Baseerat Online News Portal

کمال مولا مسجد/درگاہ کے تناظر میں کچھ باتیں

مولانا عبدالحمید نعمانی
گزشتہ کچھ عرصے سے تصوف اور صوفیاء کے سلسلے میں افراط و تفریط کے سبب، ایک الگ طرح کا منفی و جارحانہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے حالاں کہ تصوف اور صاحب صدق و صفا۶ حضرات صوفیاء کا سماج کی تعمیر و تشکیل میں رول ایک حقیقت ہے، اس کو اجاگر کرنے کے بجائے بڑی تعداد، مسلکی تعصب و تحزب میں مبتلا ہو گئی ہے، گزشتہ دنوں سوامی لکشمن کے ساتھ اجین، بھوپال، ودیسیہ وغیرہ کے کے علاقے میں جانا ہوا تھا، وہاں یہ نظر آیا کہ مدھیہ پردیش کے مخصوص حالات میں بھی مسلمانوں کو اصل مسائل پر توجہ دلانے کے بجائے مبینہ مبلغین ان کو داخلی اختلافات میں الجھانے میں لگے ہوئے ہیں، ، کچھ لوگ ملاقات کے لیے آئے تھے، بات چیت سے لگا کہ ان کو ملک اور مدھیہ پردیش کے مختلف حصوں خصوصا دھار میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے متعلق کوئی زیادہ علم و احساس نہیں ہے، جامع مسجد دھار/مسجد کمال مولا کو بھوج شالہ اور سرسوتی مندر بتانے کی جو مہم چل رہی ہے اس کے بارے میں نہیں کے برابر جانکاری ہے، مالوہ، مانڈو، دھار اور ان کی تاریخ اور جامع مسجد دھار/حضرت کمال الدین مولانا، ان کی درگاہ کے سلسلے میں زیادہ پتا نہیں ہے کہ بتایا ہی نہیں گیا البتہ مسلکی اختلافات اور ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل کے متعلق خاصی آگاہی ہے، اس میں عام لوگوں کے بجائے مبینہ خاص لوگوں کی سرگرمیوں کا زیادہ دخل ہے، یہ جب تک اپنے رویے میں جوہری تبدیلی نہیں کریں گے تب تک عوامی سطح پر بہتر تبدیلی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے، دیگر کی طرف جو یلغار و یورش ہو رہی ہے اس کے خلاف جدوجہد و مزاحمت تو ضروری ہے لیکن خود کے سامنے تو صحیح صورت حال واضح رہنا چاہیے ،
مالوہ ریاست کے تناظر میں مانڈو، دھار وغیرہ کی جو تاریخی اہمیت ہے اسے نظر میں رکھنا ضروری ہے، حضرت نظام الدین اولیاء رح کا اپنے خلفاء کو دھار کے علاقے میں بھیجنے کا کچھ تو بڑا مقصد رہا ہو گا، اس کو نظرانداز کر کے غیر ضروری مراسم و اعمال میں خود کو لگانا کوئی عقلمندی نہیں ہے، کئی سارے مسائل تو اصل مقاصد کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے بھی پیدا ہوئے ہیں، تقسیم وطن نے بھی ان مسائل کو بڑھانے کا کام کیا ہے، مولانا آزاد رح، مولانا مدنی نے اور دیگر اکابر امت کو اس کا شدید احساس تھا کہ تقسیم وطن کے نتیجے میں ہمارے معابد و ماثر ، مدارس اور تاریخی ورثے کے تحفظ و بقا میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا ہوں گی، ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، ان کا خدشہ گزرتے دنوں کے ساتھ، صحیح ثابت ہوتا جا رہا ہے،برٹش سامراج نے آزادی سے پہلے ہی کئی قسم کے فرقہ وارانہ مسائل کو پیدا کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کئی سارے کام شروع کر دیا تھا، انگریزی راج کے قیام و اثر سے پہلے ہندو مسلم کے درمیان اس نوعیت کے مسائل نہیں تھے جو برٹش سامراج کے اثرات اور تقسیم وطن کے ساتھ پیدا ہو گئے ،مسلم حکمرانوں میں بھی، دیگر حکمرانوں کی طرح کمیاں، خوبیاں تھیں ،ان کے باہمی جنگ و جدال اور اقتدار کی توسیع کی بے پناہ خواہش کے سبب کئی طرح کے مثبت نتائج سماج میں برآمد نہیں ہوئے لیکن اچھی تاریخ اور کردار کو بھی داغدار کر کے فرقہ وارانہ ماحول بنانے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے،اسے سمجھنا ،وقت کا اہم تقاضا ہے، کشف و کرامات کی حد سے زیادہ تشہیر کے بجائے مشائخ و صوفیاء کی اصل خدمات کو پیش کرنے کی زیادہ ضرورت و اہمیت ہے، اسلامی اور مسلم آثار کو مٹانے کی مہم کے تناظر میں ماضی کی تاریخ اور تاریخی کردار ادا کرنے والوں کو جانے بغیر حال میں نقشہ کار کو بہتر طور سے نہیں بنایا جا سکتا ہے، ہندستان میں مختلف مقامات پر مسلم حکمرانوں سے پہلے ہی صوفیاء، علماء، تجار پہنچ کر سماج کے مختلف طبقات سے تعلقات قائم کر کے اپنے مفوضہ فرائض و خدمات میں لگ گئے تھے، یہی صورت مالوہ، اجین وغیرہ کے دیگر مقامات اور شہروں سمیت دھار میں بھی تھی، غوری، خلجی حکمرانوں میں سے علا۶ الدین خلجی کے فتح مالوہ و دھار سے پہلے ہی بہت سے علماء و مشائخ مالوہ کے مختلف علاقوں میں کے علاوہ دھار میں پہنچ گئے تھے ،وہاں کی تاریخ خاصی شاندار رہی ہے، اس نے ہندوتو وادی عناصر میں ایک خاص طرح کا رجحان اور احساس کمتری کو پیدا کر دیا ہے،اس کی تلافی وہ من گھڑت تاریخ بنا کر اور صحیح تاریخ کو بگاڑ کے کرنا چاہتے ہیں، اس کا بہ خوبی اندازہ پی این اوک کی کتابوں کے مطالعے سے ہوتا ہے، کمال مولا مسجد/درگاہ سے تاریخ کا جو رشتہ ہے اس کو کاٹ کر، فرقہ وارانہ سمت میں لے جانے کی مہم زوروں پر ہے، وہ ہندوؤں پر زور زبردستی اور ظلم و زیادتی کی بات کر کے سماج میں گمراہ کن خیالات اور فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کر کے اس کا سیاسی استعمال و استحصال کرنے میں لگ گئے ہیں، یہ ہندوتو وادی عناصر تاریخ کے عمل و انقلاب کو دل سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،اسی مخصوص ذہنیت کے تحت کسی بھی چیز کو اس کی اصلی شکل میں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، تاج محل کو تاج محل کی حیثیت میں قبول نہیں کر رہے ہیں، بلکہ تیجو محالیہ قرار دے کر اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنے احساس کمتری و محرومی کو دور کرنا چاہتے ہیں، بھارت خصوصا آزاد بھارت میں ہندو مسلم ،پارسی، یہودی، عیسائی، جین، بودھ مت، سکھ مت سے منسوب، تمام تر تاریخی یادگاریں، ملک کا ورثہ ہیں، آج کی تاریخ میں دھار کی کمال مولا مسجد/درگاہ ہو یا تاج محل، جامع مسجد گیان واپی، وغیرہ بھی بھارت کا حصہ و ورثہ ہیں، جیسا کہ بابری مسجد بھی ملک کا تاریخی ورثہ تھی، اسے ختم کرنے کے عمل کو کسی طرح بھی تعمیری عمل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، اس تناظر میں تحفظ عبادت گاہ قانون بن جانے کے بعد تاریخی معابد و ماثر کے سروے کا کام قطعی غیر ضروری ہے لیکن سناتن کے نام پر خود کو زندہ رکھنے کے لیے ایسے کام کیے جا رہے ہیں جن کا واحد مقصد، جھوٹی تاریخ سازی کر کے اپنی انا کی تسکین اور اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر سماج میں اپنا تفوق قائم کرنا ہے، اس کا مبینہ سناتن دھرم کے تحفظ و تلاش سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، عدالتوں میں میں بھی انصاف و دیانت اور ایک مخصوص کمیونٹی کے احساس کمتری و محرومی کو دور کرنے میں انتخاب مشکل ہوتا جا رہا ہے، ایسی حالت میں، شیو، رام، کرشن، لکشمن ،سرسوتی کا آدرش قائم ہونے کا سے کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے، جس طرح اسلامی اور مسلم نام والے معابد و ماثر کو ہندو معابد و ماثر قرار دے کر ان پر قبضہ کرنے کی مہم چل رہی ہے اس سے ان لوگوں کا خیال بالکل بے بنیاد اور سراسر مفروضہ معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے رہے ہیں کہ کچھ عبادت گاہوں سے دست بردار ہو کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی جا سکتی ہے، اس سے ہندو مسلم تنازعات کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے، جب کہ اصل بات یہ ہے کہ بھارت میں دیگر محنت کش طبقات کو عموما اور مسلم اقلیت کو خصوصا، الگ قسم کےحالات کا سامنا ہے، ان میں مختلف سطحوں پر موثر جدوجہد اور مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے، ایسی حالت میں اگر اکثریت اور اقتدار کی طاقت کے زیر اثر کچھ کھو جائے گا تو اس کی تاریخ الگ قسم کی ہوگی، جیسا کہ بابری مسجد کے سلسلے میں ہوا کہ رام مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا دعوٰی صحیح ثابت نہیں ہوا اور جو ثابت ہوا وہ یہ ہوا کہ ہندوتو وادی عناصر رام مندر کی سچائی اور رام کے آدرش قائم کرنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں، رام کے نام پر خواہ جتنا بڑا مندر بنا لیا جائے اس میں رام کے آدرش والی بات کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتی ہے، بابری مسجد کے متعلق فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ جدوجہد اور مزاحمت کے کچھ نہ کچھ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں، دیگر معابد و ماثر کے سلسلے میں بھی بابری مسجد کے معاملے سے سبق و رہنمائی لے کر بہتر و موثر جد وجہد کرنی ہوگی،

Comments are closed.