قانون وقف میں نئی ترمیمات دراصل شریعت اپلیکشن ایکٹ کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے:مولاناعتیق احمد بستوی

مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام وقف ترمیمی بل پرسمپوزیم کاانعقاد،زفراحمد فاروقی،سیدمحمد شعیب،اور مولاناخالدرشیدفرنگی محلی کااظہار خیال
لکھنؤ(نمائندہ خصوصی)ندوۃالعلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیراہتمام ’ قانون وقف میںنئی ترمیمات اور ان کے اثرات‘ کے عنوان سے ایک سمپوزیم کا انعقاد علامہ حیدرحسن خان ٹونکی ہال میںعمل میں آیا،جس میں ہندوستان میں اوقاف کے نظام ،اس کی موجودہ صورت حال ، وقف ترمیمی بل کی مجوزہ ترمیمات اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیاگیا، سمپوزیم کی صدارت مجلس تحقیقات شرعیہ کے سکریٹری اوردارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینئراستاذمولاناعتیق احمد بستوی نے کی، مولاناخالدرشیدفرنگی محلی،سیدمحمد شعیب سابق سی ای اوسنی سنٹرل وقف بورڈیوپی،اور زفراحمد فاروقی چیرمین سنی سنٹرل وقف بورڈیوپی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے،مولاناعتیق احمد بستوی نے اپنی صدارتی گفتگومیں کہاکہ قانون وقف میں ترمیمات دراصل شریعت اپلیکشن ایکٹ 1937کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے،اس بل کو اگر منظوری مل گئی تووقف کا بڑاحصہ یونہی ختم ہوجائے گا،شریعت میں وقف زبانی بھی ہوتاہے اور تحریری بھی ،ہمارے ملک میں اوقاف کا بڑاحصہ زبانی یااستعمالی وقف پر مشتمل ہے،اور موجودہ ترمیمات میں ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد تحریری وقف کو ہی وقف سمجھاجائے گا،زبانی اور استعمالی وقف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی،مولانانے مزیدکہاکہ اس ترمیمی بل کے ذریعہ اوقاف کے نظام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،وقف کی جائیدادوں کو بہت زیادہ بڑھاکرپیش کیاجارہاہے،حالانکہ یہ بات حقیقت کے برخلاف ہے،مولانانے کہاکہ وقف کا قانون موجود ہے،اور اس پر عمل بھی ہو رہا ہے،اب وقف کے لئے نئے قوانین بناکرسابقہ اوقاف کو اس معیارپررکھنااوریہ طے کرناکہ یہ وقف ہے یا نہیں،یہ بات سمجھ سے بالاترہے ،اسی طرح یہ بھی قابل توجہ ہے کہ جب وقف مسلمانوں کاایک مذہبی معاملہ ہے تواس کے بارے میں صرف مسلمانوں سے رائے لی جانی چاہیے ،عام لوگوں سے نہیں ،مولانانے مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ آزمائشی دورہے،لیکن مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے،احتیاط اور حکمت عملی کے ساتھ قانونی لڑائی لڑتے رہنا چاہئے۔
سنی سنٹرل وقف بورڈ یوپی کے چیرمین زفراحمد فاروقی نے اوقاف کی صورت حال کاجائزہ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ یوپی کے اوقاف کابڑاحصہ مسجدوں،مدرسوں،قبرستانوں،درگاہوں،مزارات،اورتکیوں پر مشتمل ہے، ان اوقاف میںاکثرکے وقف نامے نہیں ہیں،وہ وقف بالاستعمال ہیں۔
سیدمحمد شعیب سابق سی ای او سنی سنٹرل وقف بورڈ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ اوقاف کی پروپرٹی کے بارے میںبہت زیادہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے،حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے،بہت سے اوقاف ایسے ہیں جن سے آمدنی توکیاان کے نظم وانتظام میں مزید خرچ کرناپڑتاہے، انہوں نے ڈاٹاکی روشنی میں بتایاکہ یوپی میں اوقاف سے متعلق جائیداد کتنی ہیں،اور کس کس طرح کی ہیں،انہوں نے مزیدکہاکہ وقف کے قانون کے بارے میں مسلمانوں کو اورخاص طورپروکلاء کوزیادہ پڑھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے،وقف میں کی جانے والی ترمیمات پرمسلمانوں کے رد عمل کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ہمارا جواب معروضی اور منطقی ہوناچاہیے۔
مولاناخالدرشیدفرنگی محلی نے اپنے خطاب میں کہاکہ وقف کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی یہ بھی پائی جارہی ہے کہ مسلمان جس زمین پر ہاتھ رکھ دیتاہے وہ وقف میں درج ہوتاہے،یہ بالکل غلط ہے،وقف کی مستقل مذہبی حیثیت ہے،اس کا مکمل نظام ہے،رسول اللہ کے دورسے لے کرا ب تک یہ سلسلہ چل رہاہے،موجودہ اوقاف کے بارے میں یہ تاثردینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اوقاف کی جائیدادوں پر دوسومسلمان قابض ہیں،اورغریب لوگوں کواس کا فائدہ نہیں مل رہاہے،یہ بات بھی حقیقت کے برعکس ہے،وقف کانظام یہ ہے کہ جائیداد کسی خاص مقصد کے لئے وقف کی جاتی ہے،لہذا جوجائیداد جس مقصد کے لئے وقف ہے اسی کو اسی مصرف میں استعمال کیاجاسکتاہے۔
مفتی محمد ظفرعالم ندوی نے وقف کی شرعی حیثیت کوبیان کرتے ہوئے کہاکہ وقف صدقہ جاریہ کی ایک شکل ہے،وقف کی خاص بات یہ ہے کہ کسی جائیداد کو وقف کرنے کے بعد اس میں واقف کااختیارختم ہوجاتاہے،مولانانے وقف کے شرائط کوبیان کرتے ہوئے کہاکہ وقف کے لئے مکمل ملکیت ضروری ہے،وقف ثواب کی نیت سے اللہ کو راضی کرنے کے لئے کیا جاتاہے محض جان چھڑانے کے لئے کسی متنازع چیزکووقف کرنادرست نہیں ہے۔
ایڈوکیٹ عبدالحفیظ صدیقی نے ہندوستان میںوقف کے نظام اور وقف ایکٹ 1995پراورمفتی ابرارحسن ندوی ایل ایل ایم نے وقف ترمیمی بل کے نقصانات پر روشنی ڈالی،مولانامنورسلطان ندوی نے اس سمپوزیم کی نظامت کرتے ہوئے تمہیدی گفتگومیں کہاکہ جس طرح زکوۃ مسلم سماج کو اقتصادی مضبوطی فراہم کرتاہے اسی طرح وقف عام انسانوں کی معاشی ،رفاہی اورسماجی ترقی کاضامن ہے،وقف کافائدہ تمام انسانوں کو پہونچتاہے،مولاناظفرالدین ندوی کی تلاوت وترجمہ سے جلسہ کاآغازہوا،مجلس کے ریسرچ اسکالرس اورمعاونین نے مہمانوں کااستقبال کیا، مولاناعتیق احمد بستوی کی دعاپر جلسہ کااختتام ہوا،اس پروگرام میں شہرکے وکلاء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اساتذہ اور لیگل لٹریسی کورس کے طلبہ بطورخاص شریک رہے۔

Comments are closed.