ظلم و جبر اور جھوٹ و بہتان  کا بلڈوزر

 

ڈاکٹر سلیم خان

وطن عزیز میں بی جے پی کی صوبائی سرکار وں نے اپنے مخالفین خاص طور مسلمانوں کو سزا دینے کا کام بلڈوزر کے ذریعہ شروع کیا    لیکن اب ہندو فرقہ پرست تنظیمیں مساجد پر اس کے استعمال کا مطالبہ کرنے لگی ہیں ۔ یہ سلسلہ شملہ کے سنجولی  سے شروع ہوکر منڈی پہنچا اور اب راجستھان  پہنچ گیا ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ  کے مطابق ہندوستان میں "تین لاکھ غیر قانونی مساجد” ہیں اور اس بدزبان نے یہ بہتان بھی لگایا  کہ یہ مساجد "دہشت گردوں کی افزائش گاہ” بن سکتی ہیں۔اس لیے انہیں شملہ ماڈل یعنی عوامی احتجاج کے ذریعہ منہدم کیا جانا چاہیے۔   اس ملک میں ہر عمارت کی جانچ پڑتال کی جائے تو کوئی نہ کوئی قانونی کمی نکل ہی آئے گی۔  کون جانے ایودھیا میں رام مندر کا نقشہ منظور ہوا یا نہیں اور اگراس کے مطابق کام ہوا تو اس میں پانی کیسے چلا آیا؟  لیکن عوام نہ تو ایودھیا میں احتجاج کرنے کے لیے گئے  اور نہ نئی پارلیمانی عمارت کے سامنے جس کے اندر پہلی ہی بارش  میں سیلاب آگیا۔ اس لیے کہ فرصت کس کے پاس ہے؟ مکیش امبانی کا محل بھی متنازع ہےلیکن کوئی وہاں نہیں پھٹکتا۔  نوئیڈا میں دو ٹاور سرکار نے گرائے مگر عوام وہاں جلوس لے کر کبھی نہیں گئے ۔ یہ دراصل نفرت انگیزی کی سیاست ہے جس کے تحت بلڈوز سے لوگوں کو پیار آرہا ہے لیکن جب یہ خود ان پر چلے گا تو ہوش ٹھکانے  آئے گا اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی باری کبھی نہیں آئے گی تو یہ اس کی خوش  فہمی ہے۔  

اس معاملے کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بلڈوزر ناانصافی پر کمبھ کرن کی نیند سونے والا سپریم کورٹ اب  اچانک  بیدار ہو گیا ۔  اس  نے ایک ماہ میں  دوسری بار بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی ناانصافی کے ننگے ناچ کو ہدف تنقید بنایا ۔ عدالتِ عظمیٰ  نے اس بار  کہا  کہ جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی کی جائیداد  کو منہدم کرنے کی  بنیاد نہیں ہے اور اس طرح کے اقدامات ملک کے قوانین کو بلڈوز کرنے جیسے ہیں ۔ اس سے قبل 2 ستمبر کو جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے دورانِ سماعت پوچھا تھا کہ کسی گھر کو صرف اس لیے کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ اس کا مالک  ملزم یا مجرمانہ معاملے میں سزا یافتہ ہے۔ عدالت نے یہاں تک کہا تھا کہ ’’صرف اس وجہ سے انہدام کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملزم یا مجرم ہے… اگر تعمیر غیر مجاز ہے، تو ایسا ہی ہو، اس میں کچھ ہموار ہونا پڑے گا۔ ہم فیصلہ کریں گے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ  بلڈوزر کے بے دریغ استعمال کا حقیقی  مقصد تجاوزات ہٹانا نہیں ہوتا  بلکہ وہ  تو ایک بہانہ ہوتا   ہے۔ اس کا ہدف  مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکا کر اپنی سیاسی دوکان چمکانا یا  اپنے مخالفین کو ڈرانا دھمکانا ہوتا  ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی سے نکل کر سماجوادی پارٹی میں جانے والے دوہندو سیاستدانوں کی جائیدادوں کو بھی بلڈوزر سے روند دیا گیا۔  ستمبر کے اوائل میں عدالتِ عظمیٰ نے  قوانین کی خلاف ورزی کرکےتباہی کرنے والی میونسپلٹی کو روکنے کے لیے ایک طریقۂ کار وضع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ بنچ نے تسلیم کیا تھا  کہ اس بابت  رہنما خطوط وضع کرکے  اسے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ 17 ستمبر کی  سماعت کے دوران عدالتی رہنمائی متوقع ہے۔ وطن عزیز میں بلڈوزر کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کا کھیل2017میں شروع ہوا ۔ اس کے بعد وہ  بڑے زور و شور کے ساتھ اترپردیش  سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا لیکن عدالت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ کاش کے عدالت اس کو روکنے کے سات سال قبل کرتی تو لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جاسکتا تھا  کیونکہ اس ظالمانہ اقدام سے تقریباًساڑھے سات لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے   خبر ہے۔ ریاستی حکومتیں فوراً انصاف دینے کے نام پر بے قصور لوگوں کے  گھر اجاڑ کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ ملک کا عدلیہ ناکارہ ہوچکا ہے اور وہ اس معاملے میں افضل و برتر ہے۔   بعید نہیں کہ یہ بات  عدالتِ عظمیٰ کو ناگوار گزری ہو  اور وہ حرکت میں آیا ہو خیر دیر آید درست آید کی مصداق خوابِ خرگوش سے بیدار ہونے والے عدلیہ کے بارے میں یہی  کہنا پڑے گا؎

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو                             آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

سپریم کورٹ  میں جسٹس رشی کیش رائے، سدھانشو دھولیا اور ایس وی این بھٹی کی بنچ  کے سامنے  آدرش گجرات کے ایک مقدمہ  تشویش کا سبب بن گیا  ۔ کھیڑا ضلع کے  جاوید علی محبوب میاں سعید کے خلاف  یکم ستمبر کو ایک  فوجداری شکایت درج کرائی گئی تو میونسپل  حکام نے ان کے خاندانی مکان کو بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کردینے کی دھمکی دے دی ۔ اس مقدمہ  کی  سماعت کے دوران یہ بھی  بتایا گیا   کہ ان کے خلاف تجاوزات کا مقدمہ درج ہونے کے بعد میونسپل حکام نے اہل  خاندان کو گرفتار بھی کیا تھا ۔سعید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کتھلال گاؤں کے ریونیو ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا موکل زمین کا شریک مالک تھا۔ اگست 2004 میں گرام پنچایت کی طرف سے منظور شدہ  قرارداد میں اس زمین پر مکان بنانے کی اجازت دی گئی ۔ اس میں  ان کے خاندان کی تین نسلیں دو دہائیوں سے مقیم تھیں۔ وکیل نے سپریم کورٹ کے 2 ستمبر کے حکم کا بھی حوالہ دیا، جس میں اس نے مکانات کو گرانے سے پہلے کچھ رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔اس معاملے میں  سماعت  کے بعد، بنچ نے کہا کہ کسی فرد  کا کسی جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا جائیداد کو گرانے کی بنیاد نہیں ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے مزید یہ تبصرہ کیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ریاستی کارروائی قانون کی حکمرانی کے تحت ہوتی ہے، خاندان کے ایک فرد کی طرف سے خلاف ورزی خاندان کے دیگر افراد یا ان کی قانونی طور پر تعمیر شدہ رہائش کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔  اس کا مطلب صاف ہے کہ جس ملک میں سرِ عام یہ زیادتی ہوتی ہے وہاں قانون کو اپنے پہیوں تلے روندنے والے  بلڈوزر کی حکمرانی ہوتی  ہے۔ سپریم کورٹ  کی بنچ نے بلڈوزر دھاریوں  سے  کہا کہ سعید کے خلاف صرف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور قانونی عمل کے ذریعے عدالت میں  ثابت ہونا باقی ہے۔اس لیے  عدالت انہدام   کی ان دھمکیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک  ایسے ملک میں ناقابل تصور ہے جہاں  قانون کی بالادستی ہے۔ فی الحال ملک  کے کمل چھاپ حکمراں قانون کو اپنا زیردست سمجھتے ہیں  اس لیے عدالت کے ذریعہ ایسی جارحانہ  کارروائیوں  کو ملکی قوانین پر بلڈوزر چلانے کی مصداق سمجھنا صد فیصد  درست  ہے۔  یہی وجہ ہے کہ عدالت نے گجرات حکومت کو نوٹس جاری کرکے  چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہےاور تاکید کی ہے کہ سعید کے گھر کو اگلے حکم تک گرایا نہ جائے۔

سپریم کورٹ نے 17ستمبر کو اپنی دوسری سماعت منگل کو انہدامی غنڈہ گردی بنام  بلڈوزر ایکشن پر یکم اکتوبر تک  مکمل پابندی لگا دی ہے۔ بلڈوزر کارروائی پر ریاستوں کو پھٹکار لگاتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ بلڈوزر انصاف کی گردان بند کی جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ بلڈوزر کے نام ظلم و ناانصافی کا ننگا ناچ چل رہا ہے اس لیے اس انصاف کہنا ہی غلط ہے ۔ عدلیہ بار بار اصرار کر رہی ہے  قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی تجاوزات کو ہٹایا جائے لیکن جو اپنے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو قانون سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بلڈوزر نہیں رکے گا اور وہ اپنے رویہ پر قائم و دائم ہیں۔  اس کا دفاع کرتے ہوئے سرکاری وکیل یعنی سالیسٹر جنرل نے عدالت میں ڈھٹائی سے  کہا کہ نوٹس کے بعد ہی غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے  اسی لیے  جسٹس بی آر گوائی کو کہنا پڑا  کہ سڑکوں، گلیوں، فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر کی گئی غیر قانونی تعمیرات کو مناسب ضابطے کی تکمیل کے بعد ہی  انہدام کی اجازت دی جائے گی۔

ہندو مسلم  فرقہ پرستی کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکانے والی بی جے پی سرکار کے وکیل کی داڑھی میں تنکہ اس وقت  سامنے آگیا جب جسٹس بی  آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ کے سامنے سالیسٹر تشار مہتا نے خود کہہ دیا کہ ایک مخصوص کمیونٹی یعنی مسلمانوں  کو نشانہ بنانے کا الزام غلط ہے۔ یہ  غلط بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔تشار مہتا صاحب بھول گئے ہیں مگر ملک کے عوام نہیں بھولے کہ کس طرح امسال فروری میں  دہلی کے اندر  ڈی ڈی اے نے ریٹ مائنر وکیل حسن کے گھر کوغیر قانونی تعمیرات کے نام  دے کربلڈوزر سے منہدم کردیا تھا ۔ اترکاشی کے سلکیارا سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو بچانے میں جب  دنیا کےقابل انجینئر اور غیر ملکی  مشینیں بھی ناکام ہو گئیں تو وکیل حسن کی ٹیم نے 26 گھنٹوں کی انتھک محنت اور کوشش سے ٹنل میں پھنسے 41 مزدوروں کو محفوظ طریقے سے باہر نکال لیا تھا۔ڈی ڈی اے حکام نے آس پاس کے گھروں کو چھوڑ صرف وکیل حسن کے گھر کو بلڈوزر ایسے وقت میں سے منہدم کردیا  تھا جب وہ اور ان کی اہلیہ گھر پر نہیں تھے۔  گھر میں صرف  چھوٹے بچے تھےجن کے سامنے مکان کو مسمار کر کے انہیں سڑک پر تنہا چھوڑ کر یہ سفاک لوگ چلے گئےتھے۔اب عدالت کہہ رہی ہے کہ  غیر قانونی مسماری کا ایک بھی مسئلہ ہے تو یہ آئین کی روح کے خلاف ہے لیکن جن کی رگوں میں شیطانیت دوڑتی ہو ان  سے روحانیت  کی توقع بے سود ہے۔

Comments are closed.