امریکہ کے سامنے کوئی نہیں ٹک سکتا!!! ڈاکٹر عزیراحمد قاسمی جنرل سکریٹری مرکزی جمعیۃ علماء ہند 

یہ امریکی صدر کی تقریر کا ایک ٹکڑا ہے ، جو انہوں نے ہيلين طوفان سے چند روز قبل کی تھی، ان کے اس متکبرانہ اور سركشانہ انداز نے مجھے اللہ تعالی کا وه فرمان (جو قوم عاد کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے) یاد آگیا جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ: "قوم عاد نے بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کر دی، اور کہنے لگے کہ ہم سے زیادہ (بہادر اور طاقتو ر)كون ہے؟ کیا انہوں نے يہ نہ سوچا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت ہی زیادہ زور آور ہے، اور وہ آخر تک ہماری آیتوں کا انکار کرتےرہے، بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندهى منحوس دنوں میں بھیج دی، تاکہ انہيں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں، اور( یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ رسوائی والا ہے، وہ مدد نہیں کیے جائیں گے) [سوره فصلت12ـ15]

جوبائيدن کے مغرورانہ دعوے اور چیلنج کے بعد فورا واحد ِقہار، ملکِ جبار ،جو کائنات کے نظام کو چلاتا ہے، اس کے معاملات کو ٹھیک رکھتا ہے، جس کے علم کے بغیر اس کائنات میں کوئی پتہ نہیں ہلتا ،اس قادر مطلق کی طرف سے فوری طور پر جواب ہيلين طوفان كى شكل ميں آيا، جس كى رفتار 280 کلومیٹر فی گھنٹہ تهى، جس میں عجيب خوفناک آواز تھی، قيامت خيز منظر تها،آندھی طوفان کی شکل میں ایسا سخت سیلاب آیا جس نے تناور اور مضبوط درختوں کو جڑ سے اكهاڑ پھینکا ، اور گھروں کو تہس نہس کر دیا، فوجی ہوائی اڈوں کو تباہ و برباد کر دیا،آپ نے ديكها ہوگا ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز كاغذ كےخالی ڈبوں کی طرح اڑ رہے تهے، چاروں طرف تباہی ہی تباہی کا منظر تھا ، اللہ اکبر

يہ اتنا بهيانك اورخوفناک منظر تھا کہ فوری طور پر جو بائدن نے وہائٹ ہاؤس سےباشندوں سے جان بچا کر بھاگنے کی اپیل کی، اور تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ فورا فورا فورا نکل لو، بہت خطرناک حالات ہیں، موت اور حیات کا منظر ہے، يہ اس صدی کی سب سے بڑی آفت ناگہانی ہے، ايسا منظر سوسال ميں كبهى نہيں ديكهاگيا، چند گھنٹوں میں پورى دنيانے امریکہ کے دو صوبوں کی بهيانك تباہی وبربادی کا منظردیکھا، تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ ہيلين طوفان سے 100 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ،عمارتیں، گلیاں سڑکیں تہس نہس ہو گئیں، موبائل اور بجلی کا نظام تباه وبرباد ہو گیا.

میں جو یہ باتیں ذکر کر رہا ہوں یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے، بلکہ ايسى سخت آندهی اور طوفان آیا ،خطرناک بارش ہوئی كہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس طرح اجتماعی طور پر بھاگ رہے تھے جيسے مظلوم اور مقہور فلسطینیوں شامیوں لبنانیوں کے بھاگنے کا منظر ہو ، جو ان ہى ظالموں کى پشت پناہى اور ان ہی کے تیار کردہ اور ان ہی کے دیئے ہوئے اسلحوں سے اسرائیلی یہودی، فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں ،ان کے بڑے بوڑھے جوان عورت مرد بچوں بيماروں معذوروں کو بڑی بے دردی اور سنگ دلی سے نيست و نابود کرنے کے درپے ہیں.

یہ کائنات رازوں اور بھیدوں کو اپنے اندر چھپائے ہوے ہے، جسے روشن بصیرت والے لوگ سمجھتے اور بوجھتے ہیں، ظاہری آنکھیں انہیں نہیں دیکھ سکتیں، اس بھیانک منظر كو ديكھ كر مجھے رب قہار و جبار کا وہ قول یاد آیا ،جس میں اس نے، ہٹ دهرم قوموں کا ذکر فرماياہے، جنہوں نے انبیاء کو جھٹلایا ،ان کو طرح طرح كى اذیتیں اور تکلیفیں پہنچا كر، غضب الہى كودعوت دى، جب عذاب آنے لگاتو اسكو دیکھ كر گهبرائے، حواس باختہ ہوكر اس سے بچنے کے لیے بھاگنے کی جدوجہد کی، اس کی منظر کشی کرتے ہوئے رب قہار [سورة الأنبياء آيت نمبر 12ـ15 ] ارشاد فرماتا ہے:جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس كيا، تو اس سے بھاگنے لگے(ہم نے كہا) بھاگو مت، اور جہاں تمہیں (نازونعمت كى)آسودگی دی گئی تھی وہیں واپس لوٹو، اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ، تاکہ تم سے سوال تو کر لیا جائے ؟کہنے لگے ہائے ہماری خرابی، بے شک ہم ظالم تھے، پھر برابر يہى كہتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کاٹ كر خاموش كرديا(يعنى نيست ونابود كرديا)

گویا رب کا منادی ان بھاگنے والوں سے پکار پکار کر کہہ رہا تھا، کہ اللہ کی پکڑ سےبھاگو مت، ان نعمتوں، خوشیوں، عيش وعشرت والى زندگیوں اور محفوظ رہائشوں کی طرف لوٹ جاؤ، كہاں ہے تمہارى ايٹمى وافرادى طاقت، تم ہى تو كل كہہ رہے تهے كہ امريكا كے سامنے كوئى نہيں ٹك سكتا؟

لیکن ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ فطرت اور پوری کائنات، آسمانوں سے لے کر زمین تک، سمندروں، دریاؤں ، زلزلوں، آتش فشاں اور سیلابوں تک پوری کائنات الله کی پیدا کی ہوئی ہے، اور اس میں کوئی چیز اس کے حکم كے بغير حرکت نہیں کرتی.

اس حادثے یا اس جیسے حوادث سے پوری مخلوق کو عبرت حاصل کرنا چاہیے ،خاص طور پر ان ظالم اور جابر حکمرانوں اور عہدے داروں کو ،جو اللہ کی گرفت اور اس کى پکڑ سے غافل ہو کر نفرت كى آگ بوتے ہيں، فتنہ وفساد بهڑكاتے ہيں ،مسلمانوں غريب كمزور انسانوں پر ظلم و جبر کرتے ہیں، ان کی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں کو مسمار کرتے ہیں، یا ان پر پابندی لگاتے ہیں ، ان کی اسلامی طرز زندگی پر ہر طرح کى روک لگاتے ہیں، یا مسلمانوں کو کلمہ گو ہونے کی وجہ سے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں، انہیں ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ یہ تخت و تاج برابر نہیں رہتے، ظلم و جبر کا انجام اچھا نہیں ہوتا،كبھی کبھی اس ظلم و جبر کا بدلہ اسی دنیا میں بھگتنا پڑتا ہے، اور رب قہار اور جبار کےيہاں تو ظلم و جور کی سزا بڑی بھیانک اور خطرناک ہے.

نيز ان حوادث سےمسلمانوں کے ایمان میں پختگی پیدا ہونی چاہیے، اور کامل یقین ہونا چاہیے کہ دنیا میں جو بھی حوادث پیش آتے ہیں، وہ اللہ کے حکم سے پیش آتے ہیں، اللہ تعالی کی اس عالم میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں، یہ ہوا بھی بہت عظیم نشانی ہے، اپنے چلنے اور ٹھہرنے، شدت اور نرمی، گرمی اور سردی ،نفع اور نقصان ،ہر اعتبار سے یہ ہوا اللہ کے حکم کے تابع ہے، درختوں اور بادلوں کے لیے ایسی ہوا ہے جو انہیں بار آور کرتی ہے، کشتیوں کے لیے ایسی ہوائیں ہیں جو انہیں چلاتی ہیں، عذاب کے لیے بھی ہوائیں ہیں جو رب ذوالجلال کے غضب اور ناراضگی کا پرتو ہيں، اور نہ جانے کتنی قسم کی ہوائیں ہیں ان کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے ، الله كے لشكروں كو صرف وہى جانتا ہے، ان ہواؤں کا چلنا، اور ان کا مختلف ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی مدبر علیم و حکیم ہے، وہ بڑی ذات ہے جو اسے جدھر چاہتی ہے اپنے حکموں سے گھما دیتی ہے،کبھی ان ہواؤں کو رحمت بنا دیتی ہے، کبھی عذاب بنا دیتی ہے، کبھی ان سے کھیتیوں اور پھلوں کو اگاتی ہے، اور کبھی یہ انہی کے لیے عذاب بن جاتى ہے، کبھی یہ ہوائیں کشتیوں کو چلاتی ہیں، اور کبھی ان کو ڈبو دیتی ہیں جیسا رب کریم کا حکم ہو، پاک ہے وہ ذات جس نے ہوا کو اپنی قدرت سے وجود بخشا، اپنے عظمت سے پیدا کیا، اپنی حکمت سے اس کو پھیرا، اپنی رحمت سے اس کو خوشگوار بنایا، اپنی مرضی کے تابع کیا، اور اسے تکمیل نعمت کا سبب بنایا، اور جس کو سزا دینا چاہا اس پر مسلط فرمایا.

ان حالات كے تناظرميں کیا جس شخص نے رات و دن گناہوں کے ذریعہ رب کریم کو چیلنج کرتا رہا، اور جس نے اللہ کی نعمت کی ناشکری کی، اللہ کا انکار کیا، اس نے اس قیامت خيز منظر کو دیکھتے ہوئے کيا اللہ کو پہچانا ؟ یا اس کی قدرت اور عظمت کو پہچانا ، اللہ کی ذات کا اعتراف نہ کرنا اس سے غافل رہنا، اس کی نعمتوں بخششوں عنایتوں احسانات کا اعتراف نہ کرنا کتنى بڑی جہالت ہے ؟ اور کیا ان خوفناك گھڑیوں میں ہم اللہ کی عظمت سے باخبر ہوئے؟ اللہ کے غضب وجلال، اس کی قدرت، اس کی حکومت اس كى سلطنت پرہم نے غور کیا؟

اللہ کی ذات کا اعتراف نہ کرنا، اس سے غافل رہنا، اس کی نعمتوں بخششوں عنایتوں اوراحسانات کا اعتراف نہ کرنا کتنى بڑی جہالت ہے؟ ارشاد ربانی ہے ترجمہ:” پس الله تعالى اور اسكى آيتوں (نشانيوں)كے بعد، يہ كس چيز پر ايمان لائيں گے؟ [سورة الجاثيہ 6]

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کے آفاقی قوانین گنہگار مسلمان سے دور نہیں، جس نے اللہ کی نافرمانی کی ہو، اور جرائم و گناہ کے ذریعے رب کریم کو چیلنج کیا ہو فورى توبہ كرلے، ہمیں ہرگز یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ہم باوجود گناہوں کے، اور اللہ کى حرام کردہ چیز وں کے ارتکاب کے، ہم محفوظ ہیں كيونكہ ہم مسلمان ہيں ارشاد ربانی ہے ترجمہ: خشكى اورترى ميں فساد ظاہر ہوگيا، ان برائيوں (گناہوں) كى وجہ سے جولوگوں كے ہاتهوں نے كمائے، تاكہ انهيں الله ان كے بعض كاموں كا مزه چكهائے، تاكہ وه باز آجائيں.[سورة الروم 41]

دوسری جگہ ارشاد ہے ترجمہ: پس خدا نے ان کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیا[ سورة آل عمران11]

تیسری جگہ ارشاد ہے ترجمہ: کہ ہم نے ان کو ان کی زیادتی کا بدلہ دیا[سورة الانعام146]

چوتهى جگہ ارشاد ہے ترجمہ: اور وہ ظالموں سے دور نہیں ہیں[سورة ہود83]

اس لیے ہمیں غفلت اور دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنے توبہ کی برابر تجدید کرتے رہنا چاہیے ،اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کثرت سے استغفار پڑھنا چاہیے، کیونکہ استغفار ہمارے لیے زمین ميں سلامتی کا ذریعہ ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ہم رب کے حکموں کی تعمیل کریں، اور اس کی منع کردہ باتوں سے بچیں، اور اس کے حدود کی پاسداری کریں، ہمیں اپنے عقیدے کو درست کرنا چاہیے، عبادت میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے، شریعت کی پوری طور پر پابندی کرنی چاہیے، اپنے رب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرنا چاہیے، قران اور سنت کو سینوں سے لگانا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے بے پناہ محبت کرنے والے بنیں، اللہ تعالی ہم سب پہ رحم فرمائے، ہم سے ظاہری اور باطنی فتنوں کو دور فرمائے، اور ہمیں اور آپ کو اور تمام عالم کی مسلمانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمين

Comments are closed.