Baseerat Online News Portal

الیکٹورل  بانڈ کا جن باہراور مودی   بوتل کے اندر

 

ڈاکٹر سلیم خان

کوئی جن اگر بوتل سے باہر آجائے تو پھر وہ آسانی واپس  تونہیں جاتا  مگر ساری دنیا کی  توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ الیکٹورل بانڈ کا یہی حال ہے ۔اس کی بابت آئے دن نت نئے دلچسپ انکشافات ہورہے ہیں ۔ پہلے تو الیکٹورل بانڈز کی خرید  وفروخت کا ای ڈی کے چھاپوں سے براہ راست تعلق سامنے آیا پھر پتہ چلا کہ سرکاری ٹھیکوں   کا بھی  الیکٹورل بانڈ سے سیدھا رشتہ ہے ۔2014       میں مودی یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں  آئے  تھےکہ ’بہت ہو ا بھرشٹاچار(بدعنوانی)، اب کی بار مودی سرکار‘۔  اس کے بعد ستمبر 2022 کے درمیان 121 اہم لیڈر ای ڈی کے نشانے پر آئے  اور ان میں سے 115 حزب اختلاف کے رہنما تھے۔اب جیسے جیسے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخلی کا خوف ستاتا جارہا ہے  یہ فہرست  تندرست و توانا ہو تی جارہی  ہے۔ سیاسی رہنما وں کے معاملے ای ڈی کے کام کرنے کا طریقۂ کار یہ  ہے کہ  آگے ای ڈی اور پیچھےگرفتاری ۔ اس کے بعد پارٹی بدل اور فائل بند ۔

 تجارتی اداروں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ آگے آگے ای ڈی  اور اس کے پیچھے پیچھے  بانڈ کی خریداری  اور اس کے بعد  کام تمام یعنی ’شبھ منگل ساودھان‘۔  یہ اشلوک  شادی کے ساتھ پھیروں کی تکمیل پر پڑھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ  میاں بیوی سات جنم کے لیےایک دوسرے کے  ساتھ ہوجاتے ہیں ۔ اس  غیر مقدس رشتے میں  بیوی چندہ لینے والی بی جے پی اور شوہر  چندہ دینے والا سرمایہ دار ہے۔  ای ڈی کی ذمہ داری  شادی کے سیاسی رسوم ورواج ادا  کروانے والے پنڈت جی کی  ہے۔  اس کے لیے اسے تنخواہ  اور اختیار تو ملتا ہی  ہے لیکن ملک بھر میں ای ڈی کے کئی  اہلکار اوپر کی کمائی یعنی رشوت کی گرودکشنا لیتے ہوئے بھی رنگے ہاتھوں پکڑےگئے ہیں ۔  مرکزی تفتیشی ایجنسی  ای ڈی کےسیر کو سواسیر تمل ناڈو میں مل گیا۔ ریاستی پولیس اورڈائریکٹوریٹ آف ویجی لنس اینڈ اینٹی کرپشن  نےگزشتہ سال  ای ڈی کے افسر انکت تیواری کو رشوت ستانی کے معاملے میں رنگے ہاتھ  گرفتار کرلیا ۔ اس کے بعد پولیس اور آئی سی بی  نے مدورائی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سب زونل آفس کی  تلاشی بھی لی۔

 انکت تیواری کو دنڈیگل ضلع میں ایک ڈاکٹر سے 20؍ لاکھ روپئے رشوت لیتے ہوئےپکڑاگیا تھا ۔ انکت تیواری2016ء بیچ کا افسر ہے اور گجرات و مدھیہ پردیش میں تعینات رہا ہے یعنی اس کی تربیت بی جے پی سرکاروں کے تحت ہوئی مگر تمل ناڈو میں اس کا سابقہ الگ طرح کی سرکار کے ساتھ پیش آگیا۔  ماہِ  اکتوبر میں تیواری نے ڈنڈیگل کے ایک سرکاری ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور ان کے خلاف درج ایک ویجی لنس کیس کا ذکر کیا جو پہلے ہی بند ہو چکا تھا ۔ اس کیس میں کارروائی نہ کرنے کیلئے  تیواری نے ۳؍ کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن 51؍ لاکھ پر  باہمی رضامندی ہوگئی ۔اس معاملے میں  پہلی قسط کے طور پر 20؍ لاکھ روپے ادا کرنے سے قبل ڈاکٹر نے  ریاستی اینٹی کرپشن بیورو سے رابطہ کیا اور شکایت درج  کرادی۔ اس کے بعد بیورو نے جال بچھاکر تیواری کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔ ریاستی بیورو کے مطابق  تیواری کو اس کیس میں کارروائی کرنے کی اجازت پی ایم او اور مرکزی وزارت داخلہ سے ملی تھی یعنی  ای ڈی کے ذریعے بند کئے گئے متعدد کیسوں کو دوبارہ کھولنے میں مرکز کا آشیرواد شامل ِ حال تھا۔

 جنوبی ہند کی جس ریاستِ تمل ناڈو میں ای ڈی کا وستر ہر ن (بے لباسی) ہوا  وہاں جاکر وزیر اعظم نریندر مودی نے تھانتی ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران  الیکٹورل بانڈ پر پہلی بار اپنی چونچ کھول کر کہا کہ اس کی وجہ سے چندے کے ذرائع کا پتہ لگانا ممکن ہوسکا۔  مودی جی کی یہ بات درست ہے کہ  اب چندے کے اس حصے کا پتہ لگانا ممکن ہوگیا ہے کہ  الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ لیا جاتا ہے لیکن  اگر سوال کیا جائے کہ  ان کی حکومت نے اسے اجاگر کرنے میں رکاوٹیں کھڑی  کی یا نہیں ؟  تو جواب یہ ہے کہ   مودی سرکار نے تو طرح طرح سے اسے چھپانے کی بھرپور کوشش کی اور جب عدالتِ عظمیٰ نے ان سب  پر پانی پھیر دیا تب جاکر یہ معلومات طشت ازبام ہوئیں  ۔ اس لیےاب لوگ  یہ سوال کررہے ہیں کہ  حکومت وہ معلومات کیوں چھپا رہی تھی ؟  کیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس سے بلیک میلنگ کا پھندا اورچندہ  لے کر دھندا دینے کا کاروبار کھل کر سامنے آجاتا ہے؟  

مودی نے سینہ ٹھونک کر سوال کیا کہ  2014 سے پہلے ہونے والے تمام انتخابات میں کون سی ایجنسی ہے جو بتا سکتی ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا تھا، کہاں گیا اور کس نے خرچ کیا؟ یہ مودی کا الیکٹورل بانڈ تھا، جس کی وجہ سے آج آپ یہ معلوم کر رہے ہیں کہ بانڈ کس نے دیا اور کس نے لیا۔ پہلے کوئی سراغ ہی نہیں ملتا تھا… آج آپ کو ٹریل (ذرائع) مل رہا ہے کیونکہ وہاں الیکٹورل بانڈ تھا۔ مودی کا یہ  دعویٰ کھوکھلا  ہے کہ 2018 میں ان کی حکومت کی جانب سے لائی گئی اسکیم کی وجہ سے اب منی ٹریل قائم کیا جا سکتا ہےکیونکہ  عدالت کے اندر اور باہر دونوں جگہ بی جے پی حکومت نے ذرائع کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، وہ تو سپریم کورٹ نے اسے رد کر دیا۔اس کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو یہ تفصیلات عام کرنے کے لیےمجبور ہونا پڑا۔ سابق وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے بجٹ تقریر میں کھلے عام اعتراف   کیا تھا کہ ’پارٹی اور ڈونر کے درمیان پہچان کی کڑی  کو چھپانے کے اصول کی بنیاد پر این ڈی اے حکومت الیکٹورل بانڈ اسکیم لائی ہے۔‘ اس کا مطلب ہے کہ الیکٹورل بانڈ کی نیت اور منشاء دونوں دکھانے کی نہیں چھپانے کی تھی۔

جنوری 2018 میں جب الیکٹورل بانڈ اسکیم کوجاری کیا گیا تو اسی وقت  کمپنیوں اور افراد کو سیاسی جماعتوں کے خزانے میں  گمنام چندہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی شروعات ہی گمنامی سے ہوئی تھی ۔  مودی جی پہلے کی بات کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس رازداری اور لوٹ مار کے لیے ان کی حکومت نے کئی آئینی ترمیمات کی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیوں کو پہلے  سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کی اجازت نہیں تھی مگر مودی سرکار نےان   ہندوستانی حصے داری کی آڑ میں وہ پابندی  اٹھالی۔ اس سے جعلی تجارتی اداروں کے لیے چندہ دینے کا دروازہ کھول دیا گیا۔  ایف سی آر اے اور فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ 1999 کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے پرجو پابندی تھی اس کا خاتمہ کردیا گیا۔ ان کی سرکار پہلے والے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کرکے  سیاسی جماعتوں کو الیکٹورل بانڈ کے ذریعے موصول ہونے والے چندےکا تفصیلی ریکارڈ رکھنے سے مستثنیٰ کر دیا۔ یہ چندہ چوری کو چھپانے کی چھوٹ تھی ۔یزرو بینک آف انڈیا ایکٹ میں بھی ترمیم کرکے  مرکزی حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی شیڈول بینک کو الیکٹورل بانڈ جاری کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ  تجارتی اداروں پرکمپنی ایکٹ 2013  کے تحت کمپنیوں پر منافع کا سات فیصد سے زیادہ  چندہ دینے کی پابندی تھی تبدیل کردیا  گیا۔

 آئینی ترمیمات کے بعد عملاً بھی چوری چھپانے کے عدالت میں قلابازیاں کھائی گئیں۔سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت  مرکزی حکومت نے عطیہ دہندگان اور ان سے بانڈ حاصل کرنے والے فریقوں کی شناخت چھپانے کا مسلسل دفاع کیا ۔ اکتوبر 2023 میں مرکز نے عدالت کو بتایا کہ شہریوں کو سیاسی فنڈنگ کے ذرائع جاننے کا بنیادی حق نہیں  ہے ۔ نومبر 2023 میں سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے پھر سے عطیہ دہندگان  کی شناخت کے تحفظ کا ذکر کیا ۔ان  کی دلیل  تھی کہ الیکٹورل بانڈ کو حکمراں پارٹی  لین دین کے انتظامات کے لیے استعمال نہیں کر پائے گی کیونکہ وہ یہ نہیں جان سکے گی کہ کون کس کو چندہ دے رہا ہے۔اس پر سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا تھا، ’اسکیم کے ذریعے لین دین کے انتظام سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ ترمیم شدہ کمپنی ایکٹ کے تحت، کسی  کمپنی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس نے کس سیاسی جماعت کو چندہ دیا ہے۔ لیکن اسے یہ دکھانا ہوگا کہ اس نے کتنا تعاون کیا ہےچونکہ حکمران جماعت جانتی ہے کہ اسے اس کمپنی سے الیکٹورل بانڈ کے طور پر کتنا پیسہ آیا ہے اس لیے اسے سب پتہ چل جائے گا۔‘ ایس جی مہتا کے کہنے پر کہ یہ کبھی نہیں جانا جا سکتا  سی جے آئی کا جواب دیا برسرِ اقتدار پارٹی یقیناً جانتی ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے فروری 2024 کو   یہ کہہ کر  کہ یہ اسکیم آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت شہریوں کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی ہے اسے ختم کرکے مودی سرکار کے منہ پر کالک پوت دی ۔ عوام نے یہ تماشا ابھی حال میں اپنی آنکھوں سے  دیکھا ہے   اس لیے مودی جی کی خاطر اب الٹے سیدھے دعویٰ کرکے  عوام کو بیوقوف بنانا ناممکن ہوگیا ہے۔ عوام کا شعور اگر اس بابت بیدار ہوجائے تو وہ مودی سرکار کو ضرور سبق سکھائیں گے۔

 

 

Comments are closed.