیل ھنیہ نے فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی ریاست کے غیرقانونی تسلط سے نجات کے لیے عالمی اور عوامی محاذ کی تشکیل پر زور دیا ۔ ان کو  اس محاذ سے توقع ہے   کہ وہ  قابض دشمن کے  خلاف کھڑا ہو کر جارحیت کے  خاتمہ  اور جنگ آزادی کی حمایت کرے۔اس تاریخی  موقع پر ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ یروشلم کو آزاد کرانا اور اسے قابض حملہ آوروں سے پاک کرنا ناگزیر ہے۔ھنیہ کے مطابق اس سال بین الاقوامی یوم القدس  "طوفان الاقصیٰ کے عظیم معرکے کی روشنی میں منایا گیا  اور ہمارا یروشلم درد اور امید کی کیفیت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس آپریشن نے ایک اسٹریٹجک کیفیت پیدا کی جس نے جنگ کو اس کی معمول کی حالت میں لوٹا دیا، جھوٹے امن کے چھپے چہروں سے تمام نقاب ہٹا دیئے ۔ اس کے ذریعہ فلسطینی وجود کو مٹانے والی  جارح صہیونی ہستی اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس کے جرائم کی حقیقت کو واضح طور پر ظاہر ہوگئی اور ساری دنیا نے ان کا مشاہدہ کرلیا۔

گزشتہ سال 7؍اکتوبر کے حماس حملے نے اس سال  یوم القدس کو جو غیر معمولی اہمیت عطا کردی اس کے اثرات جا بجا نظر آئے۔ مثلاً وائٹ ہاؤس میں رمضان کے دوران افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تو غزہ کی  جنگ کے پیش نظر  مسلمانوں نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ صدر جوبائیڈن کے اسرائیل،غزہ جنگ کی پالیسی  کے خلاف احتجاج  کے سبب یہ تقریب  بد نظمی کا شکار ہو گئی۔ مذکورہ دعوت میں شرکت کرنے والے ڈاکٹر طاہر احمد نے ملاقات مکمل ہونے سے قبل  احتجاجاً  واک آؤٹ کیا کیونکہ انہوں  نے کم از کم 3 ہفتے غزہ میں گزارے تھے۔ان کے مطابق اپنی ملت ، ظلم کے شکار افراد اور منظم انداز میں شہید ہونے  والوں  کے احترام میں اس دعوت سے واک آو ٹ  ضروری  تھا۔ امریکہ میں یہ الیکشن کا سال ہے اور ان کی پارٹی کو ووٹ دینے والوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس لیےامریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کو  الٹی میٹم دیاکہ غزہ میں شہریوں   اور غیر ملکی فلاحی کارکنان کا تحفظ یقینی بناؤ یا پھر امریکی حمایت سے محروم ہونے کیلئے تیار ہو جاؤ۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہزاروں  شہریوں کی شہادتوں  اور بالآخر ورلڈ سینٹرل کچن کے کارکنان کی شہادتوں پر اٹھنے والے غم و غصے کے بعد امریکہ کو  اسرائیل کے تعلق سے اپنی فوجی حکمت عملی میں کسی قدر  تبدیلی لانے کے مجبور ہونا پڑا۔ امریکی صدر نےجب  غزہ سے متعلق امریکی پالیسی کواس کے بتائے ہوئے اقدامات پر اسرائیلی عمل درآمد کے ساتھ  مشروط کردیا تو اسرائیل کو تھوڑی بہت عقل آئی۔ امریکی صدر سے فون پر گفتگو کے چند گھنٹوں بعد اسرائیلی حکومت نے غزہ میں امداد کی رسد بڑھانے کیلئے اردن سے غزہ میں امداد پہنچانے کی  خاطراشدود پورٹ اور شمالی غزہ سے ایریز کراسنگ کھولنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ اسی دن اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی سے گرفتار کیے جانے والے 101 فلسطینیوں کو  بھی رہا کیا ۔ ان لوگوں کوغزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح شہرکے اندر کارم شلوم کراسنگ پر رہا کیا گیا۔اس  پہلے بھی اسرائیل کے چنگل سے  فلسطینیوں کو رہائی ملی  ہے ۔ گذشتہ مہینوں کے دوران درجنوں کو الگ الگ گروپوں کو رہا کیا گیا ہے مگر یہ جتھا یوم القدس کو آزاد ہوا۔ ان واقعات کے اندر قیصر الجعفری کی مشہور نظم ’حریف جاں سے کہو‘ کی امید کا چراغ روشن ہوجاتا ہے؎

سمٹنے والا ہے یہ کاروبارِ تیرہ شبی

تمہاری رات چراغِ حرا کی زد میں ہے  

کھلیں گے مسجدِ اقصیٰ کے بند دروازے

تمہاری ساری خدائی ، خدا کے زد میں ہے

 امریکہ کے ذریعہ معمولی دباو نے اسرائیل کا  جھکنے پر مجبور ہونا یوم القدس کے موقع پر تہران یونیورسٹی کے اندر ایران کے کمانڈر چیف جنرل سلامی کے خطاب کی توثیق کرتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے چیف کمانڈر جنرل سلامی نےاس موقع پر  کہا کہ : "1945ء کی اس منحوس تاریخ سے لے کر آج تک غاصب صیہونی  مقتدرہ نے مغرب، خاص طور پر امریکہ کی شیطانی حمایت کے سائے تلے اپنا مصنوعی وجود باقی رکھا ہوا ہے ۔ اس کے بے شمار مجرمانہ اقدامات نے فلسطین کی مسلمان قوم اور دیگر اسلامی اور عرب سرزمینوں کا امن اور سکون غارت کر کے انہیں دن رات شدید اذیت میں مبتلا کیا  ہے۔” جنرل سلامی نے غاصب صیہونی ریاست  کو امریکہ کی جانب سے اسلامی دنیا کے بدن میں ڈالے جانے والے زہر یا خنجر سے تشبیہ دی۔ ان کے مطابق سیاسی عقل سے عاری امریکہ نے اس کھوکھلی ریاست  کی حفاظت اور بقا کے لیے فراوانی سے  سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی نقصانات برداشت کئے ہیں۔ اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت نے امریکہ  کوعالمی نفرت کا مرکز بنادیا  ہے۔ امریکہ نے نفسیاتی لحاظ سے بھی اسرائیل کی  حمایت کر کے اسلامی دنیا پر اس کا تسلط قائم کرنے اور مسلمانوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کی ہے۔ ان اقدامات کے باعث امریکہ کا سیاسی اور اخلاقی چہرہ خطے اور دنیا میں زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔اس معیشت سمٹ رہی ہے پھر بھی اسرائیل سے چپکا ہوا ہے۔

جنرل سلامی نے اسرائیل کے بارے میں کہا کہ  وہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی مصنوعی سانسوں سے زندہ ہے۔ وہ امریکہ کے سیاسی، سیکورٹی اور نفسیاتی آئی سی یو وارڈ میں داخل ہو چکا ہے اور مشینوں کی مدد سے سانس لے رہا ہے اور جب بھی مصنوعی سانس کی یہ مشینیں صیہونی رژیم کی ناک سے ہٹا لی جائیں گی اس کی زندگی ختم ہو جائے گی اور عنقریب ایسا  ہوگا۔  چیف کمانڈر کے مطابق : "اگر اسرائیل فلسطین سے جنگ جاری رکھتا ہے تو آخرکار اسے  فلسطینی عوام کی آفاقی  مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو ناپڑے گا ۔ انہوں نے یقین دلایا  کہ: "غزہ سے ہمیں ملنے والے پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی مزاحمت جاری رکھنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ فلسطینی ہم سے کہتے ہیں کہ آپ مضبوط رہیں کیونکہ ہم صیہونی مقتدرہ کو غزہ میں دفن کر دیں گے۔ صیہونیوں کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ صیہونی جنگ اور زندگی میں سے ایک کا انتخاب نہیں کر سکتے، ان کے پاس واحد راستہ گھٹنے ٹیک دینے کا ہے۔”

حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے اس سال یوالقدس کے موقع پر  مجاہدین اسلام کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ   غزہ اور فلسطین کےجانبازوں  نےڈر  کی دیوار کو توڑکرقابض دشمن کے جھوٹے خوف کو نیست و نابود کردیا۔ مجاہدین نے دلیری اور قربانی کی ایک متاثر کن مثال پیش کرکے  صیہونی منصوبے کو عبرتناک شکست سے دوچار کرنے کے تاریخی موقع کا فراہم  کیا ہے۔موصوف نے اس کے عالمی اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مبارک معرکے نے ملت کی صفوں کو جوڑ دیا اور اس اتحاد کا نمونہ  فلسطین سے لے کر لبنان، یمن اور عراق تک کے میدانوں اور محاذوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔حماس سربراہ  نے شہیدوں  کو سلام پیش کرکے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں شہداء کی قربانیاں پیش کرنے والی قوم کو آزادی کی منزل سے کوئی نہیں روک سکتا۔فیض احمد فیض نے یہی بات اپنی نظم میں اس طرح کہی تھی؎

قد جاء الحق و زَہَق الباطِل، فرمودہ ربِّ اکبر

ہے جنت اپنے پاؤں تلے،اور سایہ رحمت سر پر ہے

پھر کیا ڈر ہے!ہم جیتیں گے،

حقّا ہم اک دن جیتیں گے،بالآخر اک دن جیتیں گے

 

 

Comments are closed.