صدائے بنت حوا

نگار فاطمہ انصاری

قطرۂ انجمن میں دست قدرت
سوز دل شعلہ آب ہے!
پہلو میں لہو باقی ہے ابھی
بہر صورت ساقی!
خیمے میں میرے شب روز دھنواں اٹھتا رہا
ہاے تم غافل ہی رہے!
میری آغوش میں سرخ معصوم کلیاں
مرجھا گیے سرخ پھول سبھی
صدائے تم تلک پہنچی نہ کبھی ؟
اسی سر زمیں پے مجھے برہنہ کرنے کی کوشش کی گئی
تم نے خاموشی سے یہ تماشا دیکھا؟
درندگی جب تمہیں چرم پے لے آئی
عزت نفس نے مجھے جوہر تک پہنچایا۔
صداۓ تم پھر بھی نہ سن سکے ؟
شب روز میری رداوؤں کو نوچآ گیا!
راوڑ جیسے ظالم سے اگر میں بچ نکلی
تو تمہارے شکوک وشبہات کے ہتۓ چڑھ گئ!
ہاۓ تم پھر بھی غافل ہی رہے!
اور یہ سلسلہ یو ہی مسلسل جاری رہا
کتنی ہی کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئیں 
اور تم اندھیروں میں ہی ر ہے؟
ہاتھوں میں شمع تھامے اب میں روشنی کے ساتھ آئی ہوں۔
اگر تم اب بھی خاموش رہے!
تو یاد رکھنا روز محشر میرے ہاتھ تمہارے دست گریباں پےہونگے۔!

Comments are closed.