پیر علی – عظیم مسلم مجاہدین آزادی جنہیں بھلادیا گیا

 

تحریر : مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

 

قسط (6)

 

ایک سو نوے سالہ انگریزی دور اقتدار میں کروڑوں مسلمانوں نے وطن عزیز ہندوستان کی حفاظت کے لیے جان و مال کی قربانیاں دیں ، ان میں حکام بھی تھے ، علماء اور ادباء بھی تھے ، اور عام مسلمان بھی ، ان میں سنی بھی تھے اور شیعہ بھی ، بڑے بڑے تہجد گذار اور پیر و مرشد بھی تھے ، اور بے نمازی مسلمان بھی ، یہاں تک کہ اپنے جسم کا کاروبار کرنے والی مسلم طوائفوں نے بھی وطن عزیز کے لیے قربانیاں دی ہیں ، کان پور کی مسلم طوائف عزیزن بائی نے سترہ سو سنتاون کی جنگ آزادی میں عظیم قربانیاں دی تھیں ،

میں نے چند سال قبل ” مسلم مجاہدین آزادی ” کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی ، اس میں انیس مسلم مجاہدین آزادی کا ذکر ہے ، ان میں سے اکثر چوٹی کے بڑے علماء ہیں ،

ہم ایک بند لکھیں گے اور اس بند میں مذکور مجاہدین آزادی کا مختصر یا مفصل تذکرہ کریں گے ،

ہم نے اس مضمون کی پہلی قسط میں نواب بنگال نواب سراج الدولہ کا تذکرہ کیا تھا ،

دوسری قسط میں والی میسور حیدر علی کا تذکرہ ہم نے کیا تھا

تیسری ، چوتھی اور پانچویں اقساط میں ہم نے میسور کے حکمراں ٹیپو سلطان کا تذکرہ کیا تھا ، ہم اس چھٹی قسط میں *پٹنہ کے انقلابی مجاہد آزادی شہید پیر علی خاں "* کا تذکرہ کریں گے ،

 

*پٹہ کی مبارک بھومی کے ، کیا پیر علی ہیں یاد تمہیں ؟*

*کیا یاد ہے ان کا جود و سخا ،یا ان کی سخاوت بھول گئے؟*

 

*اے اہل وطن کچھ بولو تو*

*اے اہل چمن کچھ سوچو تو*

 

*پٹنہ کے انقلابی مجاہد آزادی شہید پیر علی "*

 

اٹھارہ سو ستاون کی پہلی ملک گیر جنگ آزادی کا تاریخ ہندمیں ایک اہم مقام ہے، لیکن اس تحریک کے ہراول دستے میں شامل بیشتر ہیروز کی حیات اور کارناموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، ان کے ساتھ دورخی برتاؤ ہوا یا پھر انہیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ایسے ہی گمنام قومی ہیرو شہید پیر علی خاں بھی ہیں جنہوں نے ملک کو برطانوی آہنی پنجو ں سے چھڑانے کے لیے اپنی قیمتی جان نثار کردیا، لیکن ستم بالائے ستم ان کی قربانی تو کجا ان کے نا م سے بھی عوام واقف نہیں ہے۔

 

شہید پیر علی خاں 1820ء میں محمد پو ر ضلع اعظم گڑ ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مہر علی خاں تھا، انہوں نے تلاش معاش کی خاطر ہجرت کرکے پٹنہ کے گرہٹہ محلہ میں سکونت اختیار کی، جہاں ان کی سرپرستی شہرکے نامور زمیندار میر عبداللہ نے کی ،جن کے تعاون سے انہوں نے چھوٹا سا کتب خانہ کھول لیا جس کا شمار چند دنوں میں ہی انقلابی مرکز میں ہونے لگا کیونکہ انقلابی روش پر چلنے کے بعد پیرعلی خاں نے لوگوں کو انقلابی ادب بھی مہیا کرانا شروع کردیا تھا مگر وہاں کتابیں تو کم فروخت ہوتی تھیں مگر آزادی کے تانے بانے زیادہ بنے جاتے تھے۔ پٹنہ کے حریت پسندوں نے پیر علی خاں کی رہبری میں ایک انقلابی تنظیم قائم کی جس کی ما لی مدد پٹنہ کے ریئس لطف علی نے کی۔ اس کی میٹنگیں رات میں ہوتی تھیں۔ پیر علی خاں معہ ارکان گھوم گھوم کر لوگوں کو آزادی کی معنویت اور جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے مشتعل کرتے تھے، وہ کانپور، دانا پور، جگدیش پور، مظفر پور، جہاں آباد، لکھنؤ، کانپور، دہلی وغیرہ کے باغیوں سے خفیہ رابطہ قائم کئے ہوئے تھے۔ ولیم ٹیلر کو مخبروں سے پیر علی خاں کی تمام سرگر میوں کا سراغ مل چکا تھا اس لیے وہ ولیم ٹیلر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے ،

 

*پٹنہ کے کمشنر کی بے رحمی اور عیاری*

پٹنہ کا کمشنر ولیم ٹیلر بڑا بے رحم اور دوراندیش افسر تھا حالات کے مدنظر اس نے اپنے جاسوسوں کا جال پھیلا دیا، ان سے جو خبریں موصول ہورہی تھیں اس نے کمشنر کے ماتھے پر بل ڈالنے شروع کردئیے کہ ہندوستانی سپاہ بغاوت کرنے کے لیے موقع ووقت کے انتظار میں بیٹھی ہے اورگرد وپیش کے زمیندار بھی انگریزی راج کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ 12 جون کو ولیم ٹیلر نے اپنے تمام افسران کو فاضل پولس بھرتی کرنے کاحکم دیا اسی دن سکھوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے الزام میں نجیب (قطب الدین) کو حراست میں لیا گیا۔

 

انقلابیوں کی خفیہ نشستیں دیر رات منعقد ہونے کے سبب ان کو تو پکڑنا ناممکن تھا لہٰذا اس نے تحریک کے پے پس پردہ تین محرک وہابی مولوی شان محمد حسین، احمد اللہ اور واعظ الحق کو گرفتار کرنے کا منصوبہ تیار کیا، چنانچہ انہیں اورچند معزز ریئسو ں کو موجودہ صورتحال پرتبادلہ خیال کے بہانے سے18 جون کو اپنی کوٹھی چھجو باغ میں مد عو کیا، عیار ٹیلر نے رسمی گفت وشنیدکے بعد سب عمائدین کو تو رخصت کر دیا لیکن ان معزز ہستیوں کو روک کر و ہیں نظر بند کر لیا۔

 

*پٹنہ میں مارشل لا*

ٹیلر نے 20 جون 1857ء کو پٹنہ میں ایک سال کے لیے مارشل لا نافذ کر دیا اور داناپور کی چھاؤنی میں شہریان پٹنہ کی نقل وحمل پر بھی پابندی لگا دی۔ ان گرفتاریوں اور باشندوں کے اسلحہ جمع کرانے سے انگریزوں کو کچھ سکون میسر ہوا، مگر یہ سخت اقدام حریت پسندوں کے منصوبوں پر بھی بجلی گرنے کے مترادف تھے۔

 

پیر علی اور ان کے ساتھیوں کی انگریزوں سے جنگ اور ڈاکٹر لائل کی موت

30 جون کوکمشنر نے اپنے ماتحت افسران کو حکم دیا جو باغی گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں انہیں فوراً پکڑیں اورسزا دیں۔ کمشنرکی آمریت کی بنا پر پورا شہر اندرہی اندر سلگ رہا تھا۔ تاہم آفریں عوام پر کہ وہ سرکاری احکام کی پابندی کے بجا ئے جام شہادت نوش کرنے کے زیاد ہ متمنی ہوگئے کیونکہ انہیں مادر ہند کی آزادی اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی، اب تک انقلابی گروہ نے دانا پور کے باغی سپاہیوں کے تعاون کی امید میں معر کہ آرائی کو ملتوی کررکھا تھا لیکن حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ لہٰذا پیرعلی خاں کی سربراہی میں پٹنہ کے سورماؤں نے 3 جولائی 1857ء کوشام آٹھ بجے رستم گلی سے نکل کر گلزار باغ میں واقع کمپنی کی انتظامی عمارت کو محصور کرلیا۔ اس واقعہ کے بارے میں جیسے ہی ٹیلر نے سنا تو اس نے فوراً انقلابیوں کی سرکوبی کے لیے ریڑے کی کمان میں 150 سکھوں کو بھیجا لیکن ریڑے کے دستے کو پٹنہ کے کفن بردار جگر پاروں سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، ان کے ہاتھوں ڈاکٹر لائل مارا گیا۔ یہ ایسا کاری زخم تھا جس کی بازگشت انگلینڈ کے ایوانوں تک محسوس کی گئی۔ ڈاکٹر لائل کے قتل نے ٹیلر کو پاگل کردیا، اس نے جوش انتقام میں باشندوں کے ساتھ شہر کی بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کا فیصلہ کرلیا۔ حکام نے اگلی صبح سے بڑے پیمانے پرخانہ تلاشی اور دار و گیر کا سلسلہ شروع کیا۔ 31 انقلابی، جن میں5 جولائی کی شام کو زخمی پیر علی (رانی پور گاؤں)، رئیس لطف علی اور ان کا وفادار خادم شیخ گھسیٹا بھی شامل تھے ، ظلم وستم، قتل وغارت گری اوربربریت کا ایسا ننگا ناچ ہوا کہ انسانیت بھی کانپ اٹھی، پیر علی خاں کے گھر سے پانچ بندوقیں، کچھ دوسرے ہتھیار اور خفیہ دستاویز برآمد ہوئے جن سے انقلابیوں کی پوری تحریک کا پردہ فاش ہوگیا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ پیر علی کے گھر میں 12 ملازم رہتے تھے جہاں ہتھیار بھی جمع کئے جاتے تھے، اکثران کے گھر بیرونی انقلابیوں کی بھی آمد و رفت رہتی تھی۔

 

*پیر علی حراست میں*

انگریز افسر ڈاکٹر لائل کے قتل اور شورش کی پاداش میں پیر علی سمیت 43 اشخاص حراست میں لیے گئے، جن کا کیس کسی عدالت میں نہیں بلکہ ٹیلر کے خود ساختہ کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا جس میں ٹیلر اور پٹنہ کے مجسٹریٹ مسٹرلوئس شامل تھے۔

 

7 /جولائی کو ولیم ٹیلر اور دوسرے مجسٹریٹوں کی موجودگی میں جب سنوائی شروع ہوئی تو طے شدہ ڈرامہ محض تین گھنٹے چلا۔ ڈاکٹر لائل کے قتل کے جرم میں پیر علی کے علاوہ 18 دیگر کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید، دو کو چودہ سال کی سزا، تیرہ کو دس سال قید بامشقت اور ایک کو سزا ئے تازیانہ اورتین کورہا کیا گیا۔

 

*گاندھی پارک کے پاس پیر علی کو پھانسی*

پیر علی خان اور ان کے ساتھیوں سے انگریز اتنے خوفزدہ ہو گئے تھے کہ آناً فاناً میں گرفتاری کے دو دن کے اندر ہی انہیں پٹنہ کے گاندھی پارک کے متصل سرعام پھانسی دے دی گئی۔ پیر علی خاں اوران کے ساتھیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ جنگ آزادی میں سنگ میل ثابت ہوئیں اوراس نے کم و بیش ایک صدی تک چلنے والی تحریک جدوجہد کے شعلوں کو کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنے دیا۔

 

*پیر علی کی بہادری اور ان کے زریں اقوال*

قابل ذکر امر ہے کہ سز اسنانے کے بعد ٹیلر انگریز افسروں کے سا تھ پیر علی خاں کو اپنے کمرے میں لے گیاتو وہ اس وقت زنجیروں میں جکڑے اور خون سے لت پت تھے۔ ان کے کپڑے پھٹے اور خون سے چپکے ہوئے تھے، چہرے پر چو ٹ کے نشان تھے مگر کسی طر ح کی بے چینی یا ندامت نہیں تھی۔ باز پرس کے دوران جب عظیم فرزند وطن پیر علی خاں کی آواز اولاد کے نام سے بھراگئی تو یہ کیفیت دیکھ کر ٹیلر نے ان سے اپنے ساتھیوں کا نام بتا کر اپنی سزا معاف اور رہائی کا راستہ صاف کرنے کا لالچ دیاجسے سن کر عظیم مجاہد ’پیر علی خاں کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ،انہوں نے برجستہ جو جواب دیا اسے سن کر ٹیلر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ ,،

 

’’ *زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب جان بچانے کی تمنا ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے لمحے بھی ہوتے ہیں جن میں جان قربان کرناہی سب سے بڑی نیکی اور خواہش ہوتی ہے، یہ لمحہ ان ہی میں سے ایک ہے کہ جب موت کو گلے لگانا ابدی زندگی پانا ہے……….*

*تم مجھے پھانسی دے سکتے ہو لیکن ہمارے اصولوں کو نہیں مار سکتے میں اگر مر بھی گیا تو میرے خون سے ہزاروں ایسے پیدا ہوں گے جو تمہاری حکومت کو برباد کردیں گے۔‘‘*

 

(شاہد صدیقی علیگ کے مضمون "انقلابی شہید پیر علی خاں ” قومی آواز بتاریخ سات جولائی دو ہزار اکیس سے اقتباس )

 

*گاندھی پارک کا نام پیر علی پارک ہو*

گاندھی پارک ( گاندھی میدان )پٹنہ کے قلب میں واقع ساٹھ ایکڑ پر مشتمل ایک بہت بڑا میدان ہے ، جس میں آئے دن سیاسی جلسے ہوتے رہتے ہیں ، اہل بہار و اتر پردیش کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ گاندھی پارک کا نام پٹنہ کے عظیم شہید وطن پیر علی کے نام پر” پیر علی پارک ” کردیا جائے ،

اہل اتر پردیش کو اس لیے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پیر علی اعظم گڑھ اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے ، اور اہل بہار کو اس لیے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پیر علی کی جوانی پٹنہ بہار میں گذری تھی ، اور وہیں انہوں نے وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ،

 

عجب انصاف ہے کہ جن لوگوں نے صرف پسینے کی قربانی دی ان کے نام پر جگہ جگہ ، شہر شہر پارک بنے ہوئے ہیں یا ان کے نام پر پرانے پارکوں کا نام رکھ دیا گیا اور بڑی بڑی مورتیاں بنادی گئیں ،

اور وطن کے جن جیالوں نے اپنی جان بھی قربان کردی اور اپنی جان قربان کرکے اپنی پوری نسل کو تباہ و برباد کردیا ، ان کو یکسر فراموش کردیا گیا ،

 

جس نے کسی میدان میں صرف تقریریں کیں ، اس کے نام پر اس میدان کا نام رکھ دیا گیا ، اور جن بہادروں نے اس میدان میں پھانسی کے پھندے کو ہنستے ہنستے چوم لیا ، ان کا اس میدان میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ،

 

میں ملک کے عوام و خواص سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے ، اور اپنی جان و مال کی قربانی دینے والے تمام مجاہدین آزادی کو یاد کریں ، ان کی زندگی پر مضامین ، مقالے اور کتابیں لکھیں ، ان کے نام پر مدرسے ، اسکول ، کالج لائبریریاں ، قائم کریں ، ان کے نام پر روڈ اور میدان بنائیں ،

ہر گاؤں اور ہر شہر میں گاندھی پارک اور نہرو پارک کی ضروت نہیں ہے ، صرف یہی دونوں مجاہدین آزادی نہیں ہیں ، دو سو سالہ استعماری دور میں لاکھوں مجاہدین آزادی پیدا ہوئے ہیں ،

آپ اپنے گاؤں اور شہر کے مدرسوں ،اسکولوں ، کالجوں ، پارکوں ، میدانوں ، اور سڑکوں کا نام اپنے گاؤں اور شہر کے مجاہدین آزادی ، علماء اور دانشوروں کے نام پر رکھیں ،

Comments are closed.