ایک ملک ایک انتخاب کے احمقانہ دلائل  کا پوسٹ مارٹم

 

ڈاکٹر سلیم خان

وطنِ عزیز میں کہ1952ء سے 1967ء تک تمام انتخابات ایک ساتھ ہوتے تھے۔ اس کے بعد لاء کمیشن نےاٹل جی کے زمانے میں (1999ء) میں پانچ  برسوں کے اندر لوک سبھا اور تمام قانون ساز اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کرانے کا مشورہ دیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کے بعد مودی جی نے اقتدار سنبھالا تو  2015ء میں  پارلیمانی کمیٹی نے اس نظام کو دو مرحلوں میں نافذ کرنے کی تجویز پیش کی مگر سرکار نے اسے ٹھنڈت بستے میں ڈال دیا  ۔  8؍ سالوں کے بعد سابق صدر رام ناتھ کووند کی قیادت میں ایک  کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے 62؍سیاسی جماعتوں سے رائے طلب کی تو 32؍ نے `ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی حمایت کردی جبکہ 15؍ جماعتوں نے مخالفت بھی کی اور باقی 15؍ جماعتوں نے کوئی جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ کووند کمیٹی  نے بھی   پہلے مرحلے میں  لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں کرانے کی سفارش کرنے کے بعد 100؍ دنوں کے اندر مقامی  بلدیاتی انتخابات بھی مکمل  کرنے کا مشورہ دیاہے۔  دوسرے مرحلے میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی ساتھ ہی کروا نے کی تجویز ہے۔   اب مودی سرکار اس تجویز کو  سرمائی اجلاس میں منظور کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

’ایک ملک ایک انتخاب‘ کے حق میں دئیے جانے والے دلائل خاصے دلچسپ اور مضحکہ خیز ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کو بار بار  ووٹ دینے  میں اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے گودی میڈیا کے  ٹیلی ویژن چینلس کچھ امیر کبیر لوگوں  کی رائے  نشر کرکے یہ  تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں  کہ پوری قوم  کو اس پر اعتراض  ہے۔  وہی ترجمان اگر ان رائے دہندگان سے پوچھ لے کہ انہوں نے کتنی بار لائن لگا کر ووٹنگ کی ہے توزیرو بٹا سناٹا پھیل جائے گا۔ اس طبقے  کے پاس مختلف تفریحات کے لیے تو وقت ہے لیکن ووٹ دینے کے لیے نہیں ہے  کیونکہ  کسی بھی سرکار کے  آنے یا جانے سے  ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ تمام سیاسی جماعتیں  اس طبقہ  کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔  ویسے سرکاروں کے جانے یا آنے سے  غریبوں کے بھی اچھے دن نہیں آتے مگرعام لوگوں  کو کم ازکم اپنے اوپر کیے جانے والے مظالم کی مخالفت کا ایک موقع ضرور مل جاتا ہے۔  وہ وعدہ خلافی کرنے والی جماعتوں اور اس کے رہنما وں کو سبق سکھا کر خود کو مطمئن کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

ہندوستان کی ایک کثیر آبادی کے لیے انتخابات ایک پریشر والو کی مانند ہیں جس عوام کا غم وغصہ کم کردیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس بار جب حکومت نے گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر پولنگ کو دھیمے کیا تاکہ لوگ بیزار ہوکر لوٹ  جائیں تو کچھ علاقوں  دیر رات تک ووٹنگ ہوتی رہی ۔ یہ دراصل  وہی  غصے کا اظہار تھا جس  نے انہیں  پولنگ بوتھ پر روکے رکھا ۔ اس لیے اکتانے والی دلیل   بالکل بے بنیاد ہے۔  معروف صحافی خشونت سنگھ نے انتخابات کو دورِ جدید کا افیون کہا تھا   کیونکہ اس کے نشے میں عام آدمی عارضی طور پر اپنا دکھ درد بھول جاتا ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے مگر عصرِ حاضر میں یہ تفریح کا بہت بڑا ذریعہ بھی بن گیاہے۔ عام لوگوں کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان جیسے کئی فنکاروں کی اداکاری دیکھنے کا نادر موقع مل جاتا ہے اور وہ ان کے کھیل تماشے سے خوب دل بہلاتے ہیں ۔

 انتخابات کی بدولت  کئی میڈیا چینلس کا پیٹ بھرتا  رہتا ہے۔ سال بھر اس پر بحث و مباحثہ کرکے ناظرین کو الجھائے رکھا جاتا ہے۔ اپنے مشتہرین  اور اس میں سرِ فہرست سرکار کی  تعریف و توصیف کرنے کے ساتھ ساتھ   مخالفین کی   خبروں کو دبانے یا توڑ مروڈ کر نشر کرنے  کی زبردست  اجرت ملتی ہے۔ خبروں اور مباحثوں کے درمیان   پتانجلی اوراونچے لوگ اونچی پسند کا گوا گٹکا وغیرہ  کی اشتہار بازی سے بھی   مال کمایا جاتا ہے یعنی  آم کے آم گٹھلیوں کے دام والی کیفیت ہوتی ہے ۔  ان لوگوں نے اپنے مباحثوں کو اتنا ایکشن پیکڈ بنادیا کہ ناظرین  نے ’ساس بہو کی توتو میں میں‘ دیکھنا چھوڑ  رکھاہے ۔  اس طرح ان خبروں ، مباحثوں اور ریلس سے بیروزگار نوجوان  اپنے آنکھ اور کان کی بھوک مٹانے کے چکر میں  پیٹ کی آگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ’ڈیٹا پیک‘ سستا اور  اناج مہنگابکتا ہے کیونکہ  انٹرنیٹ  کی کھپت اشیائے  خوردونوش سے زیادہ ہے۔

ون نیشن ون الیکشن کے حق میں یہ  دلیل   بھی  دی جاتی ہے کہ بار بار الیکشن سے  کئی مرتبہ خرچ  ہوتا ہے ایک ہی بار میں نمٹ جائے تو معاملہ سستا ہوجائے یعنی اگر مکیش امبانی اپنے بیٹے کی شادی اور  ان کے بھائی انل امبانی کی بیٹی کا  نکاح ایک ہی دن  اسی ہال میں ہوجائے تو کافی بچت ہوجائے گی  لیکن کیا کبھی ایسا ہوگا؟ اور گاجے باجے والے جو دونوں  شادیوں میں  دومرتبہ کمائیں گے وہ اس بچت سے خوش ہوں گے؟ الیکشن کے حوالے   یہی حال عوام کا ہے۔ انتخابی موسم کے  آتے  ہی کئی لوگوں کو روزی روزگار مل جاتا ہے۔ کوئی پوسٹر بینر بنا رہا ہے  تو کوئی جلسہ گاہ کے لیے منڈپ سجا رہا ہے۔ مائک لگانے والے، اسٹیج سجانے والے، کرسی  اور اس کے ساتھ سرخ قالین بچھانے والوں کے  بھی اچھے دن آجاتے ہیں۔ سیاسی جلسوں میں آج کل لوگ از خود نہیں آتے بلکہ اس کے لیے ٹھیکیداروں کی ایک جماعت عالمِ وجود میں آگئی ہے۔ وہ لوگ مزدوروں کی مانند سامعین کو اجرت دے کر لاتے ہیں ۔ عوام کو بھی  دوچار  مرتبہ شہر میں  مفت سیر سپاٹے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ لوگ شہر میں اپنے اعزہ و اقارب سے ملاقات بھی کرلیتے ہیں۔  آمدورفت کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنے والے ٹھیکیداروں کو اچھا خاصہ آرڈر مل جاتا ہے۔

  اس طرح  سیاستدانوں کے لوٹ کی کمائی  کا کچھ حصہ عوام تک پہنچتا ہے اور ماہرین معیشت  کا  اتفاق ہے کہ  دولت کی ریل پیل سے خوشحالی آتی ہے۔  ایسے میں کوئی بھولا بھالا انسان اگر یہ کہہ دے کہ اسی خرچ کے سبب سیاستداں بدعنوان ہوتے ہیں تو یہ اس بیچارے کی نادانی  ہے۔ رشوت کا خون جس کی زبان سے لگ جائے اس کی حرص و ہوس اسے  دولت بٹورنے میں مصروف رکھتی ہے اور اس کا پیٹ تو جہنم کی آگ ہی بھر سکتی ہے۔  انتخابات کے دوران اس دولت سے عام لوگوں کے پیٹ   کی بھوک مٹ جاتی ہے۔ ان بدنصیبوں کو کبھی کبھار بنادقت دوو قت کی پیٹ بھر  روٹی  مل جاتی ہے۔    آج کل انتخابی کامیابی کے لیے ’میڈیا وار روم ‘ بنایا جاتا ہے تاکہ جنگ کی حکمت عملی وضع کی جاسکے ۔ وہاں بیٹھ کر جھوٹ کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے اور نت نئے فتنے پھیلائے جائیں  ۔ اس چکر میں کئی پریشان حال صحافیوں کا بھی  بھلا ہوجاتا ہے ۔

ون نیشن و الیکشن  کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے سرکاری خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم ہوجائے گا ۔  یہ بات درست ہے مگر اس کے لیے تین گنا زیادہ  ای وی ایم مشینوں اور وی وی پیٹ کی ضرورت پڑے گی ۔ کیا  نئے قانون کو گھسنے سے کوئی جن نمودار ہوکر وہ مشینیں فراہم کردے گا؟  کیا ان کو خریدنے اور درست رکھنے کا خرچ سرکاری خزانے سے نہیں آئے گا؟ ؟ اس کے علاوہ جب  لوگ ایک ہی مرتبہ میں تین ووٹ دیں گے تو اس پر وقت بھی زیادہ صرف ہوگا ۔  اس  کی ایک صورت تو یہ ہے کہ پولنگ بوتھ کی تعداد بڑھائی جائے  تاکہ مقررہ مدت میں لوگ اس کام سے فارغ ہوسکیں ۔ پولنگ بوتھ کے بڑھنے سے  ان میں کام کرنے والوں کی تعداد بھی تین گنا ہوجائے گی ۔  اس لیے بار بار ٹرانسپورٹ پر جو   تو بچے گا مگر دیگر سارے اخراجات  وہی رہیں گے اور  تین گنا زیادہ مشینوں  کی خرابی درستگی کا خرچ اضافی  ہوگا جو ایک مرتبہ استعمال ہونے کے بعد آرام فرمائیں گی۔  پچھلے انتخاب کے دوران  چند ہی مقامات پر ووٹ ڈالنے والے اور گنے جانے والوں کی تعداد یکساں تھی۔   انتخابی کمیشن کےپہلے و بعد کے اعدادو شمار میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ایک ساتھ ووٹنگ کے بعد نہ جانے کتنے پارلیمانی ووٹ اسمبلی اور بلدیاتی ووٹرس پارلیمانی مشین میں شمار ہوں گے؟

عام لوگوں کو سرکاری خزانے کی بچت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اول تو الیکشن پر ہونے والا یہ خرچ پورے بجٹ کا ایک نہایت چھوٹا حصہ ہے اور دوسرے  سرکاری خزانے سے بہت کم رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ حکومت اگر بجٹ کا خاطر خواہ حصہ  تعلیم پر خرچ کرتی تو ملک کے 78فیصد خوشحال لوگ اپنی اولاد کو بیرونِ ملک  پڑھائی  کے لیے نہیں بھیجتے۔  اس دیش بھگت حکومت کو تو فوج پر ہونے والا خرچ بھی کھٹک رہا ہے اسی لیے اگنی پتھ اسکیم نافذ کی گئی اور اگنی ویز کے نام پر رنگروٹ بھرتی کرکے چار سال میں انہیں بغیر کسی سہولت کے فارغ کردینے کی سازش رچی گئی۔ فوجیوں کی پنشن  کٹوتی  کرکے ارکان پارلیمان کا وظیفہ بڑھایا جاتا ہے۔  حکومت سڑکیں بنارہی ہے اور وزراء اس کے ٹھیکوں میں کروڈوں روپیہ کمارہے ہیں ۔ عام لوگوں پر ٹول ٹیکس لگا کر ان کا خون چوسا جارہا ہے۔ یہ  نئی چمچماتی سڑکیں خزانے کے ساتھ عوام کو لوٹنے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ غریب       عوام کے جی ایس ٹی کی کمائی سے ان کا وزیر اعظم ساڑھے آٹھ ہزار کروڈ کے جہاز میں عیش کرتا ہے۔  اس لیے سرکاری خزانے کی بچت میں عام لوگوں کو چنداں دلچسپی نہیں ہے۔    اس لیے ’ایک ملک ایک انتخاب ‘ میں سرکار کا تو فائدہ ہوسکتا ہے مگر عوام کا نقصان ہے۔

(۰۰۰۰۰۰جاری)

Comments are closed.