خواتین کو مقام تقدس کس نے دیا ؟

مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
بغیر کسی تعصب اورجانب داری کے یہ بات پوری قوت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذھب ہے جس نے خواتین کو ان کا حقیقی مقام ہی نہیں دیا بلکہ اس کے تقدس سے دنیاکومتعارف بھی کرایا۔اسلام اورنزول قران سےپہلے کے راٸج تصورات میں اوربالخصوص یونانی فلسفہ میں خواتین کو انسان تک ماننے سے انکار کیاگیا، مگراسلام اس کے لیے ایک مسیحا بن کر آیا اوراس کی حیثت اورمقام ومرتبہ سے دنیاکوروشناس کرایا، کسی نے انسان سے الگ مخلوق کہاتو کسی نے مردوں کی خدمت گاریعنی تارن کے ادھیکاری۔ مغرب نے جاٸداد اورپراپرٹی میں مرودں کے برابرحصہ داری اورووٹنگ کا حق دیدیا اوردنیاکے سامنے برہنہ اوررسوا کردیا تو سمجھاکہ عورت کو اس کامقام اورحق دیدیا۔مشرقی تہذیب میں خواتین کو اپنے ساتھ حصول معاش میں کام پہ لگالیا۔ گھروں سے نکال کر سڑکوں پرلاکھڑا کیا اورکچھ کوٹے مختص کردیٸے توسمجھاکہ عورتوں کو اس کا مقام دیدیا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیامیں عورتوں کا حقیقی مقام” اس کے تقدس، اس کی عصمت اوراس کے حرمت کاتحفظ ہے “۔اگریہ نہیں ملا تو کچھ بھی نہیں ملا ۔اسلام نے یہی کیاکہ اسے مقام تقدس اورتحفظ عطاکیا اورآج خواتین اس پرجتنافخر اورشکرکریں کم ہے۔ اگرایک عورت کو دنیاکی ساری نعمتیں مل جاٸیں اورشرافت وتقدس کامقام نہ ملے تو کچھ بھی نہیں سب بیکار ہے۔ ایک خاتون کو اعلی سے اعلی ملازمت مل جائے مگر لباس وپوشاک میں یونیفارم کے نام پر ہوس پرستی کاپابند بنادیا جائے تو یہ ملازمت اورپیسہ کسی کام کا نہیں.
خواتین کی آزادی!
انسان ہی نہیں آزادی حیوان کوبھی عزیزہے مگرایسی آزادی جوموت کاسامان بن جائے، ایسی آزادی جس میں تحفظ نہ ہو اس سے تو قید بہترہے۔ آج سب سے بڑی تکلیف ہوس کے پجاریوں کو اسی بات کی ہے کہ اسلام ذہنی مریضوں کی خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بنتانظرآتاہے۔آزادی کےنام پر خواتین کے کردار اورتقدس کوپامال کردینااپناحق سمجھتاہے۔اس کے لیے خواتین کی آزادی، حقوق اورترقی کاراگ الاپتا اورجال بنتاہے۔سڑکوں، گلیوں، بازاروں، سیاسی گلیاروں، دکانوں، ناچ گانوں کی محفلوں، آفسوں، مالس، شورومس اورکال سنٹروں کوآزادی، تعلیمی ترقی اورحقوق کےنام پر خوب آبادرکھناچاہتاہے تاکہ ان کی دکانیں چلتی رہیں۔ عورتوں کاتقدس بھلے ہی پامال ہوجاٸے، اسلام یہی نہیں چاہتا، کیونکہ اسلام عورتوں کے تقدس کی حفاظت چاہتاہے۔ آج مغرب سمیت مشرقی ملکوں میں سیاسی احتجاجوں ۔ کالجز اوریونیورسٹیوں کے پروٹسٹوں اورڈیموسٹیشنوں میں جس طرح دوشیزاؤں اور خواتین کومردوں کے ساتھ گھسیٹاجارہاہے یہ بھی خواتین کے تقدس کی پامالی ہے۔ اپنے حقوق کی آوازبلندکرنامعیوب نہیں ہے مگردنیاکو خواتین کے مقام ومرتبہ اورتقدس کا خیال رکھتے ہوئے موقع دیناچاہیے۔ پارلیمنٹوں اورالکشنس میں اپنی راٸے اورووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ میں حاضری اورلاٸنوں میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ آج دنیا اپنی راٸے دینے کےلیے آن لاٸن سسٹم کااستعمال بڑی آسانی سے کرلیتی ہے، کیا خواتین کے تقدس کے لیے گھروں سے اپنی راٸے اورووٹ کا نظام نہیں بنایاجاسکتا؟ بنایاجاسکتاہے مگردنیا خواتین کوان کامقام نہیں بلکہ انھیں لاٸنوں میں کھڑادیکھناچاہتی ہے۔ اورمغرب نے جوتقدس کا معیاربنایاہے اسے ہی بروٸے کارلاناچاہتی ہے۔ اپنامعیار دنیابھول گٸی ۔مغرب کا ذلت آمیز معیار اورپیرامیٹر یاد رہ گیا۔ ”کہاں سے آئے صدالا الہ الا اللہ “۔
خواتین کی اصل ذمہ داری!
خواتین کی اصل ذمہ داری اوروظیفہ حیات پرسکون ماحول میں انسانی نسل کی آبیاری ہے، دنیانے اس سے یہ بھی چھین لیاہے اوراسے بچوں کی پروش کے ساتھ ساتھ پیسے کمانےکی لاٸنوں میں کھڑاکردیاہے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیامیں خواتین الجھن کاشکارہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے صنف نازک پر ۔خواتین کو ملازمتوں کے ریزرویشن کی ضرورت نہیں، انھیں پرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔کیونکہ ان کی جملہ ضروتوں کی تکمیل اوراخراجات کی ذمہ داری شوہروں اورمردوں اورشادی سے پہلے باپ اوربھاٸیوں پر اس کے بعد شوہر اوراولاد پر ڈالی گٸی ہے۔ اس لیے ان کو معاشی جدوجہدکی ضرورت ہی نہیں ہے۔ الایہ کہ کوٸی نہ ہو۔ اللہ دنیاکو صراط مستقیم کی دولت دے۔ آمین۔
Comments are closed.