حرمین شریفین کی لفٹوں کے بارے میں ناصرالدین مظاہری
ہم انڈیا والے اکثر وبیشتر تو جانتے ہی نہیں کہ لفٹ کیسے چلتی ہے اس کا ضابطہ کیا ہے، اس کے قواعد کیا ہیں، اب جب ہمیں حرمین شریفین جانے کی سعادت ملتی ہے تو وہاں کثیر منزلہ عمارتوں اور پلازوں سے سابقہ پڑتا ہے بیس پچیس منزلوں پر مشتمل مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عمارتوں میں رہائش ملتی ہے، کئی کئی لفٹیں ہوتی ہیں، بعض لفٹیں نیچے سے بالکل اوپر تک جاتی ہیں اور بہت سی لفٹیں ایسی ہوتی ہیں جو درمیان میں ہی ختم ہو جاتی ہیں ،معتمرین ،زائرین اور حجاج کرام کو خاص طور پر لفٹوں کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر لینی چاہئیںورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے ہی ہوٹل کی لفٹوں کے جال اور جنجال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ، اوپر سے نیچے اورنیچے سے اوپر آتے جاتے رہتے ہیں ، انہیں پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کس منزل پر اترنا ہے ،کدھر کو جانا ہے ،چاروں طرف ایک جیسی لفٹیں ،ایک جیسی عمارتیں، ایک جیسے ڈیزائن ،ایک جیسے لوگ، ایسی صورت میں لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں۔
میں نے ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں اپنے ایک ساتھی کو دیکھا جو لنگی اور بنیان میں پریشان پھررہے ، میں نے ان سے پوچھا خیریت تو ہے ؟آپ لنگی اور بنیان میں یہاں پر کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا اجی تین گھنٹے ہو گئے ،مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ میرا کمرہ کون سا ہے ، لفٹ رکی اورمیں نکل پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بھٹک گیا اب جدھر جاتا ہوں ایک ہی طرح کے کمرے، ایک ہی انداز کی راہداریاں ،کیا کروں کیا نہ کروں؟ کس سے پوچھوں ؟میں نے کہاکہ سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ لنگی بنیان میں کیوں گھوم رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اصل میں میں نے احرام دھلا تھا ،احرام کو اوپر کی چھت پرخشک کرنے کے لئے گیا، اب جب واپس کمرے آنا چاہا تو مجھے نہ تو کمرہ ملا نہ لفٹ ملی، زینے کے ذریعے کچھ دور نیچے آیا اور پھر لفٹ کا سہارا لیا لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ میں اپنے کمرے تک پہنچ ہی نہیں سکا، کافی دیر سے میں یہاں سے وہاں وہاں سے یہاں پھر رہا ہوں ۔میں نے انھیں بتایا کہ آپ اپنے ہوٹل کے دوسرے حصے میں آگئے ہیں اِدھر ہم لوگوں کی رہائش ہی نہیں ہے۔ اندازہ یہ ہوا کہ اوپر سے جب نیچے آنے لگے تو لفٹ بدل گئی جس کی وجہ سے لفٹ نے اُن کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھما دیا۔
بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کثیر منزلہ عمارت ہونے کی وجہ سے اپنے کمرے کا نمبر بھول جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لیے کاؤنٹر پر باقاعدہ کارڈ موجود رہتے ہیں آپ اپنے ٹور والے کارڈ پر اپنے کمرے اور اپنی منزل کا نمبر ضرور نوٹ کر کے رکھیں کیونکہ حرمین شریفین کے ہوٹل عالمِ اصغر سے کم نہیں ہوتے ،وہ چھوٹی دنیا محسوس ہوتے ہیں ۔ ایک دفعہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اجیاد روڈ کے شرکاء الخیرمیں ٹھہرا ہوا تھا،لفٹوں کے ذریعے سے ہی آمد و رفت ہوتی تھی ،ہم دونوں نیچے جا رہے تھے ایک جگہ لفٹ رکی میرے منہ سے نکلا یہاں والے نکل جائیں لیکن اُن لوگوں کے ساتھ میری اہلیہ جو بالکل آگے کھڑی تھی وہ بھی نکل گئی اور لفٹ چل پڑی، اب میں پریشان ہو گیامیری اہلیہ چودہویں منزل کی لفٹ سے باہر نکلی تھی۔میں واپس جانے کے لیے لفٹ کا سہارا لیتا تو کافی دیر ہو جاتی کیونکہ جمعہ کے دن لفٹوں میں بڑی بھیڑ بہت ہوجاتی ہے، میں زینے کے ذریعہ اوپر پہنچا تو وہاں کا منظر بدلا ہوا تھا پتہ یہ چلا کہ ہوٹل انتظامیہ اپنے کمروں اور اپنی عمارتوں کی ترتیب میں ایک خاص نظام رکھتی ہے بہت سی منزلیں ایسی ہوتی ہیں جو رہائش کے لیے نہیں بلکہ پارکنگ کے لیے، بجلی کے سسٹم کے لیے یا اور دیگر ضروریات کے لیے زیر استعمال آتی ہیں ،میں زینے کے ذریعے 14 منزلیں تو چڑھ گیا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نہ لوگ تھے اور نہ ہی وہاں رہائش گاہ تھی مجبورا ایک دوسری لفٹ کے ذریعے میں پھر نیچے آیا اور اپنی لفٹ میں سوار ہو کر چودہویں منزل پہنچا تو وہاں پر ایک صوفے پر محترمہ آرام وسکون کے ساتھ تشریف فرما تھیں، انہیں کون بتائے کہ اُن کی اِس جلد بازی کی وجہ سے مجھے کتنے جوکھم جھیلنے پڑے۔
بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو لفٹ میں پہلے آگے کر دیتے ہیں اور پھر خود سوار ہوتے ہیں اِدھر کسی نے لفٹ کا بٹن دبا دیا ہے بچہ اندر ہے اور اس کے والدین باہر ہیں اور لفٹ چل پڑی یہ بھی نہیں پتہ کہ لفٹ نیچے جا رہی ہے یا اوپر جا رہی ہے ،جانا کہاں ہے ؟ایسی صورت میں والدین تو پریشان ہوتے ہی ہیں معصوم بچہ اور بھی زیادہ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی عمارت میں بچہ کہیں بھی اتر سکتا ہے اور پھر گھنٹوں کے لیے بچہ غائب ہو سکتا ہے ،اگرچہ وہاں پر نظام بڑا چست اور درست ہوتا ہے ہر چیز کیمرے کی نظر میں ہوتی ہے لیکن تاتریاق اذعراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود والا معاملہ ہو جاتا ہے، آپ ہمیشہ لفٹوں میں چڑھتے وقت اپنے بچے کا ہاتھ تھام کر رکھیں، وہاں کی لفٹوں میں ایک خاص خوبی یہ ہوتی ہے کہ سینسر لگا ہوتا ہے یعنی اگر آپ لفٹ کے درمیان میں موجود ہیں تو لفٹ ہرگز بند نہیں ہوگی حتی کہ اگر لفٹ کا دروازہ بند ہونے لگے اور آپ اپنے جسم کا کوئی بھی حصہ ہاتھ یاپاؤں دروازے کے سامنے کر دیں تو دروازہ کھلا رہے گا اِن باریکیوں اور لفٹ کے نظام کو سمجھ کر استعمال میں لایا جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے ورنہ لفٹ اور لیفٹ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
بہت سارے حضرات وہاں پہنچ کر اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوتے ہیں، اصل میں وہاں پر چابیاں نہیں ہوتی بلکہ انہیں کارڈ جیسی ایک چیز دی جاتی ہے اسی کارڈ جیسی چیز سے دروازے کھلتے ہیں اسی سے دروازے بند ہوتے ہیں ،کمرے کی لائٹ کا سسٹم بھی اسی سے مربوط ہوتا ہے اگر آپ کا کارڈ آپ کے کمرے کے اندر رکھا ہوا رہ گیا اور آپ باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تو پھر آپ سمجھیں کہ اب گھنٹوں کے لیے آپ آزمائش میں مبتلا رہیں گے کیونکہ آپ کے کمرے کی چابی اندر رہ گئی ہے کمرہ لاک ہو چکا ہے اب آپ کاؤنٹر پر جائیں گے، اپنی رپورٹ کریں گے ،وہاں دنیا بھر کی بھیڑ پہلے سے ہوتی ہے ،ان کے پاس دنیا بھر کے کام ہوتے ہیں ، کاؤنٹر والے آپ کے کمرے کی دوسری چابی یعنی دوسرا کارڈ آپ کے حوالے کرنے میں تاخیر بھی کر سکتے ہیں ،آپ اس درمیان میں پریشان بھی ہو سکتے ہیں ممکن ہے نماز کا وقت ہو اور آپ کی نماز بھی چھوٹ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کہیں اور جانا چاہتے ہوں گاڑی باہر کھڑی ہو ساتھی گاڑی کے اندر موجود ہوں اور آپ اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوں ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کے تمام کمرے والے پریشان ہو جائیں ،اِن تمام پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہمیشہ بیدار مغزی کا ثبوت دیں، پریشان نہ ہوں۔
حرمین شریفین میں پہنچ کر آپ کو ہر چیز نئی محسوس ہوگی، حتی کہ پانی کی ٹونٹیاں، وضو خانے ، غسل کھانے ، بیت الخلے ،سب کچھ نہایت ہی جدید ترین اور نہایت ہی معیاری نظر آئے گا ہم انڈیا جیسے ملک میں رہ کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں عام طور پر کمروں میں سادے بیت الخلے نہیں ہوتے کموڈ کا سسٹم بھی جدید ترین ہوتا ہے ایسی صورت میں لوگ طرح طرح کی نا تجربہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔آپ جو کچھ نہیں جانتے وہ جانکاروں سے معلوم کیجئے ہر چیز کا حل موجود ہے ۔
ہر ہوٹل میں نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص ہوتی ہے اسی طرح ہر ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہیں، ہر ہوٹل میں ہر چیز کے لیے مکمل نظام ہوتا ہے آپ کو اپنی ڈائری میں یا اپنے کارڈ پر لکھ لینا چاہیے کہ ہوٹل میں کھانا کون سے حصے میں کون سی منزل پر کھلایا جائے گا، اسی طرح جس حصے میں کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں پر بہت سے ٹور آپریٹروں کا نظام ہوتا ہے ،آپ خوب پہچان کر اپنے ہی ٹور والے کے حصے میں پہنچ کر کھانا کھائیں کسی دوسرے کے حصے اور دوسرے کی میز پر پہنچنے کی حماقت نہ کریں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ۔
بہت سی خواتین اور مرد حضرات کپڑے دُھل کر جب وہ ان کو خشک کرنے کے لیے لفٹ کے ذریعے اوپرجائیں تو خوب دھیان رکھیں کہ آپ اپنے گیلے ہاتھوں سے لفٹ کے بٹن کو چھونے کی کوشش نہ کریں کیونکہ پورا سسٹم بجلی کے ذریعے سے چلتا ہے اگر خدانخواستہ بجلی کا اثر پانی کی وجہ سے بٹن پر ظاہر ہو گیا تو کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے ،بعض مرتبہ اس غلطی کی وجہ سے خواتین اور مرد حضرات کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
Comments are closed.