ضبط

حصہ دوم

 

نگار فاطمہ انصاری

یہ میرے کمرے کی اداسی کھل نہ سکی
بس ایک کھڑکی ہے
جس سمت سے تیری خوشبو آتی ہے
وصتے ہر راہ سے اسےکھینچ لاتی ہیں
لگتا ہے شجر بھی تیرے نام سے منسلک ہیں!
جو میری سانس پی تہمت دھرتے ہیں
تو کتنی ہی زخم پھر سے جی اٹھتے ہیں
دل پھر بھی تجھ پے رحم کھاتا ہے!
یہ کیا تماشا – اے-اداسی ہے ؟
گویا فتنہ سازی ہے!
لگتا ہے کہ تجھے آزادی بھی نہیں بھاتی !
یا فقط وہ میں نہیں ہوں جو عشق کی وصتوں سے لڑا ہیں !
ستم تو یہ ہے زندگی مسلسل پلصراط ہے
ایک اور رقیب دوسری اور میری پوری قاںنات ہے
یہ چند لمحوں کا سفر ۔
تخیل تھا مصور کا!
یا ستمگر تیری ستمگری
بس اس گماں سے وہ ایک سوال تھا ریاضی کا
یا کوئی تعلق عالم -اے -عرواح کا
گویا علاسکہ نے بھی تیرے اور میرے نہ ملنے کی قیمت ادا کی ہے
شاید وہ ایک معمہ تھا
معمہ بھی ایسا جو مجھ سے حل نہ ہو سکا۔

Comments are closed.