جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار ۔۔ آزادی کے بعد مسلمان بیکار

مدثراحمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
ملک بھر میں یس سی یس ٹی تنظیموں کی جانب سے آرکشن بچائو تحریک کا سلسلہ جاری ہے اور یہ قومیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ناخوش ہو کر احتجاج میں اتر آئے ہیں کہ سپریم کورٹ نے یس سی یس ٹی کے ریزرویشن کو کمزور کرنے کے لئے جو فیصلہ دیا گیا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور وہ اس فیصلے میں ترمیم کے ساتھ ساتھ قانون کو مضبوط کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں ۔ یس سی یس ٹی قانون کو لے کر جو احتجاج ہورہاہے اس احتجاج کی تائید میں مختلف سیاسی جماعتیں بھی سامنے آئی ہیں ۔ حالانکہ یس سی یس ٹی کا احتجاج سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے ۔ وہیں دوسری جانب مسلمانوں کی بات کرتے ہیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیا معمولی انسپکٹر کے حکم کے خلاف بھی جانا قانون کی توہین سمجھتے ہیں ۔ دراصل یہ مسلمانوں کی یہ سوچ قانون کی تعظیم نہیں بلکہ ایک طرح کی بزدلی ہے اور وہ اس بزدلی کو حکمت کا نام دیتے رہے ہیں ۔ بابری مسجد کا فیصلہ ہو یا پھر حجاب کے معاملے میں جاری کئے جانے والے احکامات ، یو سی سی کی بات ہو یا پھر وقف قانون میں ترمیم کی بات ہو ان تمام معاملات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت مختلف مسلمانوں کی تنظیمیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ حیر ت کی بات تو یہ کہ مسلمانوں کی سربراہ تنظیمیں فیصلے آنے سے پہلے ہی اعلان کردیتے ہیں کہ مسلمان عدالت کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ گزشتہ کئی سالو ں سے بھارت کی مسلم نمائندہ تنظیم آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کم و بیش ہر محاذ میں ناکام ہوتی نظر آرہی ہے جس کی اصل وجہ یہ کہ بورڈ کی قیادت میں بیشتر ارکان پر حکومتوں کی جانب سے شکنجہ کسے جانے کا وسوسہ ہے خاص طورپر جمیعت العلماء ہند پر بیرونی ممالک سے فنڈنگ لینے اور اس فنڈ کا حساب کتاب نہ دینے کا الزام ہے اور بورڈ کے ہی چند ایک اہم شخصیات سنگھ پریوار سے پس پردہ رابطہ رکھتے ہوئے اپنے تحفظات کی دیوار کھڑی کررہےہیں ۔ جس ملک کے آئین نے عدالتوں کے فیصلوں کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے وہیں اپنے مطالبات اور اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا بھی موقع دیاہے ۔ لیکن مسلمانوں کی نمائند ہ تنظیموں نے صرف اخبارات اور سوشیل میڈیا پر مذمتی بیانات جاری کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کے علمبردار سمجھ رکھاہے ۔حالانکہ بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کہناہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سیاست سے دور رہتا ہے۔ ہم خود کو شرعی قوانین تک محدود رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے شرعی قوانین میں مداخلت کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔لیکن کرناٹک میں جب حجاب کا معاملہ شروع ہوا اس وقت بھی بورڈ موجود تھا، اس وقت بورڈ نے مسلمانوں کو صبر و تحمل سے رہنے کی تلقین دینے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا تھا ، اس سلسلے میں بورڈ نے سلسلہ وار اخباری بیانات دئیے جبکہ حجاب کے معاملے کو خود مسلم لڑکیوں نے ہی آگے بڑھ کر عدالتوں میں انصاف کے لئے آواز اٹھائی تھی ، اب ملک میں وقف ایکٹ نافذ کئے جانے کے تعلق سے ین ڈی اے حکومت کی جانب سے پیش رفت ہوئی ہے ایسے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ ان لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرچکا ہے جو پہلے ہی وقف ایکٹ کے خلاف پارلیمان میں آواز اٹھاچکے ہیں جیسے کہ تمل ناڈوکے وزیر اعلیٰ اسٹالن سے ملاقات کرتے ہوئے وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے ۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ نتیش کمار ، چندربابو نائیڈو اور نرم ہندوتوا کے نظریات رکھنے والی دوسری پارٹیوں سے رجو ع کرتے ہوئے اس معاملے میں آواز اٹھانے کی پہل کرتے ، ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں ایک ایسی ہوا بناتے کہ اگر بار بار ملک میں مسلمانوں کے داخلی معاملات میں حکومت مداخلت کریگی تو اس پر اب مسلمان خاموش نہیں بیٹھنے والے۔ اگر اب بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی روایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے تحفظ شریعت ، تحفظ مسلمان کی امید رکھتے ہیں تو یہ انکی کم عقلی کے سواء کچھ نہیں ہوسکتی ۔ ساتھ ہی ساتھ اتحاد بین المذاہب ، اتحاد بین مسالک ، گنگا جمنا تہذیب کی بقاء جیسے اجلاس کرنے کے بجائے شریعت بچائو ، مسلمان بچائو کی تحریک کے لئے جلسوں کا اہتمام کریں ، تحریک عدم مساوات کا اعلان کریں ، جس طرح سے ریشمی رومال کی تحریک شروع ہوئی تھی اسی طرح سے تحریکوں کاآغاز کریں ، صرف جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں یاد کرنا ہی مسلمانوں کا شیوہ بن چکاہے ، جنگ آزادی کے بعد کے مسلمانوں کا کردار کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
Comments are closed.