ممبئی میں رمضان کی رونقیں

انظر حسین اختر کرہی
مقیم حال کاجو پاڑہ ممبئی

نہ جانے کیا کشش ہے ممبئی تیرے شبستاں میں
کہ ہم شام اودھ صبح بنارس چھوڑ آئے

ممبئی کو خوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے یہ بحر عرب کے مغربی ساحل پر آباد ہے یہ شہر اپنی صنعت و حرفت اور اقتصادی سرگرمیوں کی بنیاد پر ملک کی معاشی راجدھانی بھی کہلاتا ہے ۔ مختلف مذاہب اور تہذیب کا مرکز ہے ممبئی۔ گونا گوں خصوصیات کا حامل شہر ہے ممبئی ۔ اس شہر کی تجارتی اور صنعتی اہمیت نے ہندوستان کے ہر حصے کے افراد کو یہاں بسنے پر مجبور کیا،۔ جزیرہ نما ممبئی کو انگریزوں نے بنایا اور سنوارا تھا اور اسکی ترقی میں پارسی گجراتی مسلم میمن اور بوھرہ برادری نے کام کیا۔ اس خوبصورت شہر میں قدرتی مناظر کی دلکش اور تجارتی و ثقافتی اہمیت کے لحاظ سے مغرب کے کسی شہر سے بھی کم نہیں ہے یہ شہر ۔ اس لئے ممبئی کو شہروں کی دلہن کہا جاتا ہے ہمارے بچپن میں یہ مثال عام و خاص میں بڑی مشہور تھی کہ جس نے ممبئی نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا ہمارے محلہ میں جب وہ سنیما دکھانے والا جب اپنے کندھے سے چھوٹا سا سنیما تھیٹر کسی تناور درخت کے سایہ میں اتار کر رکھتا اور اپنے مخصوص انداز میں آواز دیتا کہ آؤ بچو میں تمہیں ممبئی کا شہر دکھاؤں آگرہ کا تاج محل دہلی کا لال قلعہ حیدرآباد کا چار مینار اور دہلی قطب مینار دکھاؤں ہم بچے بڑے شوق سے اسکی جانب دوڑ پڑتے اور اپنی جیب خاص سے خرچ کرکے اس چھوٹے سے سنیما گھر کے سوراخ میں اپنا سر ڈالے پورے ہندوستان کے مشہور مقامامات اور شہروں کی زیارت کرکے فخر محسوس کرتے محلہ میں اگر کوئی نیا ممبئی سے آتا تو اس سے ممبئی کے متعلق سوال کرتے اور ممبئی شہر کو لیکر اس سے وہاں کی روداد سنتے کہ کیسے ہیں وہاں کے لوگ اور کس طرح کا ہے وہاں کے لوگوں کا رہن سہن بڑا عالیشان ہوگا نا سب کے پاس اعلی معیار کا گھر اور سب کے پاس چمچماتی گاڑی ہوگی نا اور روشنیوں سے پورا شہر روشن ہوگا ۔ لیکن آج قدرت کو منظور ایسا ہوا کہ ہم یہاں کے مکین ہو گئے ۔ اور اس کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم ہوگیا ۔ ممبئی کا معیار زندگی بہت بلند ہے یہ تفریحی صنعت کا ایک مرکز بھی ہے جس کو محبت سے بالی ووڈ بھی کہا جاتا ہے بھارت کے بیشتر ارب پتی اور سرکردہ شخصیات اس شہر میں رہتے ہیں ممبئی کے تمام جگہوں کو ماہرین کے ذریعہ زندگی گزارنے کے لئے اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر میں جس جگہ مقیم ہوں یہ کاجو پاڑہ کے نام سے مشہور ہے کرلا کے اس مضافاتی علاقہ نے بہت تیزی سے ترقی کی۔ چند سالوں میں اس علاقہ نے دنیا میں اپنا مقام حاصل کیا گارمینٹ کپڑوں کی تجارت کی وجہ سے دنیا میں اس نے اپنی امتیازی شناخت بنائی ۔ دو دہے پہلے اسے نہ وہ شہرت حاصل تھی اور نہ یہ تجارت کی دنیا میں متعارف ہوا تھا لیکن چند سالوں میں جس سبک روی سے اس نے لیڈیس ملبوسات میں اپنا مقام بنایا وہ قابل تعجب اور لائق تحسین بھی ہے اس تجارت میں بڑی برکت اور خوشحالی ہے لیکن اگر اسے اس کے اصول پر کیا جائے شریعت نے تجارت کے بھی اصول و ضوابط طے کردیئے ہیں ہم لوگ اگر اس پر عمل کرلیں اور اس کے مطابق تجارت کریں تو ان شاء اللہ ساری پریشانی دور ہوجائے گی اور کاجو پاڑہ کا سابقہ دور واپس آجائے گا ۔ ویسے کاجو پاڑہ کے اکثر لوگ مہاجر ہیں ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے آکر یہاں بس گئے ہیں اس لئے انکے لئے اور ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود یہاں کی ایک اچھی بات بھی ہے کہ یہاں آکر ہم جیسے بہت سارے لوگ جنکی زندگی کا بیشتر حصہ ہجرت میں گذرا ہے وہ یہاں آکر اجنبیت بھول جاتے ہیں کیونکہ یہاں رہنے والوں میں ہر دوسرے شخص کا وطن مولد متحدہ ضلع بستی اور اس کے قرب و نواح کے اضلاع سے ہے ۔ ممبئی شہر کا جغرافیہ اگر دیکھا جائے تو بحر عرب کے ساحل پر بسا یہ شہر جنوب سے شمال کی جانب ایک پٹی کی طرح ہے قلابہ سے ماہم اور مشرق میں سائن اصل شہر ہے اس کے اطراف و اکناف میں ہمارا کاجو پاڑہ بھی ہے جو کرلا اور ساکی ناکہ کے وسط میں آباد ہے جسے ممبئی کا دوسرا مانچسٹر بھی کہا جا سکتا ہے ماہم کھاڑی اور میٹھی ندی کے اس پار مضافاتی علاقے ہیں ۔ ویسے تو ممبئی شہر دنیا بھر میں کئی وجہ سے مشہور ہے لیکن ایک سب سے اہم سبب اس کے شہرت کی ماہ صیام بھی ہے جب اس ماہ کی آمد ہوتی ہے تو اس دوران مساجد کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ ان میں نمازیوں کا رش کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس موقع پر نماز تراویح کی ادائیگی کا منظر بھی دیدنی ہوتا ہے۔ مساجد میں رات دیر تک بچوں جوانوں اور بزرگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور پھر سحر ی اور افطار کا سماں بھی قابل دید ہوتا ہے۔ پورا مہینہ مسلم اکثریت علاقوں کی مساجد کھلی رہتی ہیں وہیں ان علاقوں کے بازار بھی رات بھر کھلے رہتے ہیں اور 15 رمضان سے یہاں کی رونق دوگنی ہوجاتی ہے کاجو پاڑہ سے ملحق کرلا ہے جہاں ایک گلی کھاؤ گلی کے نام سے مشہور ہے کھانے پینے کے سارے ذائقے وہاں میسر ہیں ۔ اس کے علاوہ پورا کرلا ہوٹلوں کا بازار ہے بابا چائے کے علاوہ سہارا ہوٹل شالیمار ہوٹل پرسئین دربار بابا فالودہ بابا کی چائے اور دہلی ذائقہ اور نواب کا سیخ پراٹھا جے جے جلیبی اور اس کا مالپوہ ڈیلکس کا چکن پکوڑا عربین لقمہ بالخصوص یہاں کے بڑے معروف ہوٹل ہیں ۔ اور کاجو پاڑہ کے قریب کا جری مری بھی پوری رات کھانے کی شائقین کا مرکز بنتے جارہا ہے سہار ہوٹل اور صوفی چائے لوگوں کی پہلی پسند بن گیا ہے پوری رات یہاں کھانے کے شوقین کا ہجوم رہتا ہے یہاں کی گلیوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی ۔ ممبئی میں سحر و افطار میں خوب اہتمام کیا جاتا ہے شہر میں افطار کے بازار سجتے ہیں ۔ بازاروں میں انواع و اقسام کے پھل دستیاب ہوتے ہیں رمضان میں پھل کی تجارت بڑی نفع بخش ہوتی ہے جس کو دیکھتے ہوئے اس،ماہ میں دوسرے کاروبار سے وابستہ لوگ بھی کرایہ پر ٹھیلہ لیکر پھل کی دوکان لگا لیتے ہیں ۔ مسلم علاقوں میں افطاری سے قبل گہما گہمی بڑھ جاتی ہے لوگ عصر کی نماز کے بعد افطاری کے لئے بازار کا رخ کرتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ نظر آتا ہے افطاری کے بازار میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم ہاکر دونوں نظر آتے ہیں ۔ ماہ رمضان کی رونق دیکھتے ہی بنتی ہے کاجو پاڑہ کی گلیاں تنگ اور سڑک پر تا حد نگاہ سر ہی سر دکھائی دیتا ہے بھیڑ کو دیکھتے ہوئے یہاں کی انتظامیہ نے دو سال سے افطار کی بازار کا انتظام امبیڈکر میدان میں کر رکھا ہے تاکہ یہاں کی عوام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پیش آئے۔ اب کاجو پاڑہ بھی بدل گیا ہے یہاں کی اصل رابطہ سڑک جو کمانی سے ساکی ناکہ کو جوڑتی ہے اسکی بھی تعمیر و توسیع ہوچکی ہے سڑک کے درمیان لائٹ کھمبوں کو جدید قسم کی روشنیوں سے سجا دیا گیا ہے جو آٹو ریکسہ والے پہلے کاجوپاڑہ کا نام سنتے ہی اپنا ایکسیلیٹر تیز کرکے یہ کہتے ہوئے آگے نکل جاتے تھے نہیں بابا ہم وہاں نہیں جائیں گے ورنہ ہمارا سارا وقت خراب ہوجائے گااب ہر کوئی سواری یہاں آنے پر خوشی محسوس کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ کاجو پاڑہ بھی تبدیل ہوچکا ہے ترقی کی روشنی یہاں بھی پہنچ چکی ہے۔ ماہ رمضان کی آمد سے ہی شہر ممبئی کی فضا معطر ہوجاتی ہے دن خوشنما تو راتیں نورانی ہوجاتی ہیں۔ مجھے ممبئی آکر اس چیز کا مشاہدہ ہوا کہ اس ماہ میں شہر کے مسلمانوں کے روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی آجاتی ہے عام دنوں کے مقابلے مسجدیں بھری رہتی ہیں۔ مسلمان اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما لے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اختتام کو ہے آج رمضان کا تیسواں روزہ ہے کل یعنی جمعرات کو ان شاءاللہ عید منائی جائے گی اکثر مساجد میں تراویح ختم ہوچکی ہے کاجو پاڑہ کی جامع مسجد میں 27ویں شب کو ہی قرآن مکمل ہوچکا ہے اس موقع پر حضرت مولانا محمد ارشاد صاحب دامت برکاتہم استاذ مدرسہ کاجو پاڑہ جامع مسجد کا نورانی بیان بھی ہوا اس کے بعد رقت انگیز دعا ہوئی عصر حاضر کے در پیش مسائل جیسے اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا اور مصلیوں نے اللہ کے حضور گڑگڑاکر دعائیں مانگیں ۔ ساتھ ہی تمام کی صحت سلامتی درازی عمر دیگر ممالک میں مسلمانوں کو در پیش مسائل بالخصوص غزہ کے مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کی گئی ۔ کاجو پاڑہ مسلم اکثریتی بستی ہے یہاں کے لوگوں نے تراویح کا اہتمام دکان اور اپنے گھروں میں بھی کیا علماء و حفاظ کے اس مرکز میں تجارتی ترقی کے ساتھ دینی بیداری بھی ہے نماز کے اوقات میں مسجدیں بھری ہوتی ہیں اور رمضان میں یہاں کے لوگ دینی اداروں اور مسلم تنظیموں کو اپنی وسعت قلبی سے امداد کرتے ہیں پورے ہندوستان سے سفراء حضرات یہاں تشریف لاتے ہیں یہاں کے لوگ ان کا اکرام اور تعاون بھی کرتے ہیں کاجو پاڑہ کا میں تہہ دل سے شکر گذار ہوں کہ اس نے کچھ ایسے دوستوں سے ملاقات کرادی جن سے ملنے کی ساری امیدیں ختم ہوچکی تھیں کچھ ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جن سے فراغت کے بعد سارے رابطے منقطع یوچکے تھے اور کچھ تو ایسے جن سے سارے تعلق مکتب چھوٹتے ہی ختم ہوچکے تھے ۔ یہ سب رمضان کی برکت کا ہی نتیجہ ہے آج رمضان کا آخری دن ہے رات کا سہہ پہر ہے لیکن ممبئی ابھی بھی بیدار ہے ہر دو منٹ پر سر کے اوپر سے جہاز کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ بغل میں ہی ممبئی کا ایئر پورٹ ہے کل عید کی خریداری کیلئے گلی محلوں کی رونقیں جیسے دوبالا ہوچکی ہیں ایک بار پھر ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں جیسے بہاریں آگئی ہوں عید کی خریداری کے لئے بھنڈی بازار ناخدا محلہ اور کرلا بغداد کی بازاروں میں عوام الناس کی بھیڑ جمع ہوچکی ہے اج ماہ رمضان ہم سے رخصت ہو رہا ہے کل ان شاءاللہ امت مسلمہ عید منائے گی ہماری جانب سے بھی تمام قارئین اور اہل وطن کو عید کی بہت ساری مبارکباد اللہ ہم سب کے روزوں کو قبول فرمائے اور ہماری زندگی میں یہ دن بار بار لائے

*تیری آمد سے روشن ہوا تھا کون ومکاں*
*بزم میں افطار کی محفلیں سجتی تھی جہاں*
*اب تو جارہا ہے توسونا سونا ہے جہاں*
*الوداع الوداع اے ماہِ رمضاں*

انظر حسین اختر کریی
مقیم حال کاجو پاڑہ ممبئی

Comments are closed.