اوقاف کے تحفظ کے لئے قانونی دائرے میں احتجاج کی تمام شکلیں اختیار کی جائیں گی: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور کانپور میں تاریخ ساز ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کا انعقاد، اکابر علمائے کرام کی شرکت

کانپور: 26؍ اکتوبر 2024ء (پریس ریلیز) اگر موجودہ وقف ترمیمی بل 2024ء پاس ہو گیا تو یہ مسلمانوں کیلئے حد درجہ خطرناک ہوگا، آپ کی مساجد، مدارس،مکاتب،عیدگاہیں، قبرستان،درگاہیں،خانقاہیں خطرے میں پڑ جائیں گی، اس لئے اس بل کے خلاف جدوجہد ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور ہمیں ہر قیمت پر اس کو روکنا چاہئے،پوری قوت کے ساتھ ہر سطح پر حکومت تک یہ بات پہنچانی چاہئے کہ ہم قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے پر امن طریقے پر احتجاج کی جتنی شکلیں ہو سکتی ہیں، ہم ان تمام شکلوں کو اختیار کریں گے۔ اگر ضرورت پڑے گی تواس ملک کا مسلمان جیلوں کو اس طرح بھر دے گا کہ حکومت کے پاس جگہ کم پڑ جائے گی۔مذکور خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے شہر کانپور کی قدیم مرکزی دینی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم جامع مسجد پٹکاپور میں مہتمم و متولی محی الدین خسرو تاج کی سرپرستی میں منعقدہ تاریخ سازعظیم الشان”تحفظ اوقاف کانفرنس“سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا نے بتایاکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضہ سرکار کا ہے، دوسرے نمبر پر عام لوگوں کا ہے، اس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اکثر و بیشتر اوقاف کے مقدمے وقف بورڈ اور حکومت یا اس کے زیر اثر چلنے والی کمپنیوں اور اداروں کے درمیان چلتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ وقف بورڈ مقدمہ ہار جائے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقف بورڈ کے ذمہ داروں پر ناجائز دباؤ ڈالا جاتاہے کہ وہ وقف بورڈ کا مقدمہ ہارنے کی کوشش کریں، مقدمہ سے متعلق دستاویز عدالت میں داخل نہ کریں،حاضری کے وقت غیرحاضر ہو جائیں،یہ ابھی کی صورتحال ہے، ایسے حالات میں ہم غور کریں کہ جب معاملہ کلکٹر کے ہاتھ میں چلا جائے گا جو کہ حکومت کا ہی نمائندہ ہوتا ہے تو ہم اس سے انصاف کی امید کیسے کر سکتے ہیں کہ اگر وقف پراپرٹی کوئی مقدمہ وقف بورڈ اور حکومت کے درمیان ہوتو کیا وہ حکومت کے خلاف فیصلہ دے سکے گا؟اور انصاف کے ساتھ مسلمانوں کو ان کا حق دلایا جائے گا؟نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہزاروں مقدمات جو ہمارے چل رہے اور جو ناجائز قبضوں کو برخاست کرنے کی کوششیں جاری ہیں وہ سب کے سب ناجائز قبضے ہو جائیں گے، زمینیں حکومت کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہایک لمیٹیشن ایکٹ ہے، حکومت کی جانب سے ہی ایک رعایت یہ ہے کہ اگر 12سال سے زیادہ کا بھی ناجائز قبضہ ہو تو قابض کو وہاں سے ہٹایا جائے گا،یہاں بھی وقف کو اس ایکٹ کے تحت رکھا گیا ہے کہ اگر کسی زمین پر 50سال سے بھی کوئی کمپنی،سرکار یا فرد قابض ہو تو اس ناجائز قبضے کو ہٹاکر زمین واپس لیا جائے گا، لیکن وقف ترمیمی بل میں اس رعایت کوختم کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہ رعایت دوسری مذہبی مقدس مقامات کی جو املاک ہیں، ان کے لئے بھی یہی قانون ہے، لیکن مسلمانوں کیلئے اس ایکٹ کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہت ساری ناجائز املاک جس پر حکومتیں 70-70سالوں سے یا اس سے پہلے انگریزوں کے وقت سے قابض ہیں، ایک لمحہ میں وہ ساری چیزیں سرکار کے ہاتھوں میں چلی جائیں گی۔ وقف اسلامی ادارہ اور عبادت ہے، اس لئے ہمیشہ اس کی رعایت رکھی گئی کہ اس کا مینجمنٹ مسلمانوں کا ہو،ایک غیر مسلم کو رکھنے کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی سنٹرل وقف کاؤنسل میں بقیہ مسلمان مینجمنٹ اس کام کو چلائے گا اور مسلمان ہی ان کو منتخب کرے گا، اب جو یہ وقف کا ترمیمی بل لایا جا رہا ہے، ہمارے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جو سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ہیں انہوں نے پورالکھ کر بتایا ہے کہ جو سنٹرل وقف کاؤنسل ہے اس میں بطور عہدہ اور بطور ممبر 14 غیر مسلم اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جتنے عہدے کیساتھ مسلمان ہونے کی شرط تھی ان سب کو ختم کر دیا گیا ہے،اور جو وقف بورڈ ریاستی سطح کے ہوتے ہیں جس میں کم ارکان ہوتے ہیں، ان میں بھی 7-8 غیر مسلم ارکان ہو سکتے ہیں، یعنی 2مسلم رکن کا ہونا لازمی ہے وقف کاؤنسل میں باقی سب غیر مسلم ہو سکتے ہیں، 1ممبر ہونا لازم ہے وقف بورڈ میں مسلمان باقی سب غیر مسلم ہو سکتے ہیں، ایسے حالات میں آپ خود فیصلہ کریں کہ جب یہ مینجمنٹ پورے طور پر غیر مسلموں کے ہاتھ میں چلا جائے گا تو ان کو آپ کی مساجد، مدارس،قبرستانوں اور دیگر اداروں کو وہ ہمدردی ہوگی جو آپ کو ہے؟نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کی جو املاک ہے وقف کی وہ پوری املاک آپ کے ہاتھوں سے چلی جائے گی۔ وقف ترمیمی کے پاس ہونے کے بعد بھی ایک بہت محدود مدت کے اندر پچھلے تمام اوقاف کو ان کے تمام دستاویزات کے ساتھ حکومت کے ریکارڈ میں درج کرانا ہوگا، اس لئے یہ بہت ہی خطرناک قانون ہے، جس کا مقصد صاف ہے کہ مسلمانوں سے ان کے اوقاف کو چھین لیا جائے۔ مولانا نے متعصب ذہنیت رکھنے والوں کی جانب سے کئے جانے والوں مختلف پروپگنڈوں کا جواب دیتے ہوئے مسلمانوں سے بھی کہا کہ وہ صحیح طور پر اس کا کرایہ ادا کریں، اپنی روزی کو حلال کریں۔ قانونی طور پر اپنی وقف کے ساتھ ساتھ ذاتی املاک کی حفاظت کی کوشش کریں۔ ہم اگر کو ئی نئی مسجد،مدرسہ بنائیں تو سرکاری پرمیشن لے کر بنائیں، جذبات میں آکر فیصلے نہ کریں۔
جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کے ناظم مولانا سید حبیب احمد باندوی نے خطاب کے دوران اوقاف پر ہونے ناجائز قبضوں اور غصب کے طریقوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اپنے ہی لوگ اللہ کے لئے وقف کی کی زمینوں پر قبضہ برقرار رکھنے اور اس کا کرایہ ادا نہ کرنے کے لئے تمام طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر منصوبے بناتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں ایسی دکانوں، مکانوں، کارخانوں سے کی گئی تمام کمائی اور عبادتیں ضائع ہو گئی ہیں۔ ہم خود غور کریں کہ ان حالات میں ہماری زندگی میں برکتیں اور آئندہ نسلوں میں دین کا فہم کیسے آسکتا ہے؟ہم میں ہر شخص اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم بھی تو اس گناہ میں ملوث نہیں ہیں، جس کی وجہ سے تمام برکتیں رکی ہوئی ہیں۔
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام نے کہا کہ اوقاف کے خلاف بل تو آج پیش ہوا ہے، لیکن اصل مجرم ہم اور آپ ہیں۔ مولانا نے سوال کیا کہ اوقاف کو بیچنے،ناجائز قبضہ کرنے، کم کرایہ دینے، کرایہ بڑھانے کی بات پر لڑنے مرنے پر آمادہ ہونے، مساجد، مدارس کے مکانات اور قبرستانوں کی زمینوں پر پلاٹنگ کرکے مکانات کی تعمیر اور درگاہوں کی زمینوں کو بیچنے والے کون ہیں؟ ان تمام کاموں میں ہم اور آپ ہی شامل ہیں۔ حضورؐ کا فرمان ہے کہ لوگوں کو ظلم کرنے سے روکو، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر ہمارے کسی بھائی، باپ، بیٹے، رشتہ دار، دوست، ساتھی، پڑوسی نے وقف کی املاک پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے یا کم کرایہ دیتا ہے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو سمجھائیں، یہاں پر ہم دین و شریعت کو سمجھیں،یہ نہ دیکھیں کہ کس سے ہمارا کیا رشتہ اور تعلق ہے۔
اس موقع پر مدرسہ جامع العلوم کے شیخ الحدیث مولانا محمد سعید قاسمی نے بھی اوقاف کے تحفظ کے تعلق سے اپنے خیالات کے اظہار کے دوران اپنے ہی لوگوں کی کمیوں اور حکومتوں کے ناپاک منصوبوں سے آگاہ کیا۔ کانفرنس کا آغاز قاری انعام الحق فریدی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ نظامت کے فرائض مدرسہ کے استاذ مفتی محمد معاذ قاسمی نے انجام دئے، مولوی محمد مسعود نے نعت ومنقبت کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ کانفرنس کی سرپرستی فرما رہے مدرسہ کے مہتمم و متولی محی الدین خسرو تاج نے اکابرین علمائے کرام کا شہر آمد پراستقبال کرتے ہوئے تمام شرکائے کانفرنس کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس میں کثیر تعداد میں شہر کے علماء، ائمہ، متولیان، ذمہ داران مدارس، مکاتب، دانشوران اور عوام و خواص شریک ہوئے۔
Comments are closed.