تعلیم کا مقصد عوام، سماج اور ملک کی خدمت کرنا مانو میں یومِ اساتذہ کے موقع پر پروفیسر پنچانن موہنتی کا خطاب

 

حیدرآباد، 5 ستمبر (پریس نوٹ) تدریس کے معنی صرف کلاس روم کی تعلیم اور نصاب کی حد تک محدود نہیں۔ اساتذ اس بات کو ہمیشہ اپنے مطمع نظر رکھیں کہ تدریس کے تحت مختلف نقطہ ¿ نظر کی سماعت اور اختلاف رائے کے حق کو سمجھانا بھی ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر پنچانن موہنتی ماہر لسانیات حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ اساتذہ کی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔انگریزی زبان کے متعلق اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتداءانگلش میڈیم کی تعلیم کا مقصد عیسائیت کا فروغ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا کی بہت ساری اقوام نے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنا شروع کیا تب کہیں جاکر انگریزی اپنے فرقہ وارانہ قول سے باہر نکل سکی۔ ان کے مطابق اردو کبھی بھی فرقہ وارانہ زبان نہیں تھی۔ لیکن اردو کا المیہ یہ ہے کہ اردو آج مسلم فرقہ کے ساتھ جوڑ دی گئی۔ زبانوں کے پس منظر میں انہوں نے بتایا کہ تعلیم کا اصل مقصد عوام، سماج اور ملک کی خدمت کرنا ہے۔ ہندوستان کے تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک زمانۂ قدیم سے ہی وشوا گرو تھا۔ حالانکہ ہمارے ہاں انگریزی تعلیم کا نظم نہیں تھا۔ پروفیسر پنچانن کے مطابق تعلیم کے لیے معلومات چاہیے اور معلومات کے حصول کے لیے زبان ایک وسیلہ ہے۔ اور انگریزی کا بھی یہی درجہ ہے۔

پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے آج کے اس پروگرام کی صدارت کی۔ قبل ازیں تقریب کی کنوینر پروفیسر ایم ونجا، ڈین شعبۂ تعلیم و تربیت نے خیر مقدمی کلمات کہے۔ پروفیسر پنچانن نے ہندوستان کی نوجوان نسل کو انگریزی زبان کی ذہنی غلامی کے قول سے نکل باہر آنے کی ترغیب دیتے ہوئے بتلایا کہ انگریزی ایک زبان ہے اور اظہار خیال کا ذریعہ ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پروفیسر پنچانن کے مطابق ہندوستانی زبانوں میں حصول تعلیم کا مطلب کسی سے بھی پیچھے رہنا نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نوجوان مختلف زبانیں سیکھیں لیکن انگریزی زبان کے غلام نہ بنیں۔ ان کے مطابق جو طالب علم اپنی مادری زبان میں عبور رکھتا ہے وہ کوئی بھی زبان سیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر طالب علم کو ابتدائی 5 برسوں تک اس کی مادری زبان میں ہی تعلیم دی جائے۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے اپنے صدارتی خطبہ میں واضح کیا کہ یومِ اساتذہ کے موقع پر ہمیں احتساب کرنا چاہیے کہ ہم علم کے ساتھ ساتھ عمل کی ضرورت پر کس قدر عمل پیراں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بغیر عمل کے علم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ یومِ اساتذہ کی اس تقریب کو مخاطب کرنے والوں میں پروفیسر صدیقی محمد محمود، پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار، پروفیسر شگفتہ شاہین کے علاوہ محترمہ ریوتی تھانگا ویلو اور پی ایچ ڈی اسکالر طلحہ منان بھی شامل تھے۔ پروفیسر وقار النساءنے ہدیۂ تشکر کا فریضہ انجام دیا۔ جبکہ محترمہ رابعہ اسماعیل نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

Comments are closed.