استاذ رہنما بھی ہے معمار قوم بھی

 

استاذ زندگی کے قرینے سکھاتے ہیں

استاذ بندگی کے قرینے سکھاتے ہیں

 

تاریک راستوں میں ہے استاذ رہنما

اچھا برا ہے کیا وہ بتاتے ہیں یہ سدا

 

استاذ اپنے بچوں پہ ہر دم رفیق ہیں

استاذ اپنے بچوں پہ ہر دم شفیق ہیں

 

استاذ پر جو ڈالے محبت کی اک نظر

اس پر خدائے پاک کی رحمت ہو سر بسر

 

استاذ کی جو ڈانٹ کو سمجھے سدا برا

سر کر سکے نہ زیست کا وہ کوئی مرحلہ

 

استاذ ایک رحمتِ ربِ عظیم ہے

استاذ ایک رحمتِ ربِ کریم ہے

 

استاذ ہمنوا بھی ہے غم خوارِ قوم بھی

استاذ رہنما بھی ہے معمار قوم بھی

 

استاذ کی جو قدر کرے گا جہان میں

رَطبُ اللساں ہوں اہلِ سخن اس کی شان میں

 

استاذ کی ہے عزت و تکریم جس نے کی

منزل اسے عروج کی عِفت سدا ملی

 

شہناز عِفّتؔ

ممبئی

Comments are closed.