حکومت مہاراشٹر کی اقلیتی امور کی وزرات کا نیا تماشہ داستان دکن، کیا یہی فروغ اردو ہے: فرید احمد خان

ممبئی( پریس ریلیز )اورنگ آباد میں منعقد ہونے والے "داستان دکن” پروگرام کی مناسبت سے اردو کارواں کے صدر فرید احمد خان نے حسب ذیل پریس ریلیز جاری کی ہے. شہر ممبئی سے شائع ہونے والے اہم اردو اخبارات میں آج حکومت مہاراشٹر کی جانب سے اورنگ آباد میں منعقد ہونے والے داستان دکن پروگرام کے بڑے اشتہارات نظروں سے گزرے۔
اس کو دیکھ کر کچھ اہم سوالات اور نکات ذہن میں گردش کر رہے ہیں کہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی جس کے مقاصد میں ادبی سیمینار، سمپوزیم،اردو کے ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد اور اہم کتابوں مصنفوں کو نیز فروغ اردو کے زمرے میں ادیبوں، اداروں اور اساتذہ کو ایوارڈ کا دیا جانا شامل ہے، یہ سب کچھ چھوڑ کر اردو اکیڈمی کے نام سے کروڑوں روپے کا بجٹ غیر ضروری کاموں میں خرچ کیا جا رہا ہے جس کی روشن مثال 26 جنوری 2024 کو گیٹ وے آف انڈیا پر ہونے والا اردو مشاعرے کے نام پر اردو آرکسٹرا کا پروگرام تھا،اور اسی سلسلے کو اگے بڑھاتے ہوئے اورنگ آباد میں اب داستان دکن کا دو روزہ تماشہ ہونے جا رہا ہے۔
26 جنوری 2024 کے سالانہ مشاعرے میں مَیں نے شرکت کی تھی تب بھی یہ احساس ہوا تھا کہ مشاعرے کو کم اہمیت دیتے ہوئے صوفی سنگیت کے نام پر ایک ہائی پروفائل میوزیکل شو کو ترجیح دی گئی تھی اور اسی مناسبت سے اردو اکیڈمی کا مشاعرے کا 15 لاکھ فنڈ اور وزرات اقلیتی امور کی جانب اسپیشل فنڈ فراہم کر کے ایک خطیر رقم سے ایک لاحاصل تماشہ برپا کیا گیا تھا۔اور اب سونے پہ سہاگہ اسی قسم کا دوسرا پروگرام مہاراشٹر کے ثقافتی مرکز اورنگ آباد میں داستان دکن کے نام سے دو روزہ پروگرام منعقد ہونے جا رہا ہے۔
اگر اس پروگرام میں مشاعرہ رکھا جاتا یا مزید ادبی تعلیمی اور اردو ثقافت سے تعلق رکھنے والے پروگرام منعقد کیے جاتے تو الگ بات تھی،مگر یہاں بھی قوالی اور غزل نائٹ اور صوفی کنسرٹ کو ترجیح دی گئی ہے۔یہ دونوں پروگرام بھی ہضم ہو جاتے اگر وزرات اقلیتی امور حکومت مہاراشٹر فروغ اردو کے ضمن میں اردو اکیڈمی کی بنیادی ضروریات اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ٹھوس کام کرتا ۔
ہم خادمان اردو و محبان اردو اکیڈمی کی خستہ حالی کو دیکھ کر بیدار ہیں ہم نے پانچ سال اردو اکیڈمی کے خالی دفتر کو دھول چاٹتے ہوئے دیکھا کہ جس میں محض اب ایک ایگزیکٹو آفیسر ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا اسٹاف نہیں ہے۔کئی منظور شدہ عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں2021 سے 2023 تک تین سال کے ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے کیونکہ شاید اب تک اس کی فائل کو منظوری دینے کے لیے متعلقہ وزرات کو وقت نہیں ملا۔
حکومت مہاراشٹر کی جانب سے تین اردو گھروں کا قیام عمل میں آیا ہے حال ہی میں میں نے شولا پور کے اردو گھر کا دورہ کیا اور پایا کہ ایک بڑی اور شاندار عمارت کی تو تعمیر کر دی گئی ہے مگر اس کو مسلسل ماہانہ بنیادوں پر چلانے کے لیے جس فنڈ کی ضرورت ہے اسے ریلیز نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کا فنڈ جاری کیا گیا ہے۔وہاں انفراسٹرکچر کو بھی مکمل کرنے کے لیے مزید فنڈ کی ضرورت ہے جس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
ناندیڑ کے اردو گھر میں بجلی بجلی چلے جانے کی صورت میں بڑے انورٹر یا جنریٹر کی تنصیب نہیں کی گئی ہے اور چھوٹی چھوٹی کئی ضرورتوں اور سہولتوں کا فقدان ہے۔
مالیگاؤں کے اردو گھر کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے مگر یقیناً وہاں بھی کوئی امید افزا صورتحال نہیں ہوگی اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے اسے چلانے میں وہاں کی انتظامیہ کو بھی دشواری آ رہی ہوگی۔
میں ذمہ داران حکومت سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہم بیشتر محبان اردو ایک رات میں طلعت عزیز کی غزلوں کو اور صابری برادرز کی قوالیوں کو اور دیگر صوفی سنگر کےنغموں کو نہ سن کر حقیقی معنوں میں فروغ اردو ادب چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کام جو مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہو جس کے فیوض اور مثبت اثرات سالہا سال تک اردو کے فروغ کیلئے پڑ سکیں ہماری پہلی ترجیح وہی ہونی چاہیے ۔
جس حکومت کی پانچ سالہ معیاد میں اردو اکیڈمی کی تشکیل نہ ہو سکی اور اب کسی بھی وقت اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو سکتا ہے ایسے میں ہم اس سرکار سے کیا توقع کر سکتے ہیں مگر ہم نے اس سرکار کا اصلی چہرہ ضرور دیکھ لیا ہے اور رخ سے نقاب سرک گئی ہے،اور سب کچھ یاد رکھا جائے گا، کچھ بھی بھلایا نہ جائے گا۔
حکومت اپنی جانب سے جو جی چاہے کرے، اسے اختیار ہے ،مگر جمہوریت میں عوام کو اپنی رائے رکھنے کا اور اس کا اظہار کرنے کا پورا حق ہے اور ہم اس حق کا استعمال کرتے رہیں گے چاہے کسی کی حکومت ہو۔
Comments are closed.