Baseerat Online News Portal

بہار :بڑے بھائی کا اخلاق وکردار

 

ڈاکٹر سلیم خان

حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ وفاق کی داغ بیل ڈالی گئی اور اسی ریاست میں سب سے پہلے مشترکہ طور پر سیٹوں کی تقسیم کا اعلان ہوا۔  اس کے مطابق  ریاست میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) 26، کانگریس 9؍ اور بائیں بازو کی جماعتیں 5 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گی۔ نشستوں کی تقسیم میں آر جے ڈی کو سبھی نے بڑا بھائی تسلیم کرلیا ۔ اس موقع پر لوک سبھا انتخابات میں نیشنل ڈیموکریٹک انکلوسیو الائنس(انڈیا)  محاذ کا متحد ہوکر بی جے پی کو شکست دینے کا عزم کیا ۔ اس کے بعد مکیش سہنی کی ’وکاس شیل انسان پارٹی‘بھی  اس اتحاد کا حصہ بن گئی۔  بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اعلان کیا کہ ب آر جے ڈی  اپنی  26 سیٹوں میں سے تین وی آئی پی کو دے گی ۔ ان کی جگہ بی جے پی جیسا بنیا ہوتا تو کہتا اس نئے ساجھی دار کو تین سیٹیں دینی ہیں ایک میں دے رہا ہوں۔ ایک ایک تم بھی دو  لیکن نہیں جن کے پاس پہلےہی صرف 9؍ اور 5 ؍ نشستیں ہیں وہ کیوں دیں ؟ 26 ؍ والا کیوں نہ دے ؟ اس سوال سے پہلے تیجسوی  نے ازخود  بڑے بھائی ہونے کا ثبوت دے دیا۔اس  پر منیر نیازی کا شعر معمولی ترمیم کے بعد صادق آتا ہے؎

اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا             جاگ جاگ کر انتخاب  میں ووٹ کی آگ جلاتے رہنا

وی آئی پی چیف مکیش سہنی نے  اس پریس کانفرنس میں  کہا کہ ’’ بی جے پی نے ہمارے اراکین اسمبلی کو خرید کر ہمارے تعاون سے حکومت بنائی اور ہمیں ہی باہر کا راستہ دکھا دیا۔‘‘ تیجسوی یادو  بھی بولے  ’’جو لوگ 400 پار کا نعرہ لگا رہے ہیں،   بہار کی زمین انھیں دھول چٹانے کا کام کرے گی۔ میں پھر دہرا رہا ہوں کہ اس بار بہار حیران کرنے والا نتیجہ دے گا۔‘‘انتخابی کامیابی کے لیے وفاق میں شامل مختلف  پارٹیوں کے درمیان اتحاد و اعتماد کی بہت اہمیت  ہے۔ اس کی بنیاد اگر نظریات اور اغراض و مقاصد پر ہو تو وہ پائیدار ہوتا ہے لیکن   صرف اقتدار کی خاطر ابن لوقتی کے پیش نظر  میل جول ہوجائے تو اس میں من مٹاو ہوتا رہتا ہے۔ انڈیا محاذ کے اندر فسطائیت کی مخالفت اور غریب پروری بنیادی قدر مشترک ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری پر بھی اتفاق ہے ۔

وی آئی پی کے علاوہ  انڈیا محاذ میں شامل   تینوں نے کبھی بی جے پی سے مفاہمت نہیں کی اس لیے ایک دوسرے پربھروسا کرسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس این ڈی اے کے اندر زبردست بے اعتمادی کا بول بالا  ہے۔  اس میں  بی جے پی ، جے ڈی یو اور لوک جن شکتی پارٹی کے علاوہ  جتن رام مانجھی وغیرہ کو بھی ساتھ لیا گیا ہے۔ یہ سارے لوگ  ماضی میں آپسی لڑائی بھڑائی کے بعد ایک دوسرے  کی  پیٹھ میں چھرا گھونپ  چکے ہیں۔   اس لیے کسی کو کسی پر بھروسا نہیں ہے۔ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں سب سے بڑا فائدہ جے ڈی یو کا ہوا تھا اور 4 سے بڑھ کر 16پر پہنچ گئی تھی ۔ چراغ پاسوان نے 6نشستیں جیت لی تھیں اور بی جے پی 22 سے گھٹ کر 17 پر آگئی تھی  لیکن اس کے بعد نتیش اور چراغ دونوں نے بی جے پی  سے لڑائی کی اور اب دوست بن گئے ۔ این ڈی اے کے اندر پیدا ہونے والی ناچاقی کے لیے بی جے پی کی اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کی ہوس ذمہ دار ہے۔

کشمیر اور جنوبی ریاستوں کی مانند  بہار بھی ہنوز  زعفرانی   وزیر اعلیٰ سے محروم رہا ہے۔  جہاں امید ہی نہ ہو بی جے پی صبر کرلیتی ہے مگر بہار کے اندر جے ڈی یو سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی مجبوری بی جے پی والوں کو بہت کھلتی تھی اس لیے اس نے اپنے اتحادی کو کمزور کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور چراغ پاسوان کو اس کی سپاری دی۔  اس کے لیے انہیں اسمبلی الیکشن سے قبل این ڈی اے سے نکالنا پڑا۔ چراغ کی ذمہ داری چونکہ بیک وقت جے ڈی یو کو کمزور کرکے  بی جے پی کو طاقتور بنانا تھا اس لیے انہوں نے اپنے امیدوار   نتیش کمار اور حزب اختلاف   کے خلاف تو کھڑا کیے مگر بی جے پی  کو یہ کہہ کربخش دیا کہ وہ مودی یعنی رام کے ہنومان ہیں۔ یہ عجب تماشا تھا بہار کی رامائن میں ہنومان نے لکشمن کی بیخ کنی کا ارادہ کررکھا تھا۔ یہ کھیل بڑی بے حیائی سے کھیلا گیا اور چراغ پاسوان کے ذریعہ نتیش کمار پر نہایت رکیک   حملے کروائے  گئے۔

بی جے پی کو اس مقصد میں جزوی کامیابی ملی یعنی وہ نتیش کمار  کو تو 28 نشستوں کا نقصان پہنچا کر 43 پر لے آئی اور خود 22نشستوں کا اضافہ کرکے 74 پر پہنچ گئی مگر حکومت سازی کے لیے یہ کافی نہیں تھا کیونکہ لوک جن شکتی پارٹی 2سے گھٹ کر ایک پر کھسک چکی تھی اور اس کے ساتھ مل کرحکومت سازی کا ا مکان نہیں تھا۔   آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی  اس لیے اسے سرکار بنانے سے روکنے کی خاطر بادلِ نخواستہ نتیش کمار کو پھر سے وزیر اعلیٰ بنانا تو پڑا لیکن ایک پھانس تو لگ ہی چکی تھی۔ بہار کی سطح پر چراغ پاسوان الگ تھی لیکن قومی سطح پر این ڈی اے میں شامل تھی۔ نتیش  نے چراغ پاسوان کو این  ڈی اے سے نکال باہر کرنے پر اصرار کیا۔ اس مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے  کے بعد رام ولاس پاسوان کے بھائی  پشو پتی  پارس کو پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے این ڈی اے میں شامل کرکے چراغ کو بجھا دیا گیا۔  اس کے بعد نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ چلے گئے اور انڈیا کو کامیاب کرکے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے لگےلیکن بی جے پی ان کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ لے آئی۔ قومی انتخاب سے قبل پشو پتی کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرکے انہیں کنارے پر کیا گیا اور چراغ پاسوان کو پھر سے شامل کرلیا گیا مگر مجبوری کی اس شادی میں گھر سنسار کیسے اور کب تک  چلے گا؟

  این ڈی اے کے قدموں کی زنجیر یہی آپسی رنجش ہے اور اس کے لیے پہلے جیسی کامیابی حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے میں اگر انڈیا محاذ اکثریت سے قریب آجائے تو این ڈی اے کی  ڈوبتی کشی میں سے چھلانگ لگانے والوں میں سرِ فہرست نتیش کمار ہوں گے اس لیے اس صورت میں بی جے پی کے ہاتھوں  سے بلیک میلنگ کا ہتھیار چھن چکا ہوگا اور پلٹو رام کے لیے ایک اور پلٹی مارنے کا راستہ کھل جائے گا۔  ممتا بنرجی بھی یہی کریں گی اس لیے کہ  ان کے دونوں کے دل میں انڈیا اور زبان پر مجبوری کے سبب بی جے پی ہے۔  بہار کے اندر چچا بھتیجے یعنی چراغ اور پشو پتی کی رنجش بھی اس کو ملنے والی پانچ نشستوں پر کامیابی میں رکاوٹ بنے گی حالانکہ پچھلی بار وہ ۶ مقامات پر کامیاب ہوئے تھے۔  بی جے پی نے اس بار جے ڈی یو سے زیادہ نشستیں لے کر اپنے کوٹے سے جتن رام مانجھی کی ہندوستان عوام پارٹی کو سیٹ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک دوسرے سے شاکی  بھان متی کا یہ  کنبہ عوام کو کس حد تک متاثر کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

بہار کے پچھلے اسمبلی الیکشن میں بیرسٹر اسدالدین اویسی نے بڑا کھیل کرتے ہوئے اپنے 5؍ امیدواروں کو کامیاب کیا تھا جو بہت بڑی کامیابی تھی۔ آگے چل کر ان میں سے اخترالایمان کے علاوہ چار آر جے ڈی میں لوٹ گئےا س لیے کہ وہیں سے ٹکٹ نہیں ملنے کے سبب آئے تھے۔ اس بار ایم آئی ایم نے 16مقامات سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے نیزسیوان سے اپنے ٹکٹ پر یا آزاد حنا شہاب کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایم آئی ایم کو کل 1.24% ووٹ ملے تھے اور اس کے 20میں 5؍ امیدوار  اسمبلی میں جیتے تھے ۔ اس بار اس نے16؍پارلیمانی امیدواروں کو میدان میں اتارنے کا اعلان کیا ہے۔  یہ تعداد پچھلےانتخاب میں   15.39% ووٹ حاصل کرکے 43 نشستوں پر کامیاب ہونے والے وزیر اعلیٰ کی جماعت جے ڈی یو کے برابر ہے۔ اس موازنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم آئی  ایم کا ہدف کس قدر مشکل ہے۔

ایم  آئی ایم   وہ  جماعت جو  خود اپنے صوبے تلنگانہ میں 8؍ ارکان  اسمبلی اور ایک رکن پارلیمان کے باوجود اتنی نشستوں پر نہیں لڑتی مگر بہار میں بغیر کسی رکن پارلیمان اور ایک رکن اسمبلی کے ساتھ اتنے سارے حلقہ جات میں   قسمت آزمائی کررہی ہے۔ بہار کا  بیدار ذہن مسلم ووٹر  اسے کیسے لے گا یہ دیکھنے والی بات ہوگی ۔  حقیقت تو یہ ہے بہار میں اصل جنگ تیجسوی یادو اور نتیش کمار کے درمیان ہے اور ان کی عمر اور جوش کا فرق اہم ترین کردار ادا کرنے جارہا ہے۔ پٹنہ ریلی نے یہ پیغام دیا ہے کہ نوجوانوں کے لیے تیجسوی یادو میں زبردست کشش ہے۔ وہ پٹنہ کے ساتھ ساتھ ممبئی اور دہلی کی ریلیوں میں اپنی خطابت اور مقبولیت کا لوہا منوا چکے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہاری انتخابات کو وہ کس حد تک متاثر کرکے این ڈی اے کے جہاز کو غرقاب کرپاتے ہیں یانہیں ۔ان کے برعکس نتیش کمار کبھی تو چار ہزار ارکان پارلیمان کی کامیابی کا اعلان کرتے ہیں کبھی مودی جی کے پیر چھوکر خود کی تذلیل کرلیتے ہیں ۔ خیر  میدان اور گھوڑا دونوں سامنے ہے  اور نتائج کا انتظار ہے۔ بہار کاسیاسی  اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس قیاس آرائی جاری و ساری ہے ؟

 

 

 

Comments are closed.