ہریانہ اور کنگنا: یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے ؟

ڈاکٹر سلیم خان
ہریانہ کا لوہا گرم ہوگیا تو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی بھی اپنا ہتھوڑا لے کر وہاں پہنچ گئے ۔یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ صوبے میں کانگریس کی آندھی ہے اور اس کے خطابات عام میں بڑی تعداد کے اندر لوگ پہنچ رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم کے جلسوں میں خالی کرسیاں بھی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں ۔ عوام کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل کام ہے مگر یہ میڈیا کے زمانے میں یوٹیوب پر ناظرین کی تعداد سےمقبولیت کی پیمائش آسان ہے۔ وزیر اعظم اور راہل کے گاندھی کے جلسوں کی ویڈیو کا موازنہ کرکے دیکھیں تو راہل کے اپنے چینل پر ان کی تقریر کو ایک لاکھ 37ہزار لوگوں نے دیکھا تو اسی دن مودی کے نام سے چلنے والے چینل پران کو دیکھنے والے ایک لاکھ 14ہزار تھے ۔ اس طرح مودی جی پیچھے تو رہے مگر فرق بہت کم تھا لیکن کانگریس پارٹی کی ویب سائیٹ پر راہل گاندھی کے ناظرین کی تعدادایک لاکھ 8 ہزار تھی جبکہ بی جے پی کی سائیٹ پر مودی جی کو صرف 17 ہزارلوگوں نے دیکھا تھا۔ یہ فرق اپنی اپنی پارٹی کے اندر رہنما کی مقبولیت واضح کردیتا ہے۔ سوشیل میڈیا کے نمبر ون چینل ڈی بی نیوز پر راہل گاندھی کو ایک لاکھ5 ہزار لوگوں نے دیکھا جبکہ اسی پر مودی کو دیکھنے والے 29 ہزار تھے۔ ہندوستان اخبار کی سائیٹ پر راہل گاندھی کو 47 ہزار لوگوں نے دیکھا جبکہ مودی کے ناظرین صرف 4.8ہزار تھے ۔
مندرجہ بالا اعدادو شمار مودی برانڈ کے زوال اور راہل کے عروج کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر اس دوران منڈی کی رکن پارلیمان کے ایک بیان نے ہنگامہ مچا دیا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کسانوں کو رجھانے کی خاطر آسمان اور زمین کے قلابے ملارہے ہیں کنگنا رناوت نے یہ کہہ کر ان کے زخم ہرے کردئیے کہ منسوخ شدہ متنازعہ کسان قوانین کو پھر سے نافذ کردیاجانا چاہیے۔ دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا سیاسی مبصر اس کی توجیہہ نہیں کرسکتا کہ سکرات کے عالم گرفتار ہریانہ بی جے پی کا گلا گھونٹنے کی یہ حماقت اس’ دھاکڑ ‘ اداکارہ نے کیوں کی اور اس نازک موقع پرکسانوں سے’پنگا‘ لینے کی ضرورت کیا تھی؟ لاکھ کوشش کے باوجو د ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ شاید انہیں اپنی فلم ’ایمرجنسی ‘ کو سنسر بورڈ سے منظوری کے بعد سکھوں کے دباو میں روک دینے اور کچھ مناظر کے نکالنے کا حکم گراں گزرا اور اس سے ناراض ہو کر میڈیا میں یہ بھڑاس نکالی گئی لیکن ایک فلم کی خاطر کسی صوبے میں اپنی پارٹی کی لٹیا ڈبو دینا کون سی دانشمندی ہے؟
کنگنا رناوت کو حکمت و دانش سے خدا واسطے کا بیر ہے اور اگر ایسانہ ہوتا تو بی جے پی ان کو ٹکٹ دے کر ایوان پارلیمان کی رکنیت سےکیوں نوازتی؟ لیکن یہ داوں الٹا پڑ گیا۔وہ پر امید تھیں کہ مودی جی انہیں سمرتی ایرانی کی جگہ مرکزی وزیر بنادیں گے اور اس کے بعد فلم ریلیز ہوگی تو مودی بھگت اس کو سُپر ہٹ کردیں گے مگر نہ تو انہیں وزارت ملی اور نہ فلم لگی الٹا مودی سرکار اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ کنگنا کو فلم کی ریلیز میں تاخیر کے سبب مکان کو بیچنے پر مجبور ہوناپڑا ۔ ویسےاپنی اس جائیداد کی فروخت اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ ممبئی میں پالی ہل پر واقع یہ بنگلہ انہوں نے 2017ء میں تقریباً 20.7؍کروڑ میں خریدا تھا۔ بعد میں، دسمبر 2022ءمیں، انہوں نے آئی سی آئی سی آئی بینک سے جائیداد گروی رکھ کر فلم بنانے کی خاطر 27؍کروڑ کا قرض لیا۔ قرض واپسی کے دباو میں اس سر پھری اداکارہ نے اگست 2024ءکو 40؍کروڑ میں جائیداد فروخت کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی اور مجبوراً اسے 32؍کروڑ میں فروخت کرنا پڑا ۔ اس کا نزلہ انہوں نے اپنی پارٹی پر اتار دیا ۔ کنگنا کو تو خیر ان کی توقع کے مطابق قیمت میں صرف 8کروڈ کا نقصان ہوا ہے مگر ہریانہ میں بی جے پی اس بیان کی کیا قیمت چکائے گی یہ وقت بتائے گا ۔
کنگنا رناوت کے اس موقع پر کسانوں سے متعلق اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان دیکھ کر یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ کہیں انہوں نے اپنی پارٹی سے ناراض ہوکر کانگریس سے سپاری تو نہیں لے لی ورنہ میڈیا میں آکر یہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ ’’میں جانتی ہوں کہ یہ بیان متنازعہ ہو سکتا ہے، لیکن تینوں زرعی قوانین پھر سے واپس لائے جانے چاہئیں ۔ کسانوں کو خود اس کا مطالبہ کرنا چاہیے‘‘۔ اپنے احمقانہ مطالبے پر زور دیتے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ قوانین کسانوں کے لیے فائدہ مند تھے لیکن کچھ ریاستوں میں کسان گروپوں کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے مرکز نے انہیں منسوخ کر دیا یعنی مودی سرکار درست ہونے کے باوجود ڈر گئی ۔ کانگریس کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ تھا اس لیے وہ اس کو لے اڑی ۔ اس پر ظاہر ہے بی جے پی نے پھٹکار لگائی ہوگی ورنہ وہ اپنے تھوک کو چاٹنے پر کیونکر مجبور ہوتی ۔
کنگنارناوت نے اپنی معذرت میں بھی بی جے پی کو یاد دلایا کہ وہ اس کی حامی تھی اور تائید کرنے والوں شاباشی دے رہی تھی ۔ وہ بولیں ’’میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ تینوں زرعی قوانین کو واپس لایا جانا چاہئے اور کسانوں کو اس سلسلے میں وزیر اعظم سے درخواست کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ میری اس بات سے مایوس ہیں۔ جب یہ قوانین لائے گئے تو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی لیکن وزیر اعظم نے بڑی حساسیت اور ہمدردی کے ساتھ ان قوانین کو واپس لے لیا۔ یہ ہم سب کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے الفاظ کا وقار برقرار رکھیں‘‘۔ کنگنا رناوت جیسی خود سر اور بدزبان اداکارہ کے منہ سے الفاظ کے وقار کی بات سن کر ایسا لگا جیسے ایمرجنسی فلم کا کوئی کامیڈی سین چل رہا ہے۔ اس ڈانٹ پھٹکار نے موصوفہ کو ان کی حیثیت کا احساس دلایا اسی لیے انہوں نے کہا ’’ اب مجھے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہے کہ میں صرف ایک فنکار نہیں ہوں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کارکن بھی ہوں۔ میرے خیالات میرے اپنے نہیں، پارٹی کا موقف ہونے چاہئیں ۔ اگر میں نے اپنی باتوں اور سوچ سے کسی کو مایوس کیا ہے تو معذرت خواہ ہوں میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں۔‘‘
الفاظ کے واپس لینے سے کیا ہوتا ہے؟ پچھلے انتخاب میں جن کسانوں نے بی جے پی کی حمایت کی تھی وہ اسے واپس لے کر حساب کتابچکائیں گے۔ کنگنا کا یہ پچھتاوا کتنے دنوں تک باقی رہے گا یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ٹھیک ایک ماہ قبل 26 اگست کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی رکن پارلیمان کنگنا رناوت کے کسانوں کی تحریک کے بارے میں دیئے گئے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور انہیں ہدایت دی تھی کہ ان کو پارٹی کے پالیسی امور پر بولنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے مستقبل میں اس سے گریز کریں ۔ یہ ہدایت انہیں بی جے پی کے مرکزی دفتر میں طلب کرکے اعلیٰ کمان کی جانب سے دی گئی تھی۔ اس وقت پارٹی نے ایک بیان میں یہ صفائی بھی پیش کی تھی کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان کنگنا رناوت کا کسانوں کی تحریک کے تناظر میں دیا گیا بیان پارٹی کی رائے نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنے اختلافی بیان میں کہا تھا کہ کنگنا رناوت کو پارٹی کی طرف سے پالیسی کے امور پر بات کرنے کی نہ تو اجازت ہے اور نہ ہی وہ اس کی مجاز ہیں۔‘‘ پارٹی کی پھٹکارکاکنگنا پر ایک ماہ تک اثر رہا اور پھر وہ دُم ٹیڑھی ہو گئی۔
پچھلے ماہ کنگنا رناوت نے نہایت تضحیک آمیز بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب میں کسانوں کی تحریک کے نام پر شرپسند عناصرتشدد پھیلا رہے ہیں۔ وہاں عصمت دری اور قتل ہو رہے تھے۔ اگر ہماری اعلیٰ قیادت مضبوط نہ رہتی تو کسانوں کی تحریک کے دوران پنجاب بھی بنگلہ دیش میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔ کسان بل کو واپس لے لیا گیا ورنہ ان شرپسندوں کی بہت لمبی سازش تھی۔ وہ ملک میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں اگر بی جے پی چار سو پار ہوجاتی تو اس بیان کی پاداش میں کنگنا رناوت کو منڈی سے کیلاش پربت بھیج دیا جاتا لیکن اب کمل کی اکڑ کافور ہوگئی ہے ۔ کنگنا رناوت فی الحال بی جے کی مجبوری بنی ہوئی ہیں۔ بی جے پی کے لیے ایک ایک رکن اہم ہوگیا ہے۔ اسی لیے اسے کہنا پڑ رہا ہے’’ بی جے پی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ اور سماجی ہم آہنگی کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے پرعزم ہے‘‘۔کنگنا کے اس اشتعال انگیز بیان نے بی جے پی کے رہنماوں کا گاوں میں گھسنا محال کردیا ہے ۔ عام کسان انہیں ڈنڈے لے کر دوڑانے لگے ۔ وزیر اعظم کے جلسوں میں شرکاء کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ کوروکشیتر کے اندر مودی کی پہلی ہی ریلی اسی طرح سُپر فلاپ ہوگئی جیسی کہ فلم ’ایمرجنسی ‘ ہونے والی ہے ۔
Comments are closed.