Baseerat Online News Portal

ایک خدا ترس عالِمِ دین کی وفات تحریر: مولانا آفتاب ندوی، دھنباد

آسنسول (مغربی بنگال) کے مولانا نسیم قمر ندوی کا 05؍ مئی 2024ء، مطابق 25؍ شوال 1445ھ، بروز اتوار ظہر کے وقت انتقال ہوگیا، (انا للہ و انا الیہ راجعون) عمر تقریبا چھپن سال تھی، مولانا نسیم قمر صاحب ایک باصلاحیت سنجیدہ اور ملت کو نفع پہنچانے والے عالمِ دین تھے، ندوۃ العلماء سے 1995ء میں رسمی تعلیم سے فراغت ہوئی، اس کے بعد جامعہ سید احمد شہید کٹولی ملیح آباد اور مدرسہ سید احمد شہید تکیہ رائے بریلی میں چند سال تدریسی خدمات انجام دیں، آسنسول جو مغربی بنگال کا کلکتہ کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے، خواتین میں نقاب اور مردوں میں ڈاڑھی، کرتا، ٹوپی کے رواج اور مساجد و مدارس کی وجہ سے اس شہر میں کسی بھی آنے والے کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی ہے کہ یہاں مسلمان اچھی تعداد میں بھی ہیں اور ملی زندگی میں جان بھی ہے؛ لیکن ہر بڑے شہر کی طرح یہاں بھی مسلمان معاشی و تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں، مولانا نسیم قمر صاحب جس علاقے میں رہتے تھے وہ ریل پار علاقہ کہلاتا ہے، قریب ہی میں ایک محلہ جھنگری ہے، کہا جاتا ہے اصل میں یہ جہانگیری محلہ ہے، جھنگری بولنا آسان تھا؛ اس لئے یہی جھنگری زبان زد خاص و عام ہوگیا، ان کا محلہ پرانا قبرستان ہے، اس پورے علاقے میں غریب اور کمزور مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے، مولانا نسیم قمر صاحب نے رائے بریلی چھوڑ کر مسلم لڑکیوں کی دینی و عصری تعلیم وتربیت کے لیے اس علاقے میں 2003ء میں ”مدرسہ خدیجۃ الکبری“ کی بنیاد ڈالی، مولانا کی انتھک محنت سے آج لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا یہ ایک معتبر ادارہ ہے، اہلِ خیر کے تعاون سے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خرید کر مدرسہ کی بلڈنگ تعمیر کروائی، گھر کے لوگوں نے پورا ساتھ دیا، خصوصا برادر زادے تنویر ذکی قوت بازو بن گئے، اسٹاف محنتی اور مخلص مل گئے، بھرپور دینی تعلیم کے ساتھ دسویں کلاس تک تعلیم ہوتی ہے، مدرسے کے پروگراموں میں بارہا مجھے شریک ہونے اور اس کی رفتارِ ترقی کے مشاہدے کا موقع ملا، مولانا علی میاں ندویؒ کے پوتے مولانا سید عبداللہ حسنی مرحوم کی سرپرستی میں بین مذاہب ڈائیلاگ کے متعدد کامیاب پروگرام منعقد کیے، بچوں کے لیے کئی کتابیں بھی مرتب کیں، شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا، مدرسے کے لئے ایک ترانہ بھی لکھا ہے، جامعہ ام سلمہ میں بھی یہ ترانہ پڑھا جاتا ہے؛

ہم شرم و حیا کے پیکر ہیں

ہم دخترِ ملت شاہ امم

 

مولانا نے اپنے خاندان کے بچوں اور بچیوں کی تربیت پر بھی توجہ دی، مولانا کی دونوں بیٹیاں اور اور بڑے بھائی کی دونوں پوتیاں اچھی حافظہ بھی ہیں، مولانا کے انتقال سے پانچ منٹ پہلے ان کے سامنے دوسری بیٹی کا عقد نکاح ہوا، رشتہ طے تھا، مولانا 2017ء سے بیمار چل رہے تھے، آسنسول، ویلور، بنگلور اور کلکتہ میں علاج کا سلسلہ چلا، بیماری میں برابر اتار چڑھاؤ رہا، جب طبیعت بہت گر گئی تو کلٹی کے ایک نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا، حالت کو دیکھ کر زندگی سے مایوس سے ہوگئے، مجھے معلوم ہوا تو میں عیادت کے لیے گیا، دماغی اعتبار سے صحت مند تھے، پر جسمانی اعتبار سے انتہائی کمزور، ہڈیوں کا محض ایک ڈھانچہ، دوسری بیٹی کا رشتہ طے تھا، انہوں نے اصرار کیا کہ نکاح ہوجائے، 04؍ مئی 2024ء کو نرسنگ ہوم سےگھر لائے گئے، 05؍ مئی 2024ء کو ظہر کے وقت ان کے سامنے دولہے کو بِٹھایا گیا اور نکاح پڑھا دیا گیا، نکاح کے پانچ منٹ کے بعد روح پرواز کرگئی، اور گھر میں کہرام مچ گیا، اکلوتا بیٹا حافظ عبد اللہ لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کی ایک شاخ میں زیر تعلیم ہے، مولانا ایک شریف اور متواضع انسان تھے، اللہ ان کی نیکیوں کا بہترین بدلہ عطا کرے، نیک اولاد اور مدرسہ خدیجہ الکبری کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے اور بچوں، بچیوں، اہلیہ، بھتیجے تنویر ذکی، توقیر ندوی اور تمام اقارب و اہلِ تعلق کو صبرِ جمیل کی توفیق دے۔ آمین

آج بروز سوموار (06؍ مئی 2024ء) صبح ساڑھے آٹھ بجے گھر سے متصل عیدگاہ میں نماز جنازہ اور محلے کے مقبرے میں تدفین ہوئی۔

Comments are closed.