بارباڈوز کا ایک یادگار سفر

 

مفتی محمد عفان منصورپوری

صدرالمدرسین و استاذ حدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ

 

15 جولائی 2024 سوا گیارہ بجے لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ سے ھم نے اڑان بھری اور بحر اٹلانٹک کے اوپر سے مسلسل نو گھنٹے کی پرواز کے بعد ھم جب باربڈوز ائرپورٹ پر پہنچے تو شام کے سوا تین بج رھے تھے ، اس طویل دورانیہ میں سمندر کے عرض اور اس کی چوڑائی کو عبور کرتے ھوئے جہاز صرف پانی پر اڑتا رھا جس سے سمندر اور عالم بحر کی وسعتوں کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ھے ۔

 

ماہرین کے مطابق سمندروں نے زمین کے 75 فیصد حصے کو گھیر رکھا ھے ، بحر اٹلانٹک جس کو بحر اوقیانوس یا بحر ظلمات بھی کہاجاتا ھے دنیا کے پانچ بڑے سمندروں میں سے بحر الکاہل کے بعد دوسرا بڑا سمندر ھے جو زمین کے بیس فیصد حصے کا احاطہ کئے ھوئے ھے ، جس کی کم سے کم چوڑائی 2848 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 4830 کلومیٹر ھے ، سمندر کے اسی حصے کو عبور کرکے ھم برطانیہ سے کیریبین جزیرے باربڈوز پہنچے تھے ۔

 

باربڈوز کا ائرپورٹ زیادہ بڑا نہیں ھے ، ھم جہاز سے اترکر پیدل چلتے ھوئے ائرپورٹ کی عمارت میں داخل ھوگئے ، جہاں ھر مسافر کو خودکار مشینوں کے ذریعہ پاسپورٹ کی اسکیننگ scanning کرنی تھی اور اسی مشین کے ذریعہ پوچھے جانے والے سوالات کا تحریری طور پر جواب دینا تھا ، ھمارے لئے یہ نیا تجربہ تھا ، لیکن سہولت محسوس ھوئی ، امیگریشن کی لمبی لائنوں میں لگ کر انتظار کے بجائے محض پانچ منٹ میں ھم ضروری کارروائی سے فارغ ھوگئے اور اگلے کاؤنٹر پر داخلہ مہر ( entry stamp ) لگواتے ھوئے ائرپورٹ کے باھری دروازے پر آگئے ۔

 

یہاں ھمارے میزبان محترم جناب مولانا سراج بھانا صاحب اپنے احباب کے ھمراہ استقبال کے لئے موجود تھے ، مولانا سے ھماری رو بہ رو یہ پہلی ملاقات تھی ، موصوف دارالعلوم بری ، برطانیہ سے فارغ التحصیل ھیں ، ملک کے متحرک ، سرگرم اور جید علماء میں ان کا شمار ھوتا ھے ، ایک مدرسہ کی نظامت اور تدریس کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ ٹائلس اور بلڈنگ میٹیریل کے بڑے کاروبار سے بھی وابستہ ھیں ۔

مدرسہ سراج العلوم کے نام سے قائم ایک دینی ادارہ مولانا کے زیر اھتمام خدمات انجام دے رھا ھے ، مدرسہ میں حفظ و ناظرہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دورہ حدیث شریف تک تعلیم کا معقول بندوبست ھے ، اسی مدرسہ میں ختم بخاری شریف کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ میں شرکت کی غرض سے مولانا نے ھمیں مدعو کیا تھا ۔

 

ائرپورٹ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک مسجد میں ھم نے ظہر کی نماز ادا کی بعد ازاں تقریبا آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ھم میزبان محترم کے نئے تعمیر شدہ ، وسیع ، خوبصورت اور ھر طرح کے اسباب راحت سے آراستہ مکان میں پہنچ گئے ، اللہ تعالٰی *بیت سراج* کو نظر بد سے محفوظ فرمائیں ، مبارک فرمائیں اور اھل خانہ کو برتنے کے خوب خوب مواقع میسر فرمائیں ۔

 

*حسن اتفاق*

 

یہاں ھماری ملاقات معروف اور بزرگ عالم دین ، علوم حدیث و فقہ اسلامی کے شناور اور تحقیقی مزاج رکھنے والی شخصیت حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث مدرسہ جامع العلم والہدی دارالعلوم بلیک برن ، برطانیہ سے ھوئی ، حضرت مولانا محدث عصر حضرت مولانا محمد یونس صاحب نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث مدرسہ مظاھر العلوم سہارنپور کے خصوصی تلامذہ اور تربیت یافتگان میں سے ھیں اور حضرت شیخ کی صحبت میں رہکر ان کے کمالات علمیہ اور ذوق مطالعہ سے خوب مستفید ھوئے ھیں ، جس کے نمایاں اثرات حضرت مولانا کی تدریس اور گفتگو سے مترشح ھوتے ھیں ۔

یہ ھمارے لئے خوش قسمتی کہ بات تھی کہ باربڈوز کے اس پانچ روزہ سفر میں ترتیب دئے جانے والے تمام پروگراموں میں حضرت مولانا کی معیت میسر ھوئی ، آپ کی علمی اور پر از معلومات گفتگو سے استفادہ کا خوب موقع ملا ، اس دوران آپ نے اس طالب علم کے ساتھ جس شفقت و اکرام اور خورد نوازی کا معاملہ فرمایا وہ بیان سے باھر ھے ، جزاھم اللہ تعالی احسن الجزاء ۔

حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب دامت برکاتہم کے باتوفیق صاحبزادہ گرامی جناب مولانا مفتی یوسف شبیر صاحب زید علمہ بھی اس قافلہ میں شامل رھے ، مولانا یوسف صاحب بھی عربی اور انگریزی میں تحریر کردہ کئی کتابوں کے مصنف ھیں اور بہت اچھا علمی اور مطالعتی ذوق رکھتے ھیں ۔

19 / جولائی کو پھر حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب کے ھمراہ ھی ھماری لندن واپسی ھوئی ۔

 

 

*باربڈوز کا تعارف*

 

ھم ویسٹ انڈیز کو ایک ملک کے طور پر جانتے ھیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ ویسٹ انڈیز کسی مستقل ملک کا نام نہیں بلکہ بحر اوقیانوس caribbean sea کے آس پاس بکھرے ھوئے سات ھزار جزائر پر مشتمل علاقے کا نام ھے ، ان جزیروں کے صرف دو فیصد علاقے پر انسانی آبادی ھے جو لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ ھے ، یہاں تیرہ آزاد اور اٹھارہ محکوم ریاستیں آباد ھیں جو جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر پھیلی ھوئی ھیں ان ھی میں سے ایک آزاد ریاست باربڈوز ھے ، جو دنیا کا بڑا سیاحتی مرکز ھے اور چاروں طرف سے سمندر سے گھرا ھوا ھے ، اس کی مجموعی آبادی تقریبا پانچ لاکھ ھے ، عیسائی اکثریتی ملک ھے ، نوے فیصد آبادی ان افریقی نسل سیاہ فام لوگوں کی ھے جن کو سترہویں صدی میں انگریز غلام بناکر یہاں لائے تھے ، پرانے ریکارڈ سے معلوم ھوتا ھے کہ ان افریقیوں میں تیس پرسینٹ سے زائد مسلمان بھی تھے لیکن یہاں آکر وہ اپنے مذھب پر قائم رھے ھوں یا کوئی دینی خدمت انجام دی ھو تاریخ میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ، معلوم نہیں وہ کہیں ھجرت کرگئے یا غیروں میں ضم ھوگئے اللہ پاک ھی بہتر جانتے ھیں ۔

 

در اصل اس جزیرہ پر بھی انگریزوں نے زبردستی تسلط حاصل کرنے کے لئے یہاں کے اصل باشندوں پر بڑے مظالم کئے تھے یا تو انہیں سمندر میں ڈبوکر مار ڈالا گیا تھا یا ترک وطن پر مجبور کردیا گیا تھا اور انگرہز اس جزیرے پر قابض ھوگئے تھے ، اس کے بعد محنت و مزدوری ، کاشتکاری ، باغبانی اور دوسرے کاموں کے لئے افریقی لوگوں کو یہاں لایا گیا ، اب انہی کی بھاری اکثریت ھے ، وھی نظام حکومت چلاتے ھیں اور ھر شعبے کے کلیدی عہدے انہی کے پاس ھیں ، بظاھر انگریزی تسلط سے اس قوم کو آزادی تو مل گئی ھے لیکن بعض قوانین ایسے ھیں جس کی بنا پر انگریزوں نے اپنے مفادات کے حصول کا راستہ کھول رکھا ھے ۔

 

*مسلمانوں کی آمد اور ان کا تناسب*

 

یہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بہت معمولی ھے ، محض چار ھزار کے قریب مسلمان آباد ھیں جن میں ننانوے فیصد ھندوستان کے صوبہ گجرات سے تعلق رکھنے والے احباب ھیں ، کچھ لوگ جزیرہ گیانا ، ٹرانیڈاڈ اور خلیجی ممالک کے بھی ھیں ۔

 

تاریخ سے پتہ چلتا ھے کہ 1910 میں بشارت علی دیوان کے نام سے یہاں سب سے پہلے ھندوستان کے صوبہ بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان کی آمد ھوئی ، انہوں نے یہیں شادی کی اور سکونت پذیر ھوگئے اس کے بعد 1929 میں برازیل سے کچھ گجراتی مسلمانوں کا آنا ھوا جنہیں کاروباری اور رھائشی اعتبار سے یہ علاقہ پسند آیا تو یہیں قیام پذیر ھوگئے اور اپنی دینی شناخت کے ساتھ رفتہ رفتہ کاروباری اعتبار سے ترقی کرتے چلے گئے ، انہی کی برکت سے یہاں مسلمانوں کو دینی اور معاشی اعتبار سے استحکام حاصل ھوتا چلا گیا ۔

 

*حضرت مولانا محمد یوسف صاحب پیپراوالا دامت برکاتہم*

 

 

اس وقت باربڈوز میں نہایت روشن تاریخی کردار کی حامل شخصیت نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد یوسف صاحب پیپراوالا ( ولادت :15 ذی الحجہ 1342ھ مطابق 17 جولائی 1924 ) دامت برکاتہم کی ھے ، ھم بغرض ملاقات حضرت کے دولت کدہ پر حاضر ھوئے ، حضرت مولانا کی عمر قمری تاریخ کے اعتبار سے اس وقت ایک سو تین سال ھے ، ضعف کی بنا پر اگرچہ وہیل چیئر پر رھتے ھیں لیکن الحمد للہ چہرہ بہت بارونق و نورانی ھے ، یادداشت وغیرہ بالکل صحیح ھے اور مسلمانوں کی سرپرستی اور جملہ دینی امور کی نگرانی کا فریضہ آج بھی انجام دے رھے ھیں ، مولانا کا آبائی وطن کفلیتہ ضلع سورت ، گجرات ھے ، حفظ کلام اللہ اور ابتدائی تعلیم آپ نے گاؤں ھی میں حاصل کی ، اعلی تعلیم کی حصولیابی کے لئے 16 سال کی عمر میں جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل چلے گئے جہاں سے 1948 میں سند فراغت حاصل کی ، یہاں آپ کو دیگر اساتذہ کرام کے علاوہ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رحمہ اللہ سے بھی شرف تلمذ حاصل ھوا ۔

 

فراغت کے بعد چار سال کفلیتہ میں پڑھایا ، اس کے بعد ڈابھیل میں بھی مدرس حفظ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔

1965 میں حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب نور اللہ مرقدہ کی ھدایت پر برطانیہ ھوتے ھوئے آپ باربڈوز تشریف لائے ، یہاں پہنچ کر آپ کو حضرت جی نور اللہ مرقدہ کے وصال کی خبر موصول ھوئی ، اس وقت یہاں مسلمانوں کی تعداد تین سو سے متجاوز نہ تھی ، آپ نے یہاں جامع مسجد میں امامت کے ساتھ مدرسہ قوت الاسلام میں بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور دعوت و تبلیغ کی راہ سے مسلمانوں میں جذبہ عمل کی روح پھونکی ، اس سے پہلے یہاں دعوت کی محنت عام نہیں تھی ، حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب نے خاص طور پر یہ ھدایت دے کر مولانا کو بھیجا تھا کہ مسلمانوں کو مذھبی شناخت اور ایمانی امتیازات و خصوصیات کے ساتھ زندگی گزارنے کا پابند بنایا جائے کیونکہ غیروں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بہت کم ھے کہیں ایسا نہ ھو کہ وہ ان سے متاثر ھوکر اپنی پہچان ھی کھو بیٹھیں مولانا یوسف صاحب نے انہی خطوط پر محنت کی ، سرد و گرم حالات کو برداشت کیا ، تبلیغ و دعوت کے کام سے لوگوں کو جوڑا تا آنکہ 1968 میں پہلی مرتبہ مولانا یوسف صاحب کی امارت میں 15 افراد پر مشتمل ایک جماعت چلے کے لئے نکلی اور باربدوز کے علاوہ کیریبین جزیروں میں سے ٹرینیڈاڈ ، گیانا اور سورینام وغیرہ میں بھی کام کیا ۔ مولانا نے باربڈوز میں قیام مکاتب پر خاص توجہ دی ، خود بھی سالہا سال تک مکتب میں پڑھاتے رھے اور پوری کمیونٹی کو دین سے اس طرح جوڑا کہ اب الحمد للہ صورتحال یہ ھے اگر یہ کہاجائے کہ سو فیصد مسلم گھرانے مکاتب دینیہ سے مربوط ھیں تو خلاف واقعہ نہیں ھوگا ،

مساجد اور دیگر مقامات پر استحکام کے ساتھ مکاتب کا نظام جاری ھے ، بڑی عمر کی بچیوں کے لئے مختلف گھروں میں یا مستقل مقامات پر باضابطہ دینی تعلیم کا نظم ھے ، انہی بنیادی محنتوں کا نتیجہ ھے کہ مسلمان مردوں اور عورتوں میں تدین غالب ھے ، مستورات میں پردے کا اھتمام ھے ، مرد حضرات بھی اکثر باشرع ھیں ، انداز رھائش اور پہناوے میں سادگی ھے ، اسلامی روایات کے امین ھیں اور بحمدہ تعالی پوری آزادی کے ساتھ مذہبی شعائر پر عمل پیرا ھیں ، معاشی اعتبار سے بھی بحمدہ تعالی مستحکم ھیں ، حکومتی ذمےداران یا یہاں کے غیر مسلم حلقوں کی جانب سے کسی طرح کی دشواری ، متعصبانہ رویہ یا مذہبی تقاضوں پر عمل میں رکاوٹ کی کسی بھی صورتحال کا سامنا مسلمانوں کو نہیں کرنا پڑ رھا ھے ۔

 

 

*مساجد و مدارس*

 

باربڈوز میں چار مسجدیں ھیں ، جامع مسجد ، مکی مسجد ، مدینہ مسجد اور مسجد نور ۔ ان کے علاوہ متعدد مصلے بھی ھیں جہاں پنج وقتہ باجماعت نمازوں کی ادائیگی کا اھتمام ھوتا ھے ۔

 

ماشاء اللہ تمام مساجد تعمیراتی حسن اور اسباب راحت کی فراوانی کے ساتھ مصلیان سے آباد ھیں ۔

دو بڑے مدرسے ھیں جہاں درس نظامی کی تکمیل ھوتی ھے ایک مدرسہ کا نام مدرسہ سراج العلوم ھے جس کے مہتمم جناب مولانا سراج بھانا صاحب ھیں جبکہ دوسرے مدرسے کا نام مدرسہ دعوت الحق ھے جس کے مہتمم مفتی سعید آدم صاحب ھیں ، ان کے علاوہ مکاتب دینیہ کا الحمد للہ ایک جال ھے جس میں لڑکوں و لڑکیوں کے لئے منظم دینی تعلیم کا معقول بندوبست ھے ۔

مسلم منیجمنٹ کے عصری تعلیمی ادارے بھی ھیں اور اسلامک اکیڈمی باربڈوز کے نام سے ایک تریتی ادارہ بھی حضرت مولانا محمد سلیم صاحب دھورات دامت برکاتہم کی زیر نگرانی خاص طور پر نوجوانوں کو ھدف بناکر قابل تعریف خدمات انجام دے رھا ھے ۔

 

 

*ساحل سمندر*

 

باربڈوز قدرتی حسن سے مالا مال ، پرفضا ، ھرا بھرا ، ھر چہار جانب سمندر سے گھرا ھوا اور معتدل موسم کا حامل ایک خوبصورت جزیرہ ھے ، یہاں سمندر کا پانی بھی بہت صاف اور پرسکون ھے اور ساحلی علاقہ بھی نہایت ستھرا ھے ، نرم ، ریتیلی زمین پر ننگے پاؤں چلنے کا الگ ھی احساس ھوتا ھے ۔

 

*صبح کا سہانا وقت ، جب سمندر کی موجیں اٹھکھیلیاں کررھی ھوتی ھیں اور ان سے اٹھنے والے پانی کا شور بھینی بھینی فرحت بخش ھواؤں کے دوش پر قریبی درختوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ سے ٹکراتا ھے تو یہ آوازیں فضاء میں گونجنے والے ایسے دلنشیں نغموں کی شکل اختیار کرلیتی ھیں کہ انسان اپنے غم غلط کرکے قدرت کے حسین نظاروں میں اور فطری رونق کی بہاروں میں گم ھوجاتا ھے اور زبان حال و قال سے اس قادر مطلق کے گن گان کرنے لگتا ھے جس نے اس کہکشان رنگ و بو کو وجود عطاء کرکے قدرت کے ایسے ایسے مظاھر پیدا کئے جو اس کے جمال میں چار چاند لگانے والے ھیں ۔*

 

ھم لوگ تینوں دن صبح کے وقت ساحل سمندر کی طرف نکل جاتے تھے ، دور دور تک ھم لوگوں کے سوا اس وقت کوئی دکھائی بھی نہیں دیتا تھا ، کئی گھنٹے وھاں رھنا ھوتا ، چہل قدمی بھی ھوتی ، سمندر کے پانی میں بھی کچھ دیر کے لئے جاتے ، مولانا یوسف شبیر صاحب کے ساتھ jet ski ( سمندر اور پانی کی سطح پر چلنے والی موٹر سائکل نما ایک سواری ) پر بیٹھکر سمندر میں اتنی دور تک گئے جہاں تا حد نگا چاروں طرف پانی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رھا تھا ، اس،دوران علمی گفتگو بھی ھوتی ، ایک روز تو اسی ساحل پر سمندر کی لہروں کے قریب ریت پر بیٹھکر درس حدیث کی مجلس بھی آراستہ ھوئی ، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب دامت برکاتہم کی موجودگی میں اساتذہ و طلبہ نے قراءت حدیث کا شرف حاصل کیا ۔

 

*داخل سمندر کا نظارہ*

 

باربڈوز میں submarine ( پن ڈبی یا آب دوز ) کے ذریعہ داخل سمندر کی سیر بھی کرائی جاتی ھے ، احباب نے پروگرام میں اس سفر کو بھی شامل کررکھا تھا جس کے لئے پہلے سے بکنگ کرانی پڑتی ھے ۔

چنانچہ ایک موٹر بوٹ کے ذریعہ ساحل سے کافی دور کھڑے پانی کے اندر جانے والے ایک آب دوز پر ھمیں لایا گیا ، جس کی صرف چھت پانی سے اوپر تھی اور نیچے کا پورا حصہ پانی میں ڈوبا ھوا تھا ، ھم چھت کے راستے سے اس پن ڈبی میں چلے گئے جس کے چاروں طرف موٹے موٹے شیشے لگے تھے اور پانی کے اندر کے مناظر صاف دکھائی دے رھے تھے ، تقریبا بیس لوگ اس میں سوار ھوئے ، پھر اوپر کا دروازہ بند کردیا گیا ، اس کے بعد اس آب دوز نے سمندر کے اندر چلنا اور گہرائی میں اترنا شروع کیا ، چاروں طرف کے مشاھد قدرت صاف دکھائی دے رھے تھے ، پانی بالکل آئینہ کی طرح چمکدار اور ستھرا تھا ، طرح طرح کی مچھلیاں جن میں بعض بڑی خوبصورت جلد والی تھیں سامنے آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں ، تقریبا ایک گھنٹے تک چلنے کے بعد پائلٹ کے اعلان کے مطابق ھم ایک سو چالیس فٹ گہرائی میں اتر چکے تھے یہاں سے ھمیں سمندر کی سطح دکھائی دے رھی تھی ۔

*ھمارے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی گہرائی میں اترنے کے بعد بھی چہار جانب روشن تھا ، ھم نے گائڈ سے معلوم کیا کہ آب دوز کے کنارے لائٹیں لگی ھیں یا یہ سورج کی روشنی ھے انہوں نے بتایا یہ سب سورج کی ھی روشنی ھے مصنوعی لائٹ کا یہاں کوئی انتظام نہیں ، واقعتا قدرت ھے رب ذوالجلال کی اس نے کیا طاقت عطاء فرمائی ھے آفتاب کی کرنوں کو کہ وہ سمندر کی تہوں تک کو روشن کئے دے رھی ھیں۔*

دوسری تعجب خیز بات یہ بھی تھی کہ سطح سمندر میں چھوٹے بڑے درخت اور پہاڑ جیسی ناہموار زمین بھی جا بجا دکھائی دے رھی تھی ، سچ ھے عالم بحر ایک الگ ھی دنیا ھے ، *ماہرین کا کہنا ھے کہ سمندر کی دنیا اس قدر گہری ، پراسرار اور پوشیدہ ھے کہ زمین کے تمام دستیاب وسائل بروئےکار لاکر بھی اس کی تہ تک مکمل رسائی ممکن نظر نہیں آتی ، تقریبا دو گھنٹے داخل سمندر رھنے کے بعد ھم بحمدہ تعالی بعافیت واپس خشکی پر پہنچ چکے تھے ۔*

 

 

*قدرت کی کاریگری*

 

یہاں ایک اور مقام ھے جس کو دکھانے کے لئے احباب باصرار لے کر گئے ، پہاڑیوں کے بیچ میں ایک جگہ ھے جہاں سے لفٹ کے ذریعہ نیچے جایا جاتا ھے پھر وہاں سے چھوٹی ٹرین کے ذریعہ پہاڑوں کے اندر لیجاتے ھیں ، جہاں کی تاریکی اور اندھیرا قبر کی یاد دلاتا ھے ، مناظر بڑے ھولناک اور دہشت زدہ کرنے والے ھیں مصنوعی لائٹوں کا نظم نہ ھو تو چند لمحے بھی وھاں رکنا مشکل ھے ۔

اس کے ساتھ ساتھ جب چاروں طرف نگاہ گھماکر پرھیبت پہاڑوں کو اور اس کے فطری نقش و نگار کو دیکھتے ھیں تو خدائے وحدہ لاشریک کی قدرت و قہاریت کا یقین مزید جاگزیں ھوجاتا ھے ، جا بجا درمیان میں آنے والے غار اور کوہ اپنا الگ سماں پیش کرتے ھیں ، اس وقت یاد آتی ھے اس غار ثور کی جہاں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی تھی ، آپ ہی کا جگر و ظرف تھا کہ نڈر ھوکر آپ نے وہاں قیام فرمایا تھا ، وہ غار حرا جہاں آپ یکسوئی کے لئے خلوت نشیں ھوکر محو عبادت ھوتے ، یقینا دنیا میں ان غاروں سے زیادہ پراسرار اور خاموش جگہ کوئی نہ ھوگی ۔

یہاں کے پہاڑوں میں پانی کا بہت گزر ھے کہیں تیز جھرنے بہ رھے ھیں اور کہیں تسلسُل کے ساتھ قطرہ قطرہ پانی ٹپک رھا ھے ، بیشتر مقامات پر پانی کے مسلسل ٹپکنے کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک سفید رنگ کی ایک لڑی سے بن گئی ھے جو برگد کے درختوں کی شاخوں پر لٹکی جڑوں کی مشابہ ھے ، دیکھنے اور چھونے سے بالکل یہ محسوس ھوتا ھے کہ یہ سنگ مر مر اور سفید پتھر ھے لیکن حقیقتا وہ پانی کے تسلسُل کے ساتھ بہنے کی وجہ سے رونما ھونے والی کوئی چیز ھے ۔

غرضیکہ تقریبا پون گھنٹے کے اس دورانیہ میں ایک الگ اور پرجلال دنیا کے نظارے کا اور قدرت کی عظیم کاریگری کے مشاھدے کا موقع ملا ۔

 

 

*ایک مثالی کردار*

 

*باربڈوز میں ھماری ملاقات محترم جناب حاجی یسین صاحب سے ھوئی ، اللہ رب العزت نے انہیں داد و دہش اور راہ خدا میں خرچ کرنے کا جو ذوق عطا فرمایا ھے وہ قابل رشک ھے ، حاجی صاحب کا پچھلے تقریبا بیس سالوں سے یہ معمول ھے کہ وہ روزانہ صبح کے وقت اپنی گاڑی مختلف کھانے پینے کی چیزوں سے بھر کر شھر کے کسی معروف مقام پر ، چوراہے کے کنارے یا جہاں زیادہ ضرورت محسوس کرتے ھیں لے جاتے ھیں اور بلاتفریق راہ گیروں اور ضرورت مندوں میں وہ چیزیں تقسیم کردیتے ھیں ، لوگ ان کے اس عمل سے بہت متاثر ھیں اور مسلم و غیر مسلم سب انہیں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ، سرکاری محکمے کے آفیسران ھوں یا پولیس کے ذمے داران سب انہیں اس کار خیر کے حوالے سے جانتے ھیں اور محبت کرتے ھیں ۔*

حاجی صاحب انسانوں کو ھی کھلانے کے شوقین نہیں بلکہ پرندوں اور بے زبان جانوروں کو بھی کھلاکر خوش ھوتے ھیں ، چنانچہ ایک دن فجر کی نماز پڑھکر ھم باھر نکلے تو حاجی صاحب سامنے میدان میدان میں بریڈ کے ٹکڑے توڑ توڑ کر ڈال رھے تھے اور کبوتر و دیگر پرندے جن میں دیسی مرغ بھی تھے خاصی تعداد میں آپ کو گھیرے ھوئے تھے اور جلدی جلدی دانے چگ رھے تھے ، *یہاں پالتو مرغیاں تو نہیں ھوتیں البتہ دیسی مرغیاں کھلی گھومتی رھتی ھیں جو آزاد ھوتی ھیں کوئی بھی انہیں پکڑکے استعمال میں لا سکتا ھے ۔*

واقعتا یہ ایک مثالی کردار ھے جس پر بڑی استقامت کے ساتھ حاجی صاحب قائم ھیں اور اخیر دم تک اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے پرعزم ھیں اور کہتے ھیں کہ اس عمل کی جن برکات کا میں اپنی زندگی میں مشاہدہ کررھا ھوں وہ بیان سے باھر ھیں ۔

 

بہر حال اچھی یادوں کے ساتھ ھمارا یہ سفر اختتام کو پہنچا ، 19 جولائی کو لندن واپسی ھوئی ، مختلف شھروں میں منعقد ھونے والے دینی ، تعلیمی ، دعوتی اور اصلاحی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ، ایک دن کے لئے قریبی ریاست اسکاٹ لینڈ بھی ایک پروگرام میں شرکت کے لئے جانا ھوا ، یہ علاقہ بھی فطری مناظر حسن کے لحاظ سے جنت نظیر ھے ۔

 

*یہاں حسن اتفاق سے ھمارے میزبان محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب کے دولت خانہ پر پاکستان کے مشھور عالم دین ، جامعہ صدیقیہ کراچی کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد منظور مینگل صاحب مدظلہ العالی سے ملاقات ھوئی ، مولانا اپنے استحضار علمی ، وسعت مطالعہ ، بیباکانہ انداز ، ظرافت طبع اور بے تکلفانہ گفتگو کے حوالے سے محتاج تعارف نہیں ھیں ، تقریبا آدھا گھنٹہ آپ کے ساتھ بیٹھنا ھوا ، چائے نوشی کے دوران جانبین کے احوال اور مختلف موضوعات پر سرسری گفتگو ھوئی، نماز عصر کا وقت قریب تھا اور ھم دونوں کو الگ الگ مساجد میں نماز ادا کرکے پروگرام میں شریک ھونا تھا ، اسلئے جلد ھی مجلس برخواست ھوگئی ، حضرت مولانا محمد منظور مینگل صاحب شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کے تلمیذ خاص حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید اور فیض یافتہ ھیں اسلئے اکابر دیوبند بالخصوص حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ سے گہری عقیدت رکھتے ھیں جس کا اظھار آپ کی نجی اور عمومی گفتگو سے ھوتا رھتا ھے ۔*

 

برطانیہ کا یہ ھمارا دوسرا سفر تھا جو مجموعی اعتبار سے دس دن پر مشتمل تھا ، اس دوران ملک کے متعدد اھم مدارس کے سالانہ جلسوں میں ، مختلف مساجد اور دینی مراکز میں ھونے والے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ، بہت سے قابل ذکر امور سامنے آئے جن پر تفصیل سے لکھنے کا جی چاہتا ھے ، اللہ نے چاہا تو کسی موقع پر مابقیہ روداد سفر بھی قلمبند کریں گے ان شاء اللہ ۔

 

28 جولائی 2024 کی شب میں برطانیہ سے روانہ ھوکر 29 جولائی کی صبح نو بجے ھم الحمد للہ بعافیت دہلی ائرپورٹ پر اتر چکے تھے ۔

Comments are closed.