جب تری یاد کو بانہوں میں بسا لیتی ہوں

اسماء کرن

جب تری یاد کو بانہوں میں بسا لیتی ہوں

اپنی پلکوں پہ ستارے ہی سجا لیتی ہوں

 

دسترس تجھ پہ نہیں ہے مجھے پل بھر کیلئے

تشنگی پھر بھی نگاہوں کی بڑھا لیتی ہوں

 

دل جو گھبرائے کبھی رات کی تنہائی میں

تیری یادوں کے چراغوں کو جلا لیتی ہوں

 

تیرے دکھ کیوں میں زمانے پہ کروں گی ظاہر

اک خزانہ ہی سمجھ کے میں چھپا لیتی ہوں

 

کل رہوں یا نہ رہوں سو یہی کرتی ہوں میں

سارے لمحات محبت کے چرا لیتی ہوں

 

روٹھ جانے کا میں موقع اسے دیتی ہی نہیں

جانِ من کہہ کے "کِرن” اس کو منا لیتی ہوں

 

Comments are closed.