جنگ آزادی کا ایک بھولا بسرا باب

سہیل انجم
ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو صحافت نے جو کردار ادا کیا اسے آبِ زر سے لکھا جانا چاہیے۔ جب ملک میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں تیزی آنے لگی تو اردو اخباروں کے زبان وبیان میں بھی حدت بڑھ گئی۔ جنگ آزادی کی آگ کو ہوا دینے اور عوام کے جذبہئ حریت کو پروان چڑھانے میں جن اخباروں نے اہم رول ادا کیا ان میں ایک روزنامہ ’اخبار جمہور‘ بھی ہے جو کلکتہ سے دسمبر 1917 میں قاضی عبد الغفار نے جاری کیا تھا۔ یہ اخبار تقریباً ایک سال نکل کر ستمبر 1918میں بند ہو گیا۔ قاضی عبد الغفار اردو کے نامور ادیب ہیں اور ان کے اخبار میں جو کچھ شائع ہوا وہ1918 کے ہنگاموں کی مستند دستاویز ہے۔ قاضی عبد الغفار نے مولانا محمد علی جوہر کے زیر سایہ تربیت حاصل کی تھی اور ان کے اخبار’ہمدرد‘ میں بھی کچھ دن کام کیا تھا۔ ان کے اداریے انتہائی پرجوش اور مدلل ہوتے تھے۔
پروفیسر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’قومی محاذ آزادی اور یوپی کے مسلمان صحافی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’بیسویں صدی میں ’جمہور‘ نام کے دوروزنامے نکلے۔ ان میں زیادہ مشہور ومقبول قاضی عبدالغفار کا ’جمہور‘ ہوا۔ برطانوی آمریت واستبداد سے ٹکراؤ اس اخبار کا تعارف ہے جس کی فائل اب ہندوستان کی کسی لائبریری میں دستیاب نہیں۔1918 میں بحکم سرکار ضبط کرلیے جانے کے بعد اس کے سبھی شمارے ضائع کردیے گئے تھے۔ خوش قسمتی سے ایک فائل جوحیدر آباد کے کسی ایک خریدار کے پاس محفوظ رہ گئی تھی، بعد تلاش بسیار اس کے مدیرقاضی عبدالغفار مرحوم نے اسے قیمتاً حاصل کیا۔ اس فائل پر کہیں کہیں مسٹر الیاس قریشی، افضل گنج، حیدرآباد کی دھندلی سی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ فائل مجھے بیگم قاضی عبدالغفار اور ان کی بیٹی فاطمہ عالم علی صاحبہ کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ اگرچہ انتہائی خستہ حالت میں ہے، ابتدائی تاریخوں کے چند شمارے فائل میں موجود نہیں ہیں اور یہی صورت آخری چند شماروں کی بھی ہے۔ ’جمہور‘ بنگال آرٹ اسٹوڈیو پریس میں چھپ کر71/1 کولوٹولہ اسٹریٹ، کلکتہ سے شائع ہوا تھا‘۔
’جمہور‘ کی ادارت کے لیے قاضی صاحب کے انتخاب کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ان کے خاندانی پس منظر، ذہنی تربیت سازی کے بنیادی عوامل نیز افتاد طبع کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ قاضی صاحب بقول سری نواس لا ہوٹی ’ایک ایسی عہد ساز شخصیت کانام ہے جنھوں نے اردو صحافت کو اتنا کچھ دیا کہ کوئی ادبی مورخ اس نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا‘۔ برطانوی سامراج کے خلاف ان کی جہدِ مسلسل قومی جنگ آزادی کاایک زرّیں ورق اور ہندو مسلم اتحاد کی خاطر ان کی سعی پیہم کاایک درخشاں باب ہے۔ قاضی صاحب کی پیدائش 1889ء میں مراد آباد کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ ان کے دادا قاضی حامد علی کو1857 کی بغاوت میں انگریزوں نے سولی پر لٹکا دیا تھا۔ تفصیل ان ہی کی زبانی سنئے:
’جب دہلی میں غدر ہوا تو اس وقت ہمارے دادا (قاضی حامدعلی) مرادآباد کے قاضی تھے اور ہمارے والد کی عمر اس وقت تیرہ سال تھی۔ دہلی کے قلعہ میں کہرام برپا تھا۔ اس قیامت میں ایک شہزادہ قلعہ سے بھاگ کر مراد آباد کی طرف آنکلا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ کوئی شہزادے کو پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ ہمارے دادا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے شہزادے کو اپنے یہاں چھپالیا۔ انگریزوں کے پٹھو ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ کسی نے خبر کردی کہ مرادآباد کے قاضی نے شہزادے کو پناہ دے کر غداری کی ہے۔ شہر میں کھلبلی مچ گئی۔ ہمارے دادا کے دوست احباب گھبرائے ہوئے آئے اور کہا قاضی جی آپ نے یہ کیا غضب کیا۔ اب آپ کی خیر نہیں۔ خدا کے لیے روپوش ہوجائیے۔ آپ پر غداری کا الزام لگ چکا ہے۔ مگر قاضی جی نے صاف انکار کردیا اور کہا میں نے غداری نہیں وفاداری کی ہے اب جو ہوگا دیکھاجائے گا۔
چنانچہ ہمارے دادا مسجد میں عصر کی نماز ادا کررہے تھے کہ انگریز ان کو پکڑ کر لے گئے اور آناً فاناً پھانسی دے دی۔ ادھر پھانسی ہوئی ادھر دادی کو مع بچو ں کے گھر سے نکال کر مکان اور جائداد ضبط کرلی گئی۔ انگریزوں کے ظلم وستم سے ہر شخص خائف تھا۔ قاضی جی کی بیوہ کو پناہ دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ مگر کسی اللہ کے بندے نے رات گزارنے کے لیے جگہ دے دی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ سارے گھر کی جیسے جان نکل گئی لیکن مسلسل کنڈی کی آواز پر مرتا کیا نہ کرتا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک لالہ آئے ہیں اور قاضی جی کی بیوہ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دادی نے دروازے کی اوٹ سے آنے کی وجہ پوچھی تو لالہ نے کہا بہن قاضی جی کی لاش بے گور وکفن پڑی ہے، اس کے لیے بھی کچھ سوچا؟ ہماری دادی نے کہا بھلا لالہ آدھی رات وہ بھی قیامت کی۔ میں مجبور عورت ذات کیا کرسکتی ہوں؟ لالہ نے ہمت دلائی اور کہا چلو ان کی لاش تلاش کرکے کچھ انتظام کریں۔ اس زمانے کی عورتیں جنھوں نے زندگی میں کبھی قدم گھر سے باہر نہ نکالا ہو، وقت پڑجانے پر مرد سے زیادہ ہمت کرجاتی تھیں۔ غرض ہماری دادی لالہ کے ساتھ جہاں سولی لٹکائی گئی تھی وہاں پہنچیں اور ہزاروں لاشوں میں سے شوہر کی لاش تلاش کی۔ وہیں پر ایک گڑھا کھودا اور لاش دفن کرکے نشانی کے طورپر ایک لکڑی لگادی اور گھر آگئیں۔ اس کے بعد جب حالات درست ہوئے اور ہمارے دادا بے قصور ثابت ہوئے، جان تو واپس نہ آسکی لیکن انگریزوں نے بڑی عنایت کی کہ مکان اور جائداد واپس کردی بلکہ کچھ انعام بھی دیا۔ پھر اس وقت ہمارے دادا کی قبربھی بنوائی گئی کیونکہ دفن کرتے وقت کسی کو یہ ہوش نہ تھا کہ سر کدھر ہے اور پاؤں کدھر۔چنانچہ اس لکڑی کی مدد سے قبر پہچانی گئی اورچوکور قبر بنادی گئی اور حشر کا میدان ہمارا خاندانی قبرستان بن گیا‘۔
قاضی عبدالغفار کے والد قاضی ابرار احمد نے اپنے والد کی سنت سے انحراف کیا۔ قاضی ابراراحمد کو انگریز سرکار سے خان بہادر کا خطاب عطا ہوا تھا اور پنشن بھی ملی تھی۔ قاضی عبدالغفار کی صاحبزادی فاطمہ علی کے بقول اپنے دادا کے کچھ خطوط جو انگریز کلکٹروں اور کمشنروں نے انھیں لکھے تھے میری نظر سے گزرے جن سے انداز ہ ہوتا ہے کہ قاضی ابرار احمد انگریزوں میں کافی مقبول اور ان کی سرکار میں خاصا عمل دخل رکھتے تھے۔ ایک طرف خان بہادر ابرار احمد کی انگریزی سرکار سے وفاداری اور دوسری طرف قاضی عبدالغفار کا انگریز سرکار کے ساتھ حقارت آمیز رویہ! ایک ہی چھت کے نیچے دو متضاد مزاجوں کا یہ ٹکراؤ سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
قاضی صاحب کی صحافتی نگارشات میں غیر ملکی استحصال کے خلاف بلند صدائے احتجاج نیز حاکم ومحکوم کے امتیاز پر شدید غم وغصے کا اظہار خصوصی طور پر نمایاں ہے۔ ان کی اخبار نویسی کی ابتداسولہ سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ مرادآباد سے ابن علی صاحب کی ادارت میں ’نیّرعالم‘نکلتا تھا جس میں ان کا تحریر کردہ ایک خبر نامہ شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ متعدد اخباروں میں لکھتے رہے۔ صحیح معنوں میں اخبارنویسی کی ابتدا 1913 میں ہوئی جب مولانا محمد علی جوہرؔ نے دہلی سے ’ہمدرد‘ نکالا۔ 1914 میں مولانا محمد علی کو نظر بند کردیا گیا تو قاضی صاحب نے مولانا محمد علی کے اشارے پر کلکتہ سے ’جمہور‘ نکالا۔قاضی صاحب نے اپنے ایک اداریے میں اس کا اعتراف واضح طور پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’جمہور‘ ہمدرد مرحوم کا ایک دھندلا سا عکس ہے۔ ایک چراغ جلا کر رکھ دینے سے وہ محفل کیوں کر پیدا ہوسکتی ہے جس میں شمع کا فوری روشن ہوا کرتی تھی۔ تاہم دل میں جو کسک ہے اور جگر میں جو کھٹک ہے وہ اس محفل کی یادگار ہے جو کچھ دن کے لیے جمی تھی۔ اس موسم بہار کا نشان ہے جو گزر چکا ہے۔ہمدرد مرحوم کی یاد دل کو جتنی عزیز ہو کم ہے اس لیے کہ وہ ایڈیٹر ’جمہور‘ کی ز ندگی کا پہلانشان تھا۔
حکومت مغربی بنگال کے محافظ خانے میں موجود سرکاری رپورٹ برائے اخبارات 1917(129/18-1-6)میں ’جمہور‘ کی پالیسی کے متعلق درج ہے کہ اس کے خیالات بالکل وہی ہیں جو شدید انتہا پسند مسلمانوں کے ہیں۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس، ہوم ر ول لیگ اور انتہا پسند مسلم سیاست کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 1918 کا زمانہ ہندوستانی سیاست کا انتہائی پُرآشوب زمانہ تھا اور اپنے سیاسی بحران کے سبب یہ جنگ آزادی کی تاریخ میں مخصوص حیثیت کا حامل ہے۔’جمہور‘ کا یہ فائل ان تمام ہنگاموں اور واقعات کی ایک مستند دستاویز ہے جو جلیاں والا باغ کے خونی حادثے اور اس کے ردعمل کا پیش خیمہ تھے۔ یہ آنے والے انقلاب کے ارتقاء کی وہ انتہائی اہم منزل تھی جہاں سے نوائے آزادی کی لے تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ اس اعتبار سے1918 کے اس کے تمام شمارے مکمل تاریخ نہ سہی اس کے اہم مآخذ کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں۔
جس دور میں صحافتی قوانین کی تلوار کچے دھاگے میں بندھی صحافیوں کے سرپر لٹکتی ہو، قانون تحفظ ہند کا آہنی پنجہ ہر لمحہ قوم پرستوں کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے مستعد ہو، جیل خانوں کی مہیب تاریکیاں ڈاکخانوں وخفیہ پولیس کے اختیارات کے سبب شمع حریت کے پروانوں کو نگلنے کے لیے ہمہ وقت منتظر ہوں اور دار وگیر کی سخت ترین آزمائشوں نے عوام کی زبانوں پر قفل ڈال رکھے ہوں صحافتی دیانتداری کی اعلیٰ پاکیزہ اقدارکو قائم رکھنا انہی عہد ساز شخصیتوں کا کام تھا جن کایہ ایمان تھا کہ سچا جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمہئ حق کا اعلان ہے اور قاضی صاحب پہلے ’جمہور‘ اور پھر ’پیام‘ کے ذریعہ اس جہاد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ لیکن ’جمہور‘ کے متعلق ان کا اپنا کہنا تھا کہ یہ میرا سب سے کامیاب اخبار تھا جس کی تعداد اشاعت 13ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
موبائل: 9818195929
Comments are closed.