Baseerat Online News Portal

مساجد میں غیر مسلم سیاسی قائدین کی آمد اور ہمارا طرزعمل

 

ایس ایم صمیم، ناندیڑ

موبائل: 9960942261

 

حال ہی میں جمعیت علمائے ہند (ارشد مدنی) کی جانب سے ایک سیاسی پارٹی (کانگریس) کے لوک سبھا امیدوار کو مسجد میں مدعو کرنے کا واقعہ رونما ہوا، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی اور کی جارہی ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں اسلامی تاریخ اور سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جو ناندیڑ کی کسی مسجد میں برادران وطن کے کسی سیاسی وفد کو بلا کر ان کے ساتھ کوئی سیاسی معاہدہ یا سیاسی تعاون کی بات کی گئی ہو، دور نبوی ﷺ سے ہی یہ واقعات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن چونکہ ایسے حالات میں جب کہ چہار اکناف سیاسی ماحول گرم ہے کچھ حضرات اپنی سمجھ کے مطابق اس عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں اس تحریر کا مقصد کسی کو صفائی دینا نہیں بلکہ سیاسی اختلاف کی بناء پر علماء کرام کے اس عمل کو منفی پروپیگنڈہ بنانے سے پہلے اس کا تاریخی جائزہ لینا ہے۔

 

*غیر مسلموں کا مسجد میں داخلہ: ایک تاریخی جائزہ*

” عہدِ نبوی میں مسجد میں غیر مسلم فرد کا بھی داخلہ ثابت ہے اور پورے وفد کا بھی ۔ غزوۂ بدر کے بعد عمیر بن وہب مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں اللہ کے رسول ﷺ سے ملاقات کی ۔ وہ آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے ، لیکن آپ کی باتوں کو سن کر اسلام لے آئے ۔(سیرۃ ابن ہشام : 308/2) غزوۂ احزاب کے بعد قبیلۂ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال جنگ میں گرفتار ہوئے۔ انہیں لاکر مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں دیکھا تو رسّیاں کھول دینے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کی ۔ اس سے متاثر ہوکر وہ اسلام لے آئے ۔ ( بخاری : 462 ، مسلم : 1764) صلحِ حدیبیہ کے کچھ عرصہ کے بعد ابو سفیان تجدیدِ معاہدہ کے لیے مدینہ آئے تو وہ مسجدِ نبوی میں بھی گئے ۔ ( سیرۃ ابن ہشام : 13/4) فتح مکہ کے بعد جب اطراف سے وفود آنے لگے تو نجران سے عیسائیوں کا وفد آیا ، جو 60 افراد پر مشتمل تھا ۔ اس کے قیام کا انتظام مسجدِ نبوی میں کیا گیا ۔ غزوۂ تبوک کے بعد قبیلۂ ثقیف کا وفد مدینہ آیا تھا تو اسے مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا گیا ۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مسجد میں غیر مسلموں کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے

 

*دیگر واقعات*

ناندیڑ کہ علاوہ بھی مہاراشٹر کی مختلف مساجد میں برادران وطن کا آنا جانا ہے جس میں برادران وطن کی سیاسی سماجی، تعلیمی اور دیگر شخصیات کہ ساتھ تبادلہ بھی خیال ہوتا ہے یہ ایک اچھی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے علماء کرام دین کے تمام کاموں کو مسجد سے جوڑنے کی سعی کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں ۳ اپریل ۲۰۲۴ کو مہاراشٹر کے ایک بڑے سیاسی قائد *ونچت بہوجن آگھاڑی VBA* کے قومی صدر اور آکولہ لوک سبھا کے امیدوار ایڈووکیٹ پرکاش امیڈکر صاحب نے آکولہ کی مسجد الفلاح میں حاضری دی اور افطار میں شریک ہوئے اسی طرح *کانگریس* کے ایک بڑے لیڈر اور آکولہ پارلیمانی حلقہ کے امیدوار جناب ابھئے پاٹل صاحب بھی اسی وقت اس مسجد میں حاضر ہوکر افطار میں شریک ہوئے، پچھلے کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ناندیڑ کی ایک مسجد، مسجد افضل العلوم گلی نمبر 1 پیر برہان میں ونچت بہوجن آگھاڑی کے سرگرم کارکن انجینئر راج اٹکورے سر نے مسجد پریچئے پروگرام میں شرکت کی اور تبادلہ خیال کا حصہ بنے۔ برادران وطن کی مساجد میں آمد یا ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا یہ تاریخ یا ملک کا پہلہ واقعہ نہیں ہے جس کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جائز اور تنقید برائے اصلاح ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس کا استعمال علم و شعور کی بنیاد پر ہونا چاہئے کیونکہ سوچ اور صلاحیت کے اعتبار سے مومن مختلف ہوسکتا ہے مخالف نہیں۔

Comments are closed.