میرا یارجانے کہاں گیا؟ از: عبید اقبال عاصم، علی گڑھ

۱۴/ اکتوبر ۲۰۲۴ کی رات دس بجے جب مولانا ندیم الواجدی کے شکاگو (امریکہ) میں ’’حالت سفر‘‘میں انتقال کی خبر کی تصدیق ہوگئی تو رنج وغم کی جو کیفیت گذری اس کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔حسن اتفاق کہ میں ان دنوں دیوبند میں ہی تھا۔ایسے موقعوں پر شریعت اسلامیہ کی ہدایات کے مطابق ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘، پڑھا افسوس وملال کا اظہار نیز تعزیت مسننونہ پیش کرنے کے لئے مولانا کے جدی مکان پر رات میں ہی حاضری دی، مولانا کے سبھی بھائیوں اور احباب و اقرباء سے تعزیت پیش کی، صبر کی تلقین، ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی گئی، ظاہر سی بات ہے انسان بالخصوص صاحبِ ایمان کے اختیار میں اس سے زیادہ کچھ ہے بھی نہیں کیوں کہ ہرحالت میں اسے ایک نہ ایک دن اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے،جب کسی کا وقت آجاتاہے تو وہ ایک لمحہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتا۔انسان اتنا مجبور و لا چار ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا وقت آخر کہاں ہونا ھے؟ ’’فنا‘‘ـ ہر’’ذی نفس‘‘ کا مقدر ھے اور ’’بقا‘‘ تو اس اللہ رب العزت کی شان ھے جو مالک السموت والارض ھے۔رب واحد کے فیصلے کے سامنے سرنگوں ہوجانا مومن ومسلم کی شان ھے، اطاعت وفرماں برداری کی دلیل ھے۔ مولانا کی وفات یقینی طور پر ایک عظیم سانحہ ھے ایک اچھے خلیق، ملنسار’صاحب فہم وبصیرت’ ذی علم وقلم کا ملک الموت کے ہاتھوں اچک لیا جانا اکثر وبیشتر متعلقین کے دلوں پر شاق گذرا لیکن دنیا کا کوئی بھی شخص جانے والے  کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا چنانچہ مولانا کے لئے ایصال ثواب ودعائے مغفرت اور جملہ متعلقین کے لئے صبر جمیل کے علاوہ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ھے اور اسی کا مظاہرہ دیکھنے کو بھی ملا۔ شروع میں تو صدمہ کی شدت نے کچھ لکھنے کی فرصت نہیں دی،اب جبکہ اس حادثہ ٔ فاجعہ کو دنوں کا’’ایک دہا ‘‘سے زیادہ بیت چکا ھے تو مولانا مرحوم سے متعلق اپنی یادداشتوں کو یکجا کرنے کی کوششیں کر رہا ہوں۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ اگر حالات وواقعات کی ترتیب پر غور کیاجائے تو بچپن کی ان بھولی بسری یادوں سے  بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جب کسی بھی قسم کا شعور نہ  ہونے کے باوجود ہر روز صبح کے وقت اخبار کا مطالعہ ضروریات زندگی میں شامل تھا انہیں دنوں ’’روزنامہ الجمعیۃ‘‘کے کسی نہ کسی شمارے میں مضمون نگاروں میں  ایک نام ’’ندیم الواجدی‘‘ نظر سے گذرتا اور میں تصور میں بسے اس مضمون نگار کی تلاش میں سرگرداں رہتا کیونکہ اس نام کے لاحقہ میں ’’دیوبند‘‘ کا اضافہ ہوتا(یہ وہ زمانہ تھا جب مضمون نگاری اسکی ترسیل اور اشاعت ’’چیستاں‘‘ معلوم ہوتا تھا اور عام تصور یہ تھاکہ اخبارات میں لکھنے والی  مخلوق’’ما فوق الوراء‘‘ ھے،ایسا کوئی مضمون نگار اپنی جان پہچان کا ہوتا یا اس سے سلام دعاء ہوتی تو قاری اپنی قسمت پر نازاں ہوتا) پھر دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے ابتدائی دور میں جب شعور بیدار ہوچکا تھا’اور دیوار پر آویزاں مختلف ضلعوں وصوبائی انجمنوں کے اردو وعربی زبانوں پر مشتمل دیواری پرچوں اور سالانہ اجلاس کے موقع پر اسی سائز کے اعلانات میں ”ندیم الواجدی” کا نام نظر آتا تو ذہن کے دریچوں میں محفوظ اس ”نامی گرامی شخصیت” سے ملنے کو طبیعت چاہتی’ حالانکہ دارالعلوم دیوبند کے حاضری رجسٹر میں یہ نام واصف حسین کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن اعلانات واشتھارت میں’’ واصف حسین‘‘ کے ساتھ ’’ندیم الواجدی‘‘ بھی لکھا ہوتا تو ہر شخص کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں رہا کہ دونوں نام ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں پھر اصل نام( واصف حسین) تو رجسٹروں تک ہی محدود ہوگیا اور ”عرفی نام”(ندیم الواجدی) دارالعلوم دیوبند کی چہار دیواری کا ایک ایسا نام بن گیا جو انجمنوں تنظیموں بالخصوص” النادی الادبی "کے اجلاس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا۔ جن دنوں مولانا دورۂ حدیث سے فارغ ہو ئے اس سال راقم عربی سال سوم کا طالب علم تھا مولانا دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے تھے ۱۹۷۴میں دورہء حدیث میں امتیازی نمبروں کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد ہونے والے سالانہ انعامی جلسہ میں حضرت قاری محمد طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) اور دیگر اساتذہ کی طرف سے مولانا کی تعریف وتحسین

کی صدائیں بلند ہوئیں’ تو مولانا سے ملنے کا اشتیاق اور زیادہ بڑھ گیا۔

 

دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ سے قبل مولانا، اس کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف ہوئے تو ہماری ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا جو شروعاتی دور میں شناسائی کی حد تک محدود رہا لیکن مولانا کے بے تکلف رویہ کی وجہ سے بہت جلدپختہ دوستی کی طرف قدم بڑھتے نظر آنے لگے ،اسکے باوجود تکلفات کا سلسلہ بھی حسب سابق بدستور رہا۔

اجلاس صد سالہ سے قبل ہی مولانا نے دارالعلوم کی اس ذمیداری سے سبک دوشی اختیار کر کے (بذریعہ خط وکتابت) ”عربی سیکھیئے” کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو ان کی ذاتی محنت’ فطری صلاحیت’ دھن اور لگن کی وجہ سے بہت کم وقت میں مقبولیت حاصل کرگیا یہ دار الکتاب کی ”پہلی سیڑھی” تھی اسی کے ساتھ ساتھ مرحوم نے علامہ غزالی علیہ الرحمہ کی معروف زمانہ کتاب ”احیاء العلوم” کا اردو زبان میں سلیس ترجمہ ”احیاء علوم الدین” کے نام سے قسط وار شروع کیا جسے اللہ نے قبول خواص وعام عطا کیا۔ اسی زمانہ میں مولانا نے کاروبار کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں کو خوب مضبوط کیا اپنے ذہن سے ہم آہنگ’ دیوبند کے چند ذی شعور ہونہار جوانوں کے ہمراہ صرف ”بیٹھنے بٹھانے” میں ہی پہل نہیں کی بلکہ ”خورد ونوش” کے انتظامات کا دائرہ بھی وسیع کیا’ راقم اگرچہ مولانا کے ”کھاؤ کلب” سے وابستہ نہیں تھا لیکن ان سرگرمیوں سے واقف ضرور تھا اس زمانے میں دیوبند میں ”ہم طعامی” کے بہت سے حلقے قائم تھے ان میں کچھ حضرات کئی کئی گروپس میں شامل تھے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی خیر خبر ملتی رہتی تھی حالانکہ مولانا ہر جگہ کسر نفسی کا مظاہرہ کرتے لیکن اپنے علم وفضل کے باعث ہر حلقہ میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے۔

دارالعلوم دیوبند کے ہنگامی حالات (۱۹۸۰تا ۱۹۸۲) میں مولانا کا ذہن ہم جیسے لوگوں سے (جو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے ہمنوا تھے) ہم آہنگ نہیں تھا جسکی وجہ سے نزدیکیوں کا وہ ماحول قائم نہیں رہ سکا جو گذشتہ دو سالوں میں قائم ہوا تھا ،البتہ اس دورمیں بھی سلام وپیام میں کوئی فرق نہیں آیا( مئی۱۹۸۰ سے) علی الاعلان شروع ہونے والے دارالعلوم دیوبندکے قضیہ سے باشندگان قصبہ خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے اطراف میں بسنے والوں کی وہ اکثریت (جو اس وقت زندگی کی نصف صدی کا سفر طے کر چکی ھے) اس امرسے بخوبی واقف ہے کہ اس ”نظریاتی اختلاف” نے ”جنگ وجدل” کا ایسا رو پ اختیار کر لیا تھا جس نے ”دوستیوں کے زاویے” اور ”رشتے داریوں کے جغرافیے” تبدیل کر دئیے تھے ان نازک ترین حالات میں ،قاری محمد طیب صاحب کے انتہائی وفادار’ اور قریبی عزیز، رشتے دار، (مولانا قاری محمد عبد اللہ سلیم صاحب مدظلہ العالی) کی صاحبزادی سے مولانا ندیم صاحب کا رشتہ طے ہوناقاری صاحب کے عزیزوں کو اگرچہ عجیب سا لگ رہا تھا لیکن مولانا کے نظریات سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود ان کی علمی، قلمی وفطری صلاحیتوں کے پیش نظر یہ رشتہ نہ صرف منظور ہوا بلکہ الحمدللہ تا حین حیات مولاناندیم الواجدی ، قاری عبداللہ صاحب کے لائق ترین داماد کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ اس وقت کے تناظر میں حکیم الاسلام سے وابستہ بہت سے ’’طیب نوازوں‘‘ نے اس رشتے داری پر بہت سے سوالات کھڑے کئے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ سبھی نے قاری عبداللہ صاحب کے حسن انتخاب کی داد دی۔

جولائی۱۹۸۳ میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کی وفات کے بعد دیوبند میں چند نوجوانوں کے ذریعے (جس کے سرگرم ممبران میں راقم کے علاوہ فہیم اخترصدیقی، منصور انور خاں مرحوم اور ہندی صحافی اسعد صدیقی سر فہرست تھے) دیوبند میں’’طیب ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، اس کے منصوبوں میں حکیم الاسلام سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد بھی تھا اس کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں مولانا ندیم الواجدی کا نام بھی تھا’ یہیں سے مولانا سے بے تکلفی کا سلسلہ شروع ہوا’ یہ سیمینار اس زمانہ میں اس طریقہ پر تو نہیں ہوسکاجو اس کے لئے تجویز کیا گیا تھاتاہم مقامی سیمینار کی شکل میں منعقد ہوا، البتہ مولانا سے زیادہ قربت کا ذریعہ یہی ’’ سیمینار‘‘ بنا۔

ِغالباً ۱۹۸۵ میں اردو کو اس کا جائز مقام دلوانے کے لئے مشہور ادیب’ رام لعل اور ملک زادہ منظور احمد کی سربراہی میں ’’اردو رابطہ کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے بینر تلے دہلی میں ایک کنونشن منعقد ہوا اس میں دیوبند کی نمائندگی جس وفد نے کی اس میں مولانا کی قیادت میں بہت سے دوستوں کے علاوہ برادر محترم ڈاکٹر نواز دیوبندی’ فہیم اختر صدیقی اور راقم بھی شریک تھے’ دیوبند سے دہلی تک’ کے اس سفر نے ”تکلفات کے حجاب” لپیٹ کر رکھ دیے اور اسی دن سے مولانا ندیم الواجدی بے تکلف دوست بن گئے۔ مولانا کا خاص وصف یہ تھا کہ جیسے جیسے ان کا کاروبار ارتقائی منازل طے کرتا رہا ویسے ہی ویسے مولانا کے دوستانہ روابط میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی منکسر المزاجی بھی بڑھتی رہی۔ دارالکتاب صرف ایک کتب خانہ ہی نہیں بلکہ مولانا کے دوستوں کی بے تکلف بیٹھک تھی مولا نا اپنے دوستوں اور کاروبار دونوں کو ہی بہ یک وقت سنبھالے رہتے۔ ۱۹۹۰ میں راقم کو ”غم روزگار” نے دیوبند چھوڑنے پر مجبور کر دیا لیکن الحمدللہ وطنی محبت نے اپنے حصار میں ہمیشہ قید رکھا جسکی وجہ سے نہ تو اہالیان قصبہ سے کبھی بیگانگت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی بھی طرح کے تعلقات میں کوئی فرق آیا چنانچہ جب بھی مہینہ دو مہینہ میں دیوبند جانا ہوا سبھی سے ملنے جلنے کا سلسلہ بدستور رہا اس فہرست میں مولانا موصوف کا نام نامی سر فہرست تھا۔

اکیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں مولانا نے ماہنامہ’’ ترجمان دیوبند‘‘ نکال کر’’ دیوبند کی ترجمانی‘‘ کا فریضہ ادا کیا۔ یہ رسالہ پابندی کے ساتھ پندرہ سال سے زائد عرصہ تک چلا لیکن پھر نہ جانے کن وجوہات کی بناء پر یہ سلسلہ ترک ہوگیا۔ جب بھی مولانا سے ملاقات ہوتی اس کا تذکرہ ضرور آتا لیکن مولانا یا تو میری تائید کرتے ہوئے جلد ہی اسکی تجدید کاوعدہ کرتے یامعنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی اختیار کر لیتے۰ حالانکہ الحمدللہ مولانا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ بہرحال ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگیں‘‘۔

مولانا بہت خوش اخلاق آدمی تھے یہ ان کی ہر ادا سے ظاہر ہوتا خوردونوش، لباس و پوشاک، گفتار ورفتار ،علم وقلم، نشست و برخواست، بحث ومباحثہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس کی اضافت ’’خوش ‘‘کے ساتھ نہ ہوتی ہو۔ان کا ظاہر جتنا اجلا تھا وہ ہر دیکھنے والے کے لئے جاذب نظر تھا اور ان کے بے تکلف دوست اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا کا صرف ظاہر ہی نہیں باطن بھی صاف تھا کیونکہ مولانا کے اوصاف میں سے ایک وصف جرأت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار تھا’حق گوئی ان کا شعار تھا یہی وجہ ہیکہ اگر انہیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی یا کسی کی رائے سے کوئی اختلاف ہوتا تو اس کو فوراً ظاہر کردیتے اور جب تک دونوں طرف سے ”افہام وتفہیم” نہ ہو جاتا وہ چین سے نہ بیٹھتے جب معاملہ سلجھ جاتا تو وہ واقعہ ”نسیاً منسیاً” ہوجاتا اور مولانا کا اخوت ودوستی کا رشتہ حسب سابق بحال ہو جاتا۔

مولانا کا ’’یارانہ مزاج‘‘ انہیں اپنی ذمیداریوں سے غافل نہ ہونے دیتا ایک ہی وقت میں وہ دوستانہ روابط کو بھی بخوبی نبھاہتے کاروباری مصروفیات کو بھی انجام دیتے تصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی جاری رہتا اور فرمائشی مضامین بھی قلم بند کرتے۔ ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ مولانا کے تعلقات’’ کثیرالجہات‘‘ تھے اور سب کی الگ الگ نوعیتیں تھیں وہ ان سب کا خیال کرتے ہوئے مخاطب سے اسی کے انداز میں گفتگو کرتے اور شائستگی کا دامن کبھی داغدار نہ ہونے دیتے۔

مولانا مرحوم کے تعلق سے یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ میری بالمشافہ آخری ملاقات مئی ۲۰۲۴میں ہوئی اس کے بعد میں دو تین ماہ کے لئے قطر چلا گیا اس درمیان کئی مرتبہ ٹیلیفون پر خوش گپیاں ہوئیں ہنسی کے فوارے چھوٹے۔ اگست کی۱۶تاریخ کو میں دیوبند گیا تو ارادہ یہی تھا کہ حسب معمول اسی دن ملاقات کی جائے لیکن گھریلو مصروفیات نے مہلت نہیں دی اگلے دن (۱۷/اگست کو) دارالکتاب گیا تو دار الکتاب کے منتظم سہیل عثمانی نے بتایا ’’کہ آج ہی امریکہ کے لئے گئے ہیں اوراب۱۴-۱۵/ اکتوبر کو واپسی ہوگی‘‘،واپسی تو ان کی۱۴/ اکتوبر کو ہی ہوئی لیکن اس عارضی ٹھکانہ پر نہیں جہاں کسی کو دوام نہیں، وہ دو تین ہفتہ بہت سے عوارضات سے گذرنے کے بعد وہاں چلے گئے جہاں ’’رب ذوالجلال والاکرام‘‘ کے ذریعہ پاکیزہ روحوں کو ’’نفس مطمئنہ‘‘ سے مخاطب کر کے ”راضیۃ مرضیۃ” کی حالت میں اپنے حضور لوٹ کراپنے (حقیقی) بندوں میں داخل ہونے اور جنت کی طرف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنے کی دعوت دی جاتی ھے‘‘۔مولانا کے اچانک چلے جانے سے اب یہ احساس مزید ستانے لگا کہ وہ قصبہ جہاں پانچ سال قبل تک ہر چہار سو بڑے بڑے علماء کے علاوہ دوسری صف کے وہ لوگ جو حلقۂ احباب میں شامل تھے جن میں مولانا حسن الہاشمی، مولانا حسیب صدیقی، مولانا طاہر الاسلام قاسمی، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا محمد اسلام قاسمی، عبد اللہ عثمانی، رضوان سلمانی سبھی اپنے اپنے مستقر پر پہونچ گئے، یہ وہ لوگ تھے جومجلسی انداز کے علم و قلم کے شیدائی تھے۔ اب جو حضرات معدودے چند باقی ہیں وہ یا تواپنی گونا کوں مصروفیات کے باعث علم و قلم کو بطور مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہم جیسے ’’بازاری قلم کاروں‘‘ کے پاس بیٹھنے کی فرصت نہیں یا ایسے حضرات ہیں جو راقم کو بزرگ مانتے ہوئے بے تکلفی سے اجتناب برتتے ہیں،قاری ابوالحسن اعظمی صاحب کی پیرانہ سالی، ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کی دیوبند مراجعت کے باوجود یکسوئی ، ڈاکٹر نواز دیوبندی صاحب کی تعلیمی و ادبی مصروفیات ، مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب کی تدریسی مصروفیات موقع بہ موقع استفادہ کا موقع ضرور فراہم کرتی ہیں لیکن وہ تسلسل باقی نہیں رہ پاتا جو مولانا ندیم الواجدی کا امتیاز تھا۔ اللہ سلامت رکھے اشرف عثمانی ، وجاہت شاہ، عارف عثمانی ، سمیر چودھری، فہیم صدیقی، عبدالرحمٰن سیف عثمانی جیسے لوگوں کو جو قلم کی آبیاری میں مصروف ہیں ، نوید صدیقی ، عمیر الٰہی اور نئی نسل کے کچھ نام نظر آتے ہیں جن سے مستقبل میں دیوبند کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

مولانا ندیم الواجدی دادھیالی نانیہالی اور سسرالی تینوں ہی اعتبار سے علم وفضل کے ان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھی جو ”ایں خانہ ہمہ آفتاب است” کا مصداق تھے ان کے پردادا سخاوت حسین نے بجنور سے ترک وطن کر کے بچوں کی دینی تعلیم دلانے کی خاطر دیوبند کو وطن ثانی بنایا اس کے نتیجہ میں ان کے بیٹے مولانا احمدحسن (مولانا ند یم الواجدی کے دادا) مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث کے عہدہ تک پہنچے۔ مولانا ندیم الواجدی کے والد مولانا واجد حسن ،مفتاح العلوم جلال آباد میں درس حدیث دینے کے علاوہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث بنے. مولانا کے ماموں مولانا شریف حسن دیوبندی دارالعلوم کے شیخ الحدیث کے منصب پرفائز رہتے ہوئے اپنے علمی کمالات کے ہنر ہزاروں شاگردوں میں منتقل کر گئے۔مولانا کے خسر محترم (مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب مدظلہ العالیٰ) دارالعلوم دیوبند کے فاضل’ وہاں کے شعبہ قرأت کے سابق صدر’ رہے اب گذشتہ چار دہائیوں سے ”شکاگو” (امریکہ) میں اپنے علم وفضل کے جلوے بکھیر رہے ہیں جس کی ظاہری شکل ’’دیار غیر‘‘ میں وسیع وعریض احاطہ میں موصوف کا قائم کردہ وہ دارالعلوم ھے’ جو ’’مادر علمی‘‘ (دارالعلوم دیوبند) کے مترادف کے طور پر پورے امریکہ میں مشہور ومعروف ھے. قاری صاحب موصوف دیوبند کے ایسے عثمانی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں جہاں شریعت اسلامیہ کے امور سے کما حقہ واقفیت رکھنے والے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ طریقت کے ”سربستہ رازوں” پر عبور رکھنے والی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ’’روحانی مریضوں‘‘کی ’’تطہیر‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیا اور جسمانی امراض میں مبتلا انسانوں کے امراض کو دور کرنے کی مقدور بھر کوششیں کر کے ’’شافی مطلق‘‘ کے حوالے کر نے کا کام بھی انجام دیا۔ قاری عبد اللہ سلیم صاحب کے والد مولانا محمد نعیم(متوفی جنوری ۲۰۰۸)(شکاگو’امریکہ)دارالعلوم دیوبند کے معروف استاذ حدیث تھے ، دادا حکیم محمد منعم دیوبند کے معروف معالج تھے تو ان(حکیم محمد منعم)کے والد حکیم محمد بشیر صاحب اپنے وقت کے صاحب نسبت بزرگ۔ گویاکہ ندیم بھائی تینوں ہی حیثیتوں سے من جانب اللہ ایسے ”سلسلۃ الذہب” کی کڑی تھے جسے ”وہبی” کہا جا سکتا ھے’ مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ اس ’’وہبی سلسلہ‘‘ پر ’’پدرم سلطان بود‘‘کہتے ہوئے اکتفا کر کے نہیں بیٹھے بلکہ کسبی طور پر اپنی محنت وریاضت ولیاقت سے اس سلسلہ کو مضبوط ترین کیا اور آگے کے لئے بھی ’’آہ سحر گاہی ‘‘و’’دعائے نیم شبی‘‘ کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے اپنے لائق و فائق فرزند (مولانا یاسر ندیم الواجدی) کی تعلیم وتربیت اس انداز سے کر گئے کہ اللہ نے انہیں بھی ’’قیمتی گوہر‘‘ بنا دیا،الحمدللّٰہ موصوف کم عمری میں ہی عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے نہ صرف واقف ہیں ‘بلکہ ان کو پیش نظر رکھ کر اسلام کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں میں پیدا شدہ اور اسلام مخالف طاغوتی سازشوں سے پیدا کردہ شکوک وشبہات کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں، پائیدار تصنیفی مطبوعہ علمی سرمایہ کے علاوہ، ذرائع ابلاغ کی ترقی یافتہ شکلوں بالخصوص’’ سوشل میڈیا‘‘ پر جدید تعلیم یافتہ طبقے کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دے کر یاسر ندیم اپنی علمی صلاحیتوں سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کر نے میں لگے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس سلسلہ کو حق و ثابت قدمی کے ساتھ تا قیامت باقی رکھے’ آمین، المختصر یہ کہ ہمارے دوست مولانا ندیم الواجدی صاحب اللہ رب العزت کے بلانے پر ان کے حضور حاضر ہوگئے اور اپنے پیچھے وہ تینوں چیزیں(علم نافع ،صدقۂ جاریہ اور اولاد صالح ، جن کو احادیث میں ذخیرۂ آخرت بتایا گیا ہے )چھوڑ گئے ہیں۔’’علمی سرمایہ‘‘ کی شکل میں اپنی تصنیفات کا ایک ذخیرہ،’’ صدقہ ٔ جاریہ‘‘ کی شکل میں طالبات کا دینی ادارہ( معہد عائشہ) اور’’ اولاد صالح‘‘ کی صورت میں مولانا یاسر ندیم الواجدی ایساسرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو ان شاء اللہ ان کے نام کو طویل مدت تک زندہ رکھنے والا اور قیامت میں ذخیرۂ آخرت کی شکل میں کام آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ

پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے آمین۔کسی شاعر نے مولانا جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا کہ ؎

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ

مٹتے نہیں ہیں جن کے زمانے سے نقش کبھی

۲۳/ جولائی۱۹۵۴ کو عالم آب و گل میں کھلنے والا یہ پھول بحالت ہوش وحواس زندگی کی ستر بہاریں دیکھنے کے بعد امریکہ کے دور دراز علاقہ ایلجین (نزد شکاگو) کے قبرستان میں پیوند خاک ہو گیا اور ہم جیسے لوگوں کو تعزیتی اجلاس منعقد کرنے اور یادداشتوں کو قلمبند کرنے کے لئے چھوڑ گیا، مجھے یہ افسوس تو ضرور ہوا کہ ہم جیسے مولانا کے لاتعداد چاہنے والوں کو نہ تو مرحوم کا آخری دیدار نصیب ہوا اور نہ ہی شانوں کو ان کی میت رکھی ’’چارپائی کا لمس‘‘ نصیب ہوا ،اور نہ ہی’’ منھا خلقنکم‘‘ و’’فیھا نعیدکم ‘‘و’’منھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘ کہتے ہوئے تین مشت خاک ڈالنے کا موقع نصیب ہوا۔ان چیزوں سے ہوتا تو کچھ بھی نہیں کیوں کہ انجام کا دار و مدار اعمال صالحہ پر ہے ،لیکن دل و دماغ کو یہ سکون حاصل ہو جاتا کہ ہم نے اپنے’’ جبل علم‘‘ دوست کو اپنے ہاتھوں سے اس قبر میں اتارا ھے جو بظاہر ایک ”گڈھا” ہے لیکن اللہ والے نیک دل لوگوں کے لئے اسکی وسعتیں زمین کو آسمان سے ملا دیتی ہیں۔ مجھے یک گونہ یہ اطمینان ضرور حاصل ہو گیا کہ امریکہ(ورجینیا)میں مقیم میرے بیٹے (عزیزم احمد رضا عثمانی سلمہ اللہ تعالیٰ) نے میرے اور مولانا کے تعلق کا خیال کرتے ہوئے اپنے دوستوں عنایت صاحب ‘ (داماد مفتی سلیمان ظفر) اور شیراز احمد کے ساتھ گیارہ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایلجین پہونچ کر نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہو کر ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا’ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے آمین۔اللہ تعالیٰ مولانا کی تمام نیکیوں کو قبول فرمائے

لغزشوں اورسیآت سے درگذر فرمائے ان کی قبر پر تا قیامت رحمت کے پھولوں کی بارش فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے آمین!

 

(ڈاکٹر) عبید اقبال عاصم

وادیٔ اسماعیل، دوہرہ معافی

علی گڑھ۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۴؁

موبائل نمبر +919358318995

Email. [email protected]

Comments are closed.