ضبط

نگار فاطمہ انصاری
سنا ہے تو اداس رہتا ہے
مجھے چھوڑ کر میری یادوں کے ساتھ رہتا ہے
کیا یہ سچ ہے؟
تجھ کو معلوم ہے ضبط کی کس حد سے گزرے
اپنےہاتھوں سے زنجیر بپا ہویے
تاکہ خودکشی کے خیال کو درگزر کیا جا سکے
میں نے کتنے ہی منت و مراد کے ہر ستارے کو ٹوٹتے دیکھا
تاکہ ایک تیری مراد پوری ہو سکے
تخیل سے تمام کاغذ کالے ہو گئے
اور کتنے ہی پنجرے زنگ آلودہ ہو گئے
تاکہ تجھ کو آزاد کیا جا سکے
تیرے ہجر کی حرارت سے گلیشروں کی برف پگھلنے لگی
گویا تیرے دیدار کی چاہت میں چاند بھی دھرتی کے چاروں اور گھومنے لگا
تو تم اب لوٹ آئے ہو
جب میں عشق کے ساتوں مقام عبور کر چکی ہوں
اور میری آنکھوں کی روشنی جا چکی ہے
بلاشبہ یہ رایگانی اے حیات تیری امانت ہے
تو پھر تم کیوں لوٹ آئے ہو؟
اور ساتھ میں سرخ گلاب لایے ہو
اے ستمگروں کے استاد
اے حسن- اے- بے مثال اب
بتا اب تجھ کو کیا نام دو۔؟
Comments are closed.