Baseerat Online News Portal

پروفیسر سید محمد طارق حسن صاحب رحمہ اللہ جوار رحمت میں

 

از : محمد عفان منصورپوری

مدرس مدرسہ اسلامیہ عربیہ

جامع مسجد امروھہ

 

یہ خبر علمی و دینی ، ملی اور سماجی حلقوں میں بڑے رنج و افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ کے مؤقر مہتمم ، تواضع ، سادگی اور خاکساری کے پیکر شریف الطبع اور کریم النفس انسان ، امام شھر امروھہ اور سابق صدر شعبہ فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید محمد طارق حسن صاحب نور اللہ مرقدہ گذشتہ شب راہی ملک بقاء ھوگئے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

 

ھمارے مہتمم صاحب گرچہ پچھلے کئی سالوں سے علیل چل رھے تھے ، عمر کے ساتھ ساتھ ضعف بھی بڑھتا جارہا تھا جس کی بناء پر زیادہ وقت علی گڑھ ھی میں گزرتا تھا امروھہ آنا بھی بہت کم ھوگیا تھا لیکن ان کا وجود ، سرپرستی اور دعائیں برابر کارفرما تھیں جس کے اثرات مدرسہ کے ماحول میں عیاں تھے مگر افسوس آج ھم سب پدرانہ شفقت کا مظاھرہ کرنے والے مہتمم صاحب کی سرپرستی اور دعاؤں سے محروم ھوگئے ۔

 

باری تعالٰی مرحوم کی مغفرت تامہ فرمائیں ، درجات بلند فرمائیں ، پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل سے نوازیں اور مدرسہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائیں ۔

 

آپ کی تاریخ ولادت 20 اپریل 1943 ھے ، پرائمری پنجم اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ میں حاصل کی ، بعد ازاں امام المدارس انٹر کالج امروھہ سے پہلے ھائی اسکول پھر انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا ، اس کے بعد رام پور رضاء ڈگری کالج سے بی اے پاس کرکے 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں فرسٹ پوزیشن سےایم اے کیا اور گولڈ میڈل اعزاز کے مستحق قرار دئے گئے ، پھر آپ نے ملک کے معروف فارسی اسکالر پروفیسر نذیر احمد کے زیر نگرانی ھندوستان میں لکھی جانے والی ساتویں فارسی لغت ” شرف نامہ احمد منیری ” کی تصحیح و تدوین کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھا جس پر 1970 میں آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ھوئی ، اسی سال آپ شعبہ فارسی میں لکچرار مقرر ھوئے چھ سات سال عارضی طور پر کام کرنے کے بعد 1977 میں مستقل طور پر لکچرار مقرر ھوگئے پھر ترقی کرکے 1984 میں ریڈر اور 1991 میں پروفیسر مقرر ھوئے ، 1996 میں آپ کو صدر شعبہ فارسی بنایا گیا پھر 2005 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ھوئے ۔

2009 میں فارسی زبان و ادب کی وسیع تر خدمات کے تناظر میں آپ کو صدر جمہوریہ ھند ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ، بعد ازاں 2015 میں حکومت راجستھان کی جانب سے بھی آپ کو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔

مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ آٹھ سے زائد کتابیں آپ کے گہربار قلم سے منصہ شہود پر آئی ھیں ، نثر نگاری کے ساتھ اردو و فارسی شعر گوئی کا ستھرا ذوق بھی آپ رکھتے تھے ۔

 

 

مہتمم صاحب رحمہ اللہ سادات امروھہ کے اس معروف خانوادے سے تعلق رکھتے ھیں جس کا علم و فضل سے گہرا رشتہ رھا ھے ، آپ کے جد بزرگوار عارف باللہ حضرت حافظ سید زاھد حسن صاحب رحمہ اللہ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ کے مجاز و خلیفہ اور خاص تربیت یافتہ لوگوں میں تھے ، حج کے سفر پر گئے تو تقریبا ڈیڑھ برس مکہ مکرمہ میں حاجی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں رھے اور آپ سے مثنوی مولانا روم درسا پڑھی ، حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے بھی آپ بڑی قربت اور گہری عقیدت رکھتے تھے ، امروھہ میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے میزبان آپ ھی ھوا کرتے تھے ، مہتمم صاحب کے والد گرامی حضرت مولانا سید حامد حسن صاحب علیہ الرحمہ بھی صاحب علم ھونے کے ساتھ اعلی درجہ کے منتظم اور روایات اکابر کے امین تھے ، عرصہ دراز تک مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ کے منصب اھتمام پر آپ فائز رھے ۔

 

مہتمم صاحب رحمہ اللہ واقعتا نمونہ اسلاف اور اپنے بزرگوں کی زندگی کے آئینہ دار تھے ، آپ کی زندگی کا طویل عرصہ اگرچہ کالجوں اور یونیورسٹی میں گزرا لیکن خاندانی شرافت و دینداری ، اعلی ظرفی اور اخلاق و کردار کی بلندی اسی طرح روایات اکابر کی پاسداری آپ کی ذات میں نمایاں رھی ۔

 

*اپریل 2007 میں آپ کے برادر خورد حضرت مولانا مفتی سید محمد قاسم صاحب نور اللہ مرقدہ کے اچانک انتقال کے بعد مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ کے اھتمام کی ذمےداری آپ کے کاندھوں پر آگئی ۔*

*اس میدان کا تجربہ نہ ھونے اور مختلف نزاکتوں کی وجہ سے آپ نے اس اھم ذمے داری کو قبول کرنے کے سلسلہ میں سختی کے ساتھ اظھار معذرت کی لیکن اراکین شوری کے اصرار پر اس بار گراں کو آپ نے قبول کیا اور پھر جس خوش اسلوبی کے ساتھ امور مدرسہ کو انجام دیا اس کا ھر شخص معترف و قائل ھے ، بلاشبہ آپ کا دور اھتمام مدرسہ کی تاریخ میں روشن باب کی حیثیت رکھتا ھے ، تعلیمی اور تعمیری ھر اعتبار سے مدرسہ نے اس دوران جن بلندیوں کو چھوا ھے اس میں مہتمم صاحب کے خلوص و للہیت اور آہ سحر گاھی کا بڑا دخل ھے ۔*

 

*مدرسین و ملازمین اور طلبہ عزیز کے ساتھ آپ کا معاملہ بڑا کریمانہ و مشفقانہ تھا ، کسی بھی موقعہ پر اور کبھی بھی اساتذہ کرام کو مخاطب کرتے ھوئے آپ کے لہجہ میں تلخی ، ترشی ، اظہار برتری اور تعلی محسوس نہیں کی گئی ، لینت اور نرم مزاجی آپ کا شیوہ تھا ، انتظامی اور تدریسی معاملات میں گفتگو کرتے وقت بارہا اشکبار ھوجاتے جس کا ھر ساتھی کے دل پر گہرا اثر ھوتا تھا ، اساتذہ کرام کے لئے تنخواہوں میں اضافے اور ان کو مختلف مراعات دینے کے لئے آپ خود کوشاں رھتے اور مجلس شوری میں اساتذہ کی جانب سے بحیثیت وکیل گفتگو فرماتے ۔*

*مدرسہ میں معیار تعلیم کو بلند کرنے کی غرض سے مختلف لوازمات کو مہیا کرنے ، طلبہ کی تعداد میں اضافے اور ان کو خاطر خواہ سہولیات فراہم کرنے اور حسب ضرورت تعمیری کاموں کو انجام دینے کے حوالے سے آپ ھمیشہ کشادہ قلبی کا معاملہ فرماتے رھے ، کبھی بجٹ کی پرواہ نہیں کی بلکہ فرماتے تھے ھماری نیت اگر درست ھوگی تو اللہ پاک اسباب و وسائل ضرور پیدا کریں گے جو کچھ ھورھا ھے وہ بھی انہیں کے کرم سے ھے اور جو آئندہ ھوگا وہ بھی فضل الہی کا نتیجہ ھوگا ، آپ تو اردہ کرکے نیک نیتی کے ساتھ قدم بڑھائیں اللہ پاک کی نصرت شامل حال ھوگی ۔*

 

بندے کے ساتھ روز اول سے آپ نے جس خورد نوازی ، کرم فرمائی اور اپنائیت کا معاملہ فرمایا وہ بے مثال ھے ، جزاھم اللہ احسن الجزاء ۔

 

جمعیت علماء ھند اور اسکی تحریکوں سے آپ کو خاصی دلچسپی رھی ، کئی ٹرم امروھہ یونٹ کے صدر رھے اور جمعیت علماء صوبہ یوپی کے نائب صدر و رکن عاملہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رھے ۔

 

دکھ کی اس گھڑی میں ھم مہتمم صاحب کے جملہ اھل خانہ بالخصوص اھلیہ محترمہ ، برادر گرامی پروفیسر سید محمد ھاشم صاحب ، صاحبزادہ محترم پروفیسر سید نعمان طارق صاحب اور چاروں صاحبزادیوں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ھیں اور دعاگو ھیں کہ اللہ رب العزت و الجلال مرحوم کو اپنی رضا و رضوان سے نوازیں اور خدمات جلیلہ کا بہترین بدلہ عنایت فرمائیں ۔

Comments are closed.