اسرائیل سنوار کے قتل کا جشن منا سکتا ہے، مگر جنگ کا اختتام ابھی باقی ہے۔ تحریر: سُنندا کے دتہ رے ترجمہ: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

حماس کے کمانڈر یحی سنوار کے خاتمہ elimination (قتل کے لیےسیاسی طور پر درست اصطلاح) پر اسرائیل کا جشن شاید قبل از وقت ہو، اگر یہ قتل، اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کے الفاظ میں "ایسی تبدیلی کی راہ ہموار کرے جو غزہ میں ایک نئی حقیقت کا باعث بنے” تو یہ تبدیلی شاید صرف حماس اور ایرانی کنٹرول کے خاتمہ کے بجائے مغربی ایشیا کے مستقبل کی سیاست کی نشاندہی کرتی ہے،حقیقی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ خاص طور پر اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی نجی رہائش پر ڈرون حملوں کے بعد، دونوں جانب کچھ نئی سوچ اپنائی جائے؛ کیوں کہ اب یہ عداوت کی ایک ناقابل تسخیر دیوارنظر آتی ہے، اوسلو معاہدے، جو 1993 میں واشنگٹن ڈی سی اور 1995ء میں طابا، مصر میں تنظیم آزادی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان عبوری معاہدہ کی صورت میں طے پائے تھے، کسی بھی طویل مدتی انتظام کا بنیادی حصہ ہونے چاہیے تھے، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ معاہدے براہ راست مستقبل کی صورت گری کے لیے کم سے کم قابل عمل رہ گئے ہیں۔
حماس کے گذشتہ سال 7 اکتوبر کے حملہ کی شدت، جسے اسرائیلی تشدد کے حالیہ سلسلہ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، فلس۔طین کی غم انگیز تاریخ میں ایک نازک موڑ ثابت ہو سکتا ہے، جسے فلسطینی "نکبہ” یعنی تباہی کے نام سے موسوم کرتے ہیں، وہ سانحہ جس نے 1948ء میں ان کی زندگیوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا تھا، صاف الفاظ میں کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دو ریاستی حل، جس کی یہ کالم نگار اور دیگر لوگ بار بار بات کرتے رہے ہیں، شاید آنے والے کل کے لیے کوئی فیصلہ کن حکمت عملی نہ ہو؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اسے قبول نہیں کرے گا،امریکہ نتنیاہو کو مجبور نہیں کرے گا، اور عالمی نظام اتنا مضبوط یا اتنا خواہش مند نہیں ہے کہ امریکہ کو مجبور کرے، تعداد کی زبان سے زیادہ کچھ بھی بلیغ نہیں ہوتا۔
حیفا میں ایک ملاقات کے دوران، جہاں میں نصف صدی قبل اسرائیل کے اپنے واحد دورہ پر تھا، ہسٹڈروٹ (Histadrut) کے ایک تجربہ کار رہنما نے، جو کہ اس۔رائیل کی قومی تجارتی یونین ہے، مجھے بتایا کہ بھارت کے عوام نے اسے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک بنا دیا ہے، دولت شاید ایک قلیل مدت کے لیے زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے، لیکن وہ اس بات کا قائل تھا کہ طویل مدتی منصوبہ کے طور پر افردای طاقت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، اس طاقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جس میں افراد کو صحیح طور پر ترغیب اور تحریک دی جائے، نظم ونسق اس عرب طاقت یعنی عرب لیجن، جسے بعد میں رائل جارڈن آرمی کا نام دیا گیا، کے لیے نہایت اہم ہے جو سب سے زیادہ موثر رہاہے، اور جب برطانوی جنرل سر جان گلب اس کے کمانڈر تھے، تو یہ سب سے زیادہ موثر ثابت ہواتھا، ہسٹڈروٹ کے رہنما کے نظریہ کے مطابق، 9ء9 ملین اسرائیلی 473 ملین عربوں کے سامنے ایک چھوٹا سا حریف ہے، عرب ممالک کی بے پناہ تیل کی دولت کا اس سے تعلق نہیں، یہ ان کی افرادی قوت ہے جس کی بدولت حماس اور حزب اللہ اسرائیلی حملوں کی شدت کو برداشت کر رہے ہیں، جس میں صرف غزہ میں 42000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں، حماس کی عددی طاقت نے ہی اسے ابھی تک سینکڑوں یرغمالیوں کو حوالہ کرنے سے روک رکھا ہے، جنہیں اس نے 7 اکتوبر کو قید کیاتھا، جب اس نے تقریباً 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک بھی کیا تھا، اکتوبر کے اوائل میں جب نیتناہو نے اسرائیلی مہم "آپریشن سورڈز آف آئرن” (آہنی تلواروں کی مہم) کا اعلان کیا، تو اس کے دو مقاصد تھے: حماس کو ختم کرنا اور یرغمالیوں کو آزاد کرانا، یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جانوں کے شدید نقصان ،شہروں، دیہاتوں اور بنیادی سہولیات کی تباہی کے باوجود، یہ مہم ناکام رہی ہے، نتنیاہو حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے، ابھی تک، ویسے بھی وہ تمام یرغمالیوں کو آزاد نہیں کروا سکا۔
مزید برآں، حماس اور حزب اللہ کی طرف سے بھرتیوں کی مہم کے ختم ہونے کا کوئی اشارہ نہیں،جب کہ عرب آبادی میں ہر سال بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، جس پر کوئی روک تھام نہیں ہے، اور پیدائش پر کنٹرول کا کوئی سوال نہیں؛ لہذا فلسطینی کاز کی خاطر شہید ہونے کے لیے ہمیشہ لوگ موجود رہیں گے، بہرحال، اسرائیل کو جو حاصل ہوا ہے، وہ بہت ہے، بشرطیکہ اسرائیلی مزید کے خواہاں نہ ہوں، اوسلو معاہدے، جو ناروے کے دارالحکومت میں خفیہ مذاکرات کے بعد شروع ہوئے، اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسرائیل کو فلسطینی قومی کونسل(پی ایل او) کی طرف سے تسلیم کیا گیا اور اسرائیل نے فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم اور دو طرفہ مذاکرات میں پارٹنر کے طور پر پی ایل او کو تسلیم کیا، اگرچہ امن وامان قائم کرنے کی یہ کوشش اقوام متحدہ کی 242 اور 338 نمبر کی قراردادوں کی بنیاد پر امن معاہدہ کا درجہ حاصل نہیں کرسکی، پھر بھی یہ اس۔رائیلیوں اور فلس۔طینیوں کو بغیر کسی مزاحمت اور تصادم کے ساتھ ساتھ رہنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
دنیا بھر میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ادارہ جاتی خود مختاری قومیت کے لیے لازمی نہیں ہے، چاہے دلائی لاما غائب ہو جائیں، مرکزی تبتی انتظامیہ اور اس کے جمہوری ادارے اس کے روحانی جانشیں کے طور پر قائم رہیں گے، سری لنکا کے تمل بھی ایک قوم ہیں، چاہے 30 سالہ تلخ اور خوں ریز جنگ کے بعد بھی کولمبو اختیارات کو تفویض یا منتقل کرنے کے مسئلہ کو زیر بحث نہ لائے، کیوبیک (کینیڈا کے وسط میں ایک صوبہ)کو باضابطہ علاحدگی کی اجازت نہیں دی گئی، 1920 کے معاہدۂ سیورے کے تحت کردستان کی خود مختاری کبھی بھی حقیقت کی صورت نہیں اختیار کرسکی، جب کہ عراق کے کردوں کی خود مختاری، جو تقریباً 20 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، 2005 کے آئین میں برقرار رکھی گئی ہے، جو کردستان کو ایک خود مختار وفاقی علاقہ قرار دیتا ہے، منتخب کرنے کے لئے بہت سے ماڈلز موجود ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کے قضیہ کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت ایک وفاقی نظام کی تشکیل کوئی ناممکن کام نہیں ہونا چاہیے، جس میں غزہ اور مغربی کنارہ کے عوام کے لیے مخصوص زون اور عراق کی طرح نو فلائی زون شامل ہوں، ایک رکاوٹ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود، اسرائیل نے کبھی بھی فلسطینیوں کی خودمختار شناخت کو تسلیم نہیں کیا، اسرائیل کے نزدیک فلسطینی یا تو عرب ہیں یا اردنی جو کسی اور نام کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل مغربی کنارہ کو "یہودا وسامرہ” (Judea and Samaria) جیسے بائبل کےافسانوی ناموں سے پکارتا ہے،اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہودا و سامرہ گریٹر اسرائیل (Eretz Yisrael) کا حصہ ہیں، اسرائیل اپنی چالوں سے مغربی کنارہ کو 165 "جزیروں” میں تقسیم کر رہا ہے جہاں فلس طینیوں کی آبادیاں ہیں، اور 230 یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں، پانچ لاکھ سے زائد اس رائیلی مغربی کنارہ میں آباد ہوچکے ہیں، جس میں مشرقی یروش لم شامل نہیں ہے، جہاں مزید 2 لاکھ 20 ہزار یہودی رہائش پذیر ہیں، مزید 20 ہزار اس رائیلی شہری شام سے جبراًحاصل کردہ گولان کی پہاڑیوں میں قائم بستیوں میں آباد ہیں۔
علاوہ ازیں، مغربی کنارہ اب ایک ایسا میدان بن چکا ہے جسے فوجی راستوں کے جال میں لپیٹ دیا گیا ہے، جہاں ہر موڑ پر اس رائیلی پہریداروں کے مینار ایستادہ ہیں، یہاں کسی بھی پرندہ کو پر مارنے کے لیے بھی اسرائیلی فوج کی اجازت چاہیے، رپورٹس بتاتی ہیں کہ فلسطینیوں کے کھیت، باغات اور زیتون کے درخت اسلحہ برداروں کی دست درازی سے محفوظ نہیں، کوئی طاقت یا ارادہ اس رائیلیوں کو اس مضبوط قلعہ نما حفاظتی ڈھانچہ کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا جو 1967 کی جنگ کے بعد سے تعمیر ہوتا چلا آ رہا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے آئرن ڈوم کے پہرہ دار سے کہا جائے کہ وہ اپنی ڈھال ہٹا لے جو اسرائیل کو فلس طینی حملوں سے بچاتی ہے، عالمی برادری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان طوفانی دباؤ میں فلسطینیوں کی خودمختاری کے ٹمٹماتے چراغ کو بجھنے نہ دے۔
Comments are closed.