وقف بِل 2024 : سچائی اور غلط فہمیاں (1)
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
وقف اسلام کی نظر میں:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان دنیا سے گزر جاتا ہے تو عمل کا ر شتہ اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین صورتوں کے، یا تو صالح اولاد کو چھوڑ کر جائے، جو اس کے لئے دعاء کا اہتمام کرے، یا اس نے کوئی ایسا علمی کام چھوڑا ہو، جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے، خواہ یہ شاگردوں کی صورت میں ہو، تصنیفات کی صورت میں ہو یا تعلیمی اور اشاعتی اداروں کی صورت میں، تیسرے: صدقۂ جاریہ، یعنی انسان کوئی ایسی مادی چیز چھوڑ کر جائے، جس کا نفع لوگوں کو حاصل ہوتا رہے، جیسے کنواں کھدوائے، کوئی ایسی بلڈنگ بنا دے، جس کا کرایہ فقراء پر صَرف ہو، مسجد تعمیر کر دے، جس میں لوگ نماز پڑھتے رہیں:اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثہ الا من صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث نمبر:۴۳۱۰)
صدقۂ جاریہ کی صورت کو شریعت اسلامی میں ’’ وقف‘‘ کہتے ہیں، حدیث وسیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا وقف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کی فکر فرمائی اور حضرت سہل وسہیل رضی اللہ عنہما کی زمین خرید کر مسجد کے لئے وقف کر دی، مسجد کے علاوہ انسانی خدمت کے لئے بھی وقف کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع فرمایا، مُخَیریق نامی صاحب نے اپنی اراضی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وصیت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وقف فرما دیا (فتح الباری:۵؍۳۰۱) اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے اپنے سات باغات کو بنو ہاشم اور بنو مطلب پر وقف فرمایا تھا (سنن بیہقی:۶؍۱۶)
اکثر دولت مند اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اپنی گنجائش اور صلاحیت کے مطابق وقف فرمایا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میٹھے پانی کا کنواں ’’ بئر رومہ‘‘ خریدا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف فرما دیا، (صحیح البخاری ، باب مناقب عثمان بن عفانؓ )حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک باغ اللہ کے راستہ میں وقف فرما دیا، جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں موجود ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف وقف قائم فرمایا؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں اس کے قواعد وضوابط بھی مقرر فرمائے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خیبر کی زمین کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے کہ اصل شئی کو باقی رکھتے ہوئے اسی کی آمدنی کو صدقہ کر دو کہ اصل زمین نہ خرید وفروخت کی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ اس میں میراث جاری ہو؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے فقراء، قرابت دار، غلام، مسافر اور مہمانوں کو اس کا مصرف قرار دیا، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ متولی کو اس میں سے کھانے یا اپنے دوستوں کو کھلانے کی اجازت ہوگی، ذخیرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی، (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الوقف، مسلم، کتاب الوصیۃ، باب الوقف) یہ وضاحت بھی کر دی کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما متولی ہوں گے اور ان کے بعد وہ شخص متولی ہوگا جو آلِ فاروقی میں سب سے بڑا ہو۔
اس طرح یہ پہلا وقف تھا، جس کے مصارف واضح کئے گئے، وقف کرنے والے کی طرف سے شرائط مقرر ہوئیں، اور وقف کی تولیت کے سلسلہ میں صراحت کی گئی؛ چنانچہ شریعت اسلامی میں وقف کے قوانین کی اصل بنیاد یہی وقف فاروقی ہے، اس کے بعد صحابہ کی جانب سے بہ کثرت وقف کا اہتمام کیا گیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ جن صحابہ کو بھی مالی گنجائش تھی، انھوں نے وقف کیا ہے: لم یکن أحد من أصحاب صلی الہ علیہ وسلم ذو مقدرۃ الا وقف‘‘ (المغنی لابن قدامہ: ۸؍ ۱۸۵) مشہور فقیہ علامہ ابن قدامہؒ نے متعدد صحابہ کے اوقاف کا ذکر کیا ہے، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مکان اپنے لڑکے پر وقف کر دیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروہ کے پاس واقع اپنی ایک زمین اپنے لڑکے پر وقف کی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ انھوں نے بڑی قیمت ادا کر کے ایک کنواں خرید کیا اور اسے وقف کر دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ ینبع‘‘ میں ایک زمین وقف کی تھی، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ میں، مصر میں اور مدینہ میں اپنے مکانات وجائیداد اپنی اولاد پر وقف کئے تھے، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ اور مصر میں اپنا گھر اپنی اولاد پر وقف کیا تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ وہط‘‘ نامی مقام کی اراضی اور مکہ کے مکان کو وقف علی الاولاد فرمایا تھا، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ ومدینہ کے مکانات کو وقف علی الاولاد کیا تھا (المغنی: ۸؍۱۸۶) —– اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ میں وقف کرنے کا عام ذوق تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ خود اپنی اولاد پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اولاد کو کو خوش حال ومستغنی چھوڑ کر جانا فقیر وومحتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف کے لئے جو شرائط مقرر کی تھیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وقف کی ہوئی چیزوں میں وقف کرنے والے کے منشاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف کی ہوئی چیز سے وقف کرنے والے کی شرط کے دائرہ میں رہتے ہوئے متولی بھی استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ وہ اسے فروخت نہیں کر سکتا، اور متولی چوں کہ خود وقف کرنے والا بھی ہو سکتا ہے؛ اس لئے یہی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ خود وقف کرنے والا بھی وقف کی ہوئی چیز سے استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ مسجد کے سوا جو بھی وقف ہو، اس کا آخری مصرف فقراء اور حاجت مند ہوں گے، چاہے وقف کرنے والے نے اس کی صراحت کی ہو، یا نہیں کی ہو؛ کیوں کہ وقف کا اصل مقصد اجروثواب کا حصول ہے اور اجروثواب حاصل کرنے کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے لئے اس کا استعمال ہو یا اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے۔
وقف پر نہ و قف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے، نہ اس پر متولی کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ اُن لوگوں کی جن کو اس سے نفع اٹھانے کا حق دیا گیا ہے؛ بلکہ وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے: ھو حبسھا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ(درمختار مع الرد، کتاب الوقف: ۳؍ ۴۹۳) چوں کہ اسلام میں صرف عبادت ہی کارِ ثواب نہیں ہے؛ بلکہ انسانی خدمت بھی باعث اجروثواب ہے؛ اس لئے وقف کا دائرہ بہت وسیع ہے، جیسے فقراء کو نفع پہنچانے والی چیزوں کا وقف درست ہے، اسی طرح ایسا وقف بھی درست ہے، جس سے فقراء اور مال دار دونوں فائدہ اٹھا سکیں، یہاں تک کہ خود اپنی اولاد پر وقف کرنا بھی درست ہے (دیکھئے: درمختار، فصل فیما یتعلق بوقف الاولاد:۳؍ ۶۰۴) ؛ چنانچہ مدارس، مساجد، یتیم خانے، غرباء کی امداد کے لئے قائم کئے ہوئے ادارے، دینی یا عصری تعلیم کے خیراتی ادارے، مریضوں کے علاج، بیواؤں کی کفالت اور اس طرح کے مقاصد کے لئے قائم ہونے والے ادارے، جن کا مقصد تجارت کرنا اور کسی خاص فرد کے لئے مادی نفع حاصل کرنا نہ ہو، وہ سب کے سب اوقاف میں داخل ہیں۔
وقف بِل کیوں قابل قبول نہیں؟
موجودہ حکومت نے جو ۱۹۹۵ء کے قانون میں ترمیمی بل پیش کیا ہے، وہ وقف کو محفوظ کرنے کے بجائے اس کو غیر محفوظ بنانے کی منصوبہ بند سازش ہے؛ اس لئے کہ اس ترمیم کے مطابق:
(۱) وقف بذریعہ استعمال کو ختم کر دیا گیا ہے، یعنی وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں یہ بات درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد، درگاہ یا قبرستان استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے ہے تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا، اب وقف بذریعہ استعمال کے خاتمہ سے یہ ہوگا کہ جو مسجد، مدرسہ، درگاہ یا قبرستان صدیوں سے اس مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے، اگر مال گزاری ریکارڈ میں ان کا اندراج نہیں ہے تو ریاستی حکام اس پر ناجائز قبضہ کر سکتے ہیں، اور اس کی وجہ سے مسجدوں اور دیگر اوقاف پر فرقہ وارانہ دعوے اور اختلافات بھی بڑھ جائیں گے؛ حالاں کہ ہندو مذہبی مقامات کے لئے اسی اصول کو تسلیم کیا گیا ہے، اور جو جگہ یا عمارت عرصہ سے مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے، اس کو اسی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
(۲) سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور مسلمان نمائندوں کی تعدا بڑی حد تک کم کر دی گئی ہے، پہلے صرف ایک غیر مسلم وقف کونسل کا رُکن ہو سکتا تھا، اب ان غیر مسلم اراکین کی تعداد بحیثیت رکن وبحیثیت عہدہ ۱۳؍ ہو سکتی ہے، اوردو غیر مسلم اراکین تو لازماََ شامل ہوں گے۔
پہلے ریاستی وقف بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم اس کا چیئر پرسن ہو سکتا تھا، جب کہ باقی سارے ارکان مسلمان ہوتے تھے اور انتخاب کے ذریعہ آتے تھے، اب بورڈ کے ۷؍ ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں، اور دو ارکان کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، نیز ارکان کو وقف بورڈ منتخب نہیں کرے گا؛ بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔
(۳) یہ شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایکزیکیٹو افسر مسلمان ہوگا، اب اس شرط کو بھی ہٹا دیا گیا ہے، اب اس کے بجائے ریاستی حکومت کوئی غیر مسلم چیف ایکزیکٹیو افسر بھی مقرر کر سکتی ہے، اور اس عہدہ کے لئے وقف بورڈ کی سفارش کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
غرض کہ مسلمانوں کی نمائندگی کو خاص طور پر اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کہ لازمی مسلم ارکان کی تعداد کم کر دی گئی ہے، اور لازمی غیر مسلم اراکین کو شامل کر دیا گیا ہے، اور چیف ایکزکیٹیو افسر کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے، یقیناََ یہ تجاویز دستور ہند کی دفعہ (۲۶) کے بالکل منافی ہیں،جس میں کہا گیا ہے:
’’ اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں، ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا، (الف) مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا (ب) منقولہ اور غیر جائیداد کے مالک ہونے اور اس کو حاصل کرنے کا اور (ج) ایسی جائیداد کا قانون کے بموجب انتظام کرنے کا ‘‘
اس طرح عملاََ وقف بورڈ غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلا جائے گا، جو نہ وقف کے احکام شرعیہ سے واقف ہوں گے، نہ ان کی اس سے اعتقادی وابستگی ہوگی اور نہ ان کو اس سے کوئی ہمدردری ہوگی؛ اس لئے یہ بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں سے وقف کو چھیننے کی ناپاک کوشش ہے۔
اس کے برعکس اترپردیش، کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو وغیرہ میں ایسے قانون موجود ہیں، جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں، بہار اینڈومینٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں، ہندو اینڈومینٹ بورڈ، شوتمبر جین اینڈومینٹ بورڈ اور ڈگمبرجین اینڈومینٹ بورڈ، ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے، گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے اراکین بھی لازمی طور پر سکھ فرقےمیں سے ہوں گے۔ (جاری)
Comments are closed.