Baseerat Online News Portal

عید الفطر کی رات عبادت کی رات

مفتی محمد جمال الدین قاسمی
آل انڈیا ملی کونسل ،پھلواری شریف پٹنہ

بشر کا فرض ہے ہر حال میں شکر خدا کرنا
مصیبت ہوکہ راحت ہو نھی اچھا گلہ کرنا

رمضان المبارک کا مہینہ ہر ایک ساعت نیکیوں کا ہے، جس میں اللہ ربّ العزت کی جانب سے اسے اپنے بندوں پر روزہ ، تراویح وغیرہ مختلف احکامات متوجہ ہو تے ہیں،اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اپنی استطاعت و انبساط کے مطابق ان کی انجام دہی کی سعی وکوشش اور اس ماہ مبارک کو اپنے رب کی خو شنودی میں گزار نے کی تگ و دو کرتے ہیں، ظاہر کہ جب بند ے اپنی استطاعت بھر نیکی انجام دیتے ہیں تو ارحم الراحمین بھی ان پر رحم وکرم فرماتے ہیں ، وہ ربّ کریم یوں تو ہر روز افطار کے وقت لا کھوں کروڑوں گنہگار بندوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرتاہے ،

لیلتہ الجائز ہ کی فضیلت،،
عید الفطر کی رات کو لیلتہ الجائز ہ کہتے ہیں،عربی زبان میں جا ئزہ کے معنی ہیں ،، انعام،،اس کو انعام کی رات اس لئے کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے دار نے جو مشقت وپریشانی برداشت کی ہے ، اس خدا وند قدوس کی طرف سے انعامات اس رات تقسیم کیے جاتے ہیں ،
جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلتہ الجائز ہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے،،

لیلتہ الجائز ہ خاص امت محمدیہ کے لئے ہے،،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‌‍،میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیتیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے دار وں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول!کیا یہ شب قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں، یہ شب قدر نہیں بلکہ یہ اس لئے ہے کہ کام کرنے والے کو کام پورا کر نے پر مزدور ی دی جاتی ہے،
بھر حال،،عیدین کی راتوں میں عبادت کرنے کا ذکر متعدد احادیث میں موجود ہے،حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عید ین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرےگا،اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گی۔ ہم لوگ پور ے رمضان المبارک تو ٹو ٹی پھوٹی عبادت کا اہتمام کرتے ہیں لیکن جیسے ہی چاند رات ( لیلتہ الجائز ہ) شروع ہو تی ہے اور اللہ کے دربار سے وصولی کا موقع آتا ہے تو ہم بازاروں کا رخ کر لیتے ہیں اور اللہ ربّ العزت کی کھلی نافر مانیا ں شروع کر دیتے ہیں، بے پر دگی،فحاشی، مو سیقی اور نا چ گا نے کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے،اور یوں ہم لوگ اس چاند رات کی برکتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لہذا چا ند رات کو بازار وں کا رخ کر نے کے بجائے عبادت،ذکروتلاوت، اور دعا ؤں میں مشغول رہیں،بےہو دہ اور بے کار قسم کی باتوں سے اپنے آپ کو بالکلیہ پرہیز کریں، اور گناہوں سے بچیں!

آقائے نامدار تاجدار مدینہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب عید الفطر کا دن ،یعنی صبح ہوتاہے تو فرشتے تمام راستوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں ،اور آواز دیتےہیں کہ اے مسلمانو رب کریم کے دروازے پر آؤ وہ تمہارے لئے بھلای اور خیر کے خزانے لئے ہوئے ہیں،اور بہت سا اجر عظیم عطا فرمائے گا،تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تراویح پڑھنے کا پابند کیا گیا تم نے تراویح پڑھی،تمہیں اللہ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا تم نے روزے رکھ کر اپنے پروردگار کی اطاعت گزار ی کی،اب چلو انعام لےلو،

آج خدا کے انعام و اکرام کا دن ضرور ہے ،لیکن اس کے حقدار وہی ہوں گے جنہوں نے رمضان المبارک کی قدر کی ہوگی نہ کہ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے دن بھر گلچھروں اور ساری رات خواب غفلت میں گزار ی ہو،حضرت وہب بن منبہ کو عید کے دن روتے ہوئے دیکھ کر کسی نے کہا ،،ھذا یو م الزینتہ والسرور،،یہ تو خوشی اور زینت کا دن ہے،حضرت وہب نے فرمایا بےشک یہ خوشی کا دن ہے لیکن اس کے لئے جس کے روزے قبول ہو گیے ہوں ،،

پیرا ن پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح نے ،،غنیتہ الطا لبین،، میں لکھا ہے کہ عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے،
عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنی گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قاءم رہا،
عید مسرتوں اور خوشیوں کا دن ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ماہ مقدس کا احترام کیا ہو لیکن جن لوگوں نے رمضان بھر خواہشات نفس کے مطابق من چاہی زندگی بسر کی ،اور وا ہیات اور بی ہودگی میں اوقات کو بسر کیا اور دیگر امور خیر سے غافل رہا،ان کے لئے آج کا دن تاز یانہء عبرت اور بے انتہا شرم و ندامت کا دن ہے،کیونکہ اس نے اپنے پروردگار کے حکم کو نہیں مانا ،حیوان جیسی زندگی گزار ی اور مبارک مہینوں کی ہے عزتی کی،اوذ اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کیا،آج ایسے آدمی ضرور عمدہ لباس اور پوشاک زیب تن کیے ہوں گے ،مگر اندر سے ان کے دل نادم اور شر مندہ ہوں گے کہ ہم خدا کی نافر مانی کی ،آج محلے کے لوگ خا ند ان کے افراد حسرت بھری نگاہوں دیکھینگے ،خدا کی ناراضگی اور پھٹکار ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدد عا ان پر پڑی ہونگی ،فرشتے لعنت کرر ہے ہو نگے ، یہ سب رسوائی کیوں اٹھا نی پر رہی ہے محض اس وجہ سے کہ وہ مقدس کے انوار و تجلیات سے محروم رہے،
آج ہمارا حال یہ ہے کہ محض رسمی طور پر عید مناتے ہیں ،مسلمان اپنے تہوار ں کی غرض و غایت کو سمجھتے ہی نہیں،منکرات کا ارتکاب کر تے ہیں اور فضول خرچی کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں،آراشٔ وزیبا ٔش پر مٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ٹھیٹھر اور سنیما بینی کے ذریعہ اپنی دولت ضائع کرتے ہیں،،،،،بتلا ءیےکہ یہ کون سے اسلام نے بتلایا ہے،روزہ تو اس لئے آیا تھا کہ ہم سب راہ ہدایت پر آجائیں،صراط مستقیم پر چلنے لگیں،جھنم سے نجات مل جائے اور جنت میں جانے کا ذریعہ بن جائے،
تو مجھے نواز دے تو یہ تیر ا کرم ہے ورنہ
تیر ی رحمتوں کا بدلہ میری بندگی نہیں ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں،،کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان یوم عید خالف الطریق،،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن راستہ بدل دیتے تھے۔اس طرح ہمارے لئے بھی مسنون ہے کہ عید گاہ جاتے وقت جو راستہ اختیار کیا جائے،آتے وقت اس سے مختلف راستہ اختیار کیا جائے،اسی طرح عید کے دن غسل کرنا،مسواک کرنا،نیے یا صا ف ستھرے کپڑے پہننا،خوشبو لگانا اور نماز کے لئے جانے سے پہلے کچھ کھانا مسنون ہے،

نماز عید کی تر کیب

پہلے آپ نماز عید الفطر واجب مع چھہ زائد تکبیروں کے امام کے پیچھے پڑ ھنے کی نیت کریں۔
پھر تکبیر تحریمہ کہکر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑ ہیں،
پھر تیں مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کا نو ں تک اٹھائیں ،دو مرتبہ ہاتھ چھوڑ دیں،تیسری مرتبہ ہاتھ باندھ لیں،پھر امام! اعوذ باللہ بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ پڑھ کر اور کوئی سورت ملا ءیں گے،
اور مقتدی چپ رہیں،پھر رکوع سجدہ کر کے کھڑے ہو جا ءیں ،پھرامام کی قرأ ت سننے کے بعد تین زا ئد تکبیر ہوگی،اور اور ہر مرتبہ ہاتھ کا نوں تک اٹھاکر نیچے لٹکا دیں ، اور پھر بغیر ہاتھ اٹھا ے ہوئے چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جائیں،اور بقیہ نماز قاعدہ کے مطابق پوری کریں،پھر امام کھڑے ہو کر خطبہ پڑھیں،اور تمام لوگ خاموش بیٹھ کر سنیں،
یا د رہے امام کا خطبہ پڑھنا مسنون ہے
اور مقتدی کے لئے خطبہ کا سننا واجب ہے ،
اللہم وفقنا لما تحب وتر ضی

 

Comments are closed.